حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، تاراگڑھ اجمیر میں امامبارگاہ آل ابو طالب علیہ السّلام میں ٢٨ رجب المرجب امام حسین علیہ السلام کی مدینہ سے مکہ روانگی کی مناسبت سے مجلس و جلوس عزاء کا انعقاد کیا گیا، جلوس سے قبل مجلسِ عزاء سے امام جمعہ تاراگڑھ حجۃالاسلام مولانا سید نقی مہدی زیدی نے خطاب کیا، مجلس میں مؤمنین و مؤمنات نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔
مولانا نقی مہدی زیدی نے مجلسِ عزاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امام حسین علیہ السلام مدینہ سے اس لیے تشریف لے گئے کہ یزید نے چند لوگوں سے بیعت کا مطالبہ کیا تھا جس میں امام حسین علیہ السلام کا نام بھی تھا اور حاکم مدینہ ولید کو اس بات کی تاکید کی گئی تھی کہ کسی بھی صورت ان سے بیعت لینا ہے۔
مولانا نقی مہدی زیدی نے کہا کہ ولید حاکم مدینہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کے ہاتھ امام حسین علیہ السلام کے خون سے رنگین ہوں، لیکن مروان جیسے بعض معاویہ کے حامی افراد نے اس پر دباؤ ڈالا اور اور ولید سے کہا کہ اگر حسین یزید کی بیعت سے انکار کرتے ہیں تو ان کا سر قلم کر دو؛ لہٰذا امام حسین علیہ السلام نے مدینہ کے حالات کو دیکھتے ہوئے، مدینہ کو خیر آباد کہہ دیا، جیسا کہ مقاتل میں ملتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام نے ۲۸ رجب کی شب میں اپنے بعض اہل خاندان کے افراد ساتھ مدینہ کو چھوڑ دیا، مدینہ چھوڑتے وقت امام علیہ السلام اس آیہ کریمہ کی تلاوت فرما رہے تھے:" فخرج منها خائفا يترقب قال رب نجني من القوم الظالمين". (سورۂ مبارکۂ قصص، آيت21) ترجمہ: موسیٰ شہر سے نکلے اس حال میں کہ خوفزدہ تھے اور ہر لمحہ حادثے کے منتظر تھے عرض کیا پروردگارا مجھے اس قوم سے نجات دے، یہ آیہ کریمہ اس بات کی گواہ ہے کہ مدینہ امام کے لیے جائے امن نہیں رہ گیا تھا۔
مولانا نے مزید کہا کہ امام حسین علیہ السلام نے مدینہ سے نکلتے وقت اپنے بھائی محمد حنفیہ کو وصیت نامہ دیا جس میں اپنے قیام کا مقصد بیان فرمایا انی لم اخرج اشرا و لا بطرا ولا ظالما ولا مفسدا انما خرجت لطلب الاصلاح فی امة جدی۔ ارید ان آمر بالمعروف و انھی عن المنکر و اسیر بسیرة جدی و ابی علی ابن ابی طالب“۔میرا قیام خودپسندی و گردن کُشی اور ظلم و فساد پھیلانے کے لئے نہیں ہے، بلکہ میرا قیام اپنے جد کی امت کی اصلاح کے لئے ہے؛ میں امر بالمعروف ونہی عن المنکر انجام دینا چاہتا ہوں اور اپنے نانا اور والد علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی سیرت کو اپنانا چاہتا ہوں۔
مولانا نقی مہدی زیدی نے یزید کی جانب سے بیعت پر اصرار اور امام حسینؑ کی جانب سے مسلسل انکار کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ سوال کرنے والا یہی سوال کیوں کرتا ہے کہ امام حسینؑ نے بیعت سے انکار کیوں کیا؟ یہ سوال کیوں نہیں کرتا کہ اگر امام حسینؑ انکار کررہے ہیں تو یزید کو بیعت لینے پر اصرار کیوں تھا؟ اس سوال کے جواب میں مولانا نے کہا کہ درحقیقت یزید کے انکار اور امام حسینؑ کے انکار کو ایک ساتھ دیکھا جائے تو جو سبب یزید کے اصرار میں ہے وہی سبب حسینؑ کے انکار میں نظر آئے گا، یزید چاہتا تھا کہ دین محمدی مٹ جائے اور حسینؑ چاہتے تھے کہ دین محمدی ابدی ہوجائے۔
امام جمعہ تاراگڑھ نے مزید بیان کیا کہ امام حسینؑ کی جانب سے یزید کی بیعت قبول کرنے کا مطلب یہ تھا کہ یزید کے تمام کالے کرتوتوں پر پردہ ڈال دیا جائے، اگر امام حسینؑ بیعت کرلیتے تو پھر کسی مسلمان میں یزید پر انگلی اٹھانے کی ہمت نہیں ہوتی، کیونکہ جب امام وقت اور جن کے گھر میں دین آیا تھا انہوں نے ہی بیعت کرلی تو پھر عوام کو اعتراض کا کیا حق ہے؟ امام حسینؑ یزید کی بیعت کرکے یزید کی تائید نہیں کرنا چاہتے تھے، یہی وجہ تھی کہ امام حسینؑ نے بیعت سے انکار کیا۔
مولانا نے علامہ مودودی کے نظریہ کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ"سوال یہ نہیں ہے کہ امام حسینؑ نے بیعت کیوں نہیں کی، سوال یہ ہے کہ جب امام حسینؑ نے بیعت نہیں کی تو پوری امت مسلمہ نے کیسے بیعت کرلی!؟ " کیا امت کو معلوم نہیں تھا کہ حسینؑ، امام وقت ہیں؟ کیا لوگ نہیں جانتے تھے کہ حسینؑ رسولؐ کے نواسے ہیں؟ سب کچھ جانتے ہوئے امت مسلمہ نے ایک فاسق و فاجر کی بیعت کرلی؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کو امام وقت کی معرفت نہیں تھی۔
انہوں نے کہا کہ نواسہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حضرت امام حسین علیہ السلام نے آج ہی کے روز مدینہ منورہ سے کربلا کا سفر شروع کیا تھا؛ ٢٨ رجب سنہ ساٹھ ہجری کو حضرت امام حسین علیہ السلام کے قافلے نے دین کے تحفظ اور انسانیت کی بقا کے لیے اپنی عظیم قربانی پیش کرنے کے لیے مدینہ سے سفر شروع کیا۔
مولانا نقی مہدی زیدی نے کہا کہ تاریخ میں ظلم کے خلاف اور انسانیت کے حق میں کئے گئے اس قیام کو رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔
آپ کا تبصرہ