منگل 28 جنوری 2025 - 07:30
حضرت ابو طالب (ع) رسول اللہ (ص) کے بہت قریب اور آپ کے اسرار سے واقف تھے، مولانا سید نقی مہدی زیدی

حوزہ/تاراگڑھ اجمیر کی مسجدِ پنجتنی میں  ٢٦ رجب المرجب یومِ وفات حضرت ابو طالب سلام اللہ علیہ کی مناسبت سے بعنوان "یاد محسنِ اسلام حضرت ابو طالب سلام اللہ علیہ" ایک مجلسِ عزاء منعقد ہوئی، مجلسِ عزاء سے امام جمعہ تاراگڑھ حجۃالاسلام مولانا سید نقی مہدی زیدی نے خطاب کیا، مجلسِ عزاء میں مؤمنین نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، تاراگڑھ اجمیر کی مسجدِ پنجتنی میں ٢٦ رجب المرجب یومِ وفات حضرت ابو طالب سلام اللہ علیہ کی مناسبت سے بعنوان "یاد محسنِ اسلام حضرت ابو طالب سلام اللہ علیہ" ایک مجلسِ عزاء منعقد ہوئی، مجلسِ عزاء سے امام جمعہ تاراگڑھ حجۃالاسلام مولانا سید نقی مہدی زیدی نے خطاب کیا، مجلسِ عزاء میں مؤمنین نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔

مولانا نقی مہدی زیدی نے مجلس عزاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حضرت ابو طالب کی تعریف و توصیف خداوند عالم قرآن مجید میں فرما رہا ہے سورہ والضحیٰ میں ہے ’’کیا اس نے تم کو یتیم پاکر پناہ نہیں دی ہے‘‘ ۔مفسرین نے لکھا ہے کہ پناہ سے مراد حضرت ابو طالب ؑ ہیں۔

مولانا نے واضح کیا کہ اکیلے حضرت ابو طالب علیہ السّلام کی حمایت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یہ اثر تھا کہ آنحضرت کو مکہ سے ہجرت نہیں کرنی پڑی، لیکن محسن اسلام حضرت ابو طالب علیہ السلام کے دنیا سے رخصت ہوتے ہی حضور اکرم ص کو مکہ چھوڑنا پڑا ۔ حضرت ابوطالب علیہ السلام کی نصرت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا مقابلہ تمام مسلمان مل کر بھی نہیں کر سکتے ۔ اسی لئے آپ کا حق ہے کہ آپ کو محسن اسلام اور محسن پیغمبر کے نام سے یاد کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ حضرت ابو طالب علیہ السلام کے ایمان میں شک و شبہہ پیدا ہونے کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے جیسا کہ خاصہ کے علاوہ عامہ کے علماء کی بھی ایک طویل فہرست ہے جو حضرت ابوطالبؑ کو مومن کامل مانتے ہیں اور ان کے ایمان کے منکر کو کافر جانتے ہیں ۔ جیسے ابن ابی الحدید معتزلی نے بیان کیا کہ اگر جناب ابوطالبؑ اور آپؑ کے فرزند نہ ہوتے تو اسلام کا قیام ممکن نہیں تھا۔

خطیبِ مجلس نے کہا کہ تاریخ میں روایت موجود ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کھلم کھلا اسلام کا اعلان کیا تو کفار مکہ جناب ابوطالبؑ کے پاس آئے اور کہا کہ آپ اپنے بھتیجے سے کہیں کہ ہمارے خداؤوں کو برا بھلا نہ کہیں تو جناب ابوطالبؑ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ان کا مدعا بیان کیا ۔ حضورؐ نے فرمایا: ائے چچا! اگر سورج کو میرے داہنے ہاتھ میں اور چاند کو بائیں ہاتھ میں رکھ دیں تب بھی میں اپنی بات سے پیچھے نہیں ہٹوں گا چاہے قتل کر دیا جاؤں۔ تو جناب ابوطالبؑ نے فرمایا:’’ امض لامرک فواللہ لا اخذلک ابدا‘‘ (خدا کی قسم میں آپ کے ساتھ ہوں اور آپ سے کبھی جدا نہیں ہوں گا، اس روایت میں حضرت ابوطالبؑ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپؐ کی رسالت کی حمایت کا اعلان کیا وہ بھی خدا کی قسم کے ساتھ۔ اور خدا کی قسم وہی کھائے گا جس کا خدا پر ایمان ہو۔

مولانا نے مزید کہا کہ اعلان اسلام سے برسوں پہلے جب حضرت ابوطالبؑ کی حضرت فاطمہ بنت اسد سلام اللہ علیہا سے شادی ہوئی تو آپ نے خطبہ میں فرمایا ’’اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ اَلْعَالَمِينَ رَبِّ اَلْعَرْشِ اَلْعَظِيمِ وَ اَلْمَقَامِ اَلْكَرِيمِ وَ اَلْمَشْعَرِ وَ اَلْحَطِيمِ اَلَّذِي اِصْطَفَانَا أَعْلاَماً ‘‘(تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہے جو عالمین کا پروردگار ہے، عرش عظیم، مقام کریم، مشعر و حطیم کا مالک ہے جس نے ہمیں نشانی کے طور پر منتخب کیا؛ اس روایت سے بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ حضرت ابوطالبؑ نے نزول قرآن سے برسوں پہلے ’’الحمدللہ رب العالمین‘‘ کی تلاوت کی اور اپنی خدا پرستی کے چراغ کی لو کو دور جاہلیت میں بھی بجھنے نہیں دیا۔

مولانا نقی مہدی زیدی نے مزید کہا کہ ان سب سے بڑھ کر خود جب حضورؐ کی جناب خدیجہ سلام اللہ علیہا سے شادی ہوئی تو حضرت ابو طالبؑ نے یوں خطبہ عقد پڑھا: الحمد للہ الذی جعلنا من زرع ابراھیم و ذریۃ اسماعیل و جعل لنا بیتا محجوبا و حرما آمنا ۔(ساری تعریف اللہ کی ہے جس نے ہمیں نسل ابراہیمؑ اور ذریت اسماعیلؑ میں قرار دیا، ہمیں بیت حج (خانہ کعبہ ) کا پڑوسی اور حرم امن میں قرار دیا، اس خطبے میں بھی حضرت ابو طالب علیہ السلام نے اللہ کی وحدانیت کے اقرار کے ساتھ ساتھ اس کے گھر خانہ کعبہ کی عظمت کا اعتراف فرمایا اور اسی خطبہ میں آگے خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بھی مدح سرائی فرمائی۔ جسے شیعوں کے علاوہ اہل سنت میں آلوسی اور زمخشری وغیرہ نے بھی نقل کیا ہے۔

مولانا نقی مہدی زیدی نے کہا کہ امام زین العابدین (علیہ السلام) کی مجلس میں حضرت ابو طالب کا ذکر آگیا تو آپ نے فرمایا: مجھے حیرت ہے کہ لوگوں کو حضرت ابو طالب کے ایمان میں شک و تردد ہے، کوئی ایسی عورت جس نے دین اسلام قبول کرنے کا شرف حاصل کرلیا وہ اپنے کافر شوہر کے عقد میں نہیں رہ سکتی ہے، جبکہ حضرت فاطمہ بنت اسد ان اوّلین خواتین میں سے تھیں جو دین اسلام کی سعادت سے مشرف ہوئیں، چنانچہ جب تک حضرت ابو طالب زندہ رہے وہ ان سے جدا نہ ہوئے؛ حضرت محمد امام محمد باقر علیہ السلام سے حضرت ابو طالب کے ایمان کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا: اگر حضرت ابو طالب کے ایمان کو ترازو کے ایک پلڑے میں رکھا جائے اور دوسرے پلڑے میں دیگر لوگوں کے ایمان کو رکھ کر تولا جائے تو یقیناً حضرت ابو طالب کے ایمان کا پلڑا بھاری رہے گا۔ کیا آپ کو اس بات کا علم نہیں کہ أمیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام نے بعض لوگوں کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ حضرت ابو طالب کی جانب سے فریضہ حج ادا کریں۔ حضرت امام صادق علیہ السلام نے رسول خدا کی حدیث بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ حضرت ابو طالب کا ایمان اصحاب کہف کے ایمان کی طرح تھا، اگرچہ وہ لوگ دل سے ایمان لے آئے تھے مگر زبان سے اس کا اظہار نہیں کرتے تھے۔ ان کے اس عمل کا خداوند تعالیٰ انہیں دوگنا اجر دے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ابن ابی الحدید معتزلی ابو طالب (ع) کے مقام و منزلت کو یوں بیان کرتے ہیں: جب پیغمبرِ خدا صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے اسلام کا تعارف اور دینِ اسلام کی دعوت دی تو ابو طالب علیہ السلام نے اپنے بچوں اور فاطمہ بنت الاسد کو اسلام کی دعوت دی۔ اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جناب ابو طالب علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بہت قریب اور آپ کے اسرار سے واقف تھے۔

مولانا نقی مہدی زیدی نے کہا کہ کہ حضرت ابو طالب علیہ السلام بنو ہاشم کے ایک ذمہ دار ترین فرد کی حیثیت سے خانہ کعبہ کے کلید بردار کی ذمہ داریاں ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اعلان رسالت سے لے کر شعب ابی طالب تک کے مراحل میں ختمی مرتبت، خاتم المرسلین (ص) کی سرپرستی کا جو عظیم فریضہ انجام دیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ چنانچہ ام المومنین حضرت خدیجہ الکبری اور جناب ابو طالب کی رحلت کے سال کو نبی رحمت (ص) نے "عام الحزن" قرار دیا اور اپنی دو عزیز ترین محسن و مربی ہستیوں کے غم و دکھ کا اظہار کیا۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha