حوزہ نیوز ایجنسی| ماہ مبارک رجب کا آخری عشرہ اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ اپنے دامن میں اپنی معنویت کے ساتھ کچھ اہم مناسبتوں کو بھی سمیٹے ہوئے ہے ایسی مناسبتیں جو تاریخ اسلام کے اہم موڑ سے گزرنے کی یاد دلاتی ہیں ۔
جہاں ان تاریخوں میں نام کے ان مسلمانوں کے قلعی کھلتی نظر آتی ہے جنہیں اپنی بہادری پر بڑا ناز تھا اور اسلام کی خاطر جان کی بازی لگا دینے کا انہوں نے ہمیشہ نعرہ دیا لیکن جب میدان ِعمل میں قدم رکھا تو ساری پول کھل کر سامنے آ گئی کہ کتنا دین کی خاطر قربانی کا جذبہ ہے اور کتنا خود کوہر قیمت پر بچانے لے جانے کی تمنا جہاں ایسے لوگوں کے چہروں سے نقاب اٹھتی ہے وہیں ماہ مبارک رجب کا یہ آخری عشرہ تاریخ اسلام کے اس سورما کی شجاعت کی یادگار بھی ہے جس نے فتح و ظفر کی ایک لازوال تاریخ رقم کر کے بتایا کہ انسان اگر خدا و رسول سے واقعی محبت کرتا ہوگا اور اس کے پیش ِ نظر خدا ہوگا تو کبھی بھی اس کے قدم کسی میدان سے پییچھے نہیں ہٹ سکتے ۔
ان ایام میں ۲۴ رجب کی تاریخ جہاں اس لحاظ سے اہم ہے کہ فتح خیبر کی یاد گار ہے وہیں ۲۲ رجب کی تاریخ جنگ خیبرمیں نمایاں شخصیتوں کے میدان چھوڑ کر بھاگنے کی یاد دلاتی ہے چنانچہ ملتا ہے کہ ۲۲ رجب ہی کی تاریخ میں جب ایک طرف یہودی خیبر نامی مضبوط قلعے کی پناہ میں تھے اور مسلمان سرداران لشکر قلعہ کو فتح کرنے کے لئے نکلے تو ایک بہت ہی نمایاں شخصیت اپنے پیروں کو جنگ میں جما نہ سکی پرچم ہاتھ میں لیکر نکلنے کے بعد بھی یہودیوں کے قلعہ پر پرچم نہ لہرا سکی [۱]۔
یوں تو تاریخ ایک آئینہ ہے جس میں ہم اپنے حال کی تصویر کو دیکھ سکتے ہیں لیکن یہ تب ہوگا جب ہم اس سے عبرت لیں گے اور تاریخ کے ان کرداروں کو پہچانیں گے جنہوں نے دین کے لئے اپنا سب کچھ قربان کر دیا ، تاریخ میں ان لوگوں کا کردار بھی ہے جنہوں نے دین کے نام پر قوم کو لوٹا اور ان لوگوں کا کردار بھی ہے جنہوں نے دین کےلئے سب کچھ لٹا دیا وہ لوگ بھی ہیں جو بڑے دین کا درد رکھنے والے بنتے تھے لیکن جب دشمن سے مقابلہ پر آئے تو انکے چھکے چھوٹ گئے اور میدان چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے اور وہ بھی ہیں جنہوں نے کبھی کوئی بڑا دعوی نہیں کیا انکا ہر عمل دین کی تقویت کا سبب بنا اور انہوں نے اپنے ہر ایک عمل کو خدا سے منسوب کر کے اپنے ایمان اور اپنے خلوص کو واضح کیا ، وہ جو کچھ کرتے گئے یہ کہہ کر کرتے گئے کہ یہ سب رب حقیقی کی عنایتوں میں سے ہے ہم نے کیا کیا ہے اسی خضوع اور اسی انکساری نے انہیں دنیا میں سربلند کر کے علی ع بنا دیا وہ علی ع جسکی فکر بھی بلند ، جسکا عمل بھی بلند جسکا نام بھی بلند ی و کمال کا استعارہ قرار پایا ، جہاں یہ رجب کا آخری عشرہ نام کے مسلمانوں کی بہادری کی پول کھولنے والی مناسبتوں کو ہمارے سامنے پیش کر رہا ہے وہیں اسلام کے حقیقی جانثاروں ، حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام اور جناب جعفر سے جڑی مناسبتوں کو بھی پیش کر رہا ہے ایک مناسبت وہ ہے جہاں امام علی علیہ السلام نے خیبر کے قلعہ کو فتح کر کے اسلام کی ایک نئی تاریخ رقم کی تو دوسری مناسبت وہ ہے جہاں جناب جعفر کی حبشہ سے سربلند بازگشت کی بنا پر سرکار رسالت مآب کے لبوں پر مسکراہٹ آئی ، یہ ایام اسلام کے مثبت اور منفی دونوں ہی طرح کے کرداروں کو پیش کر رہے ہیں لیکن جن منفی کرداروں کو تاریخ نے پیش کیا ہے اور انکی حقیقت سے پردہ اٹھایا ہے وہاں ہمیں ٹہر کر اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے ، انہیں صرف اس لئے پیش نہیں کیا گیا کہ ہم اسلام و مسلمانوں کی شرمساری کا سبب بننے والے اور میدان جنگ سے بھاگ کھڑے ہونے والے لوگوں کے سیادہ کارناموں کو ہم سن کر انہیں کھری کھوٹی سنا دیں کہ کتنے بیہودہ لوگ تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہوتے ہوئے یہودیوں کے سامنے نہ ٹک سکے ،یقینا انکا یہ عمل لائق مذمت ہے اور انکی شرمناک حرکت قابل ملامت ہے لیکن محض اتنا ہی نہیں کہ ہم دوسروں کی ملامت کرتے رہیں ہم ہی کیا ان پر تو پوری تاریخ ملامت کر رہی ہے اہم یہ ہے کہ ہم یہ طے کریں کہ آج کے خیبر میں ہم کہاں ہیں آج جب یہودیوں کی جانب سے مسلسل مسلمانوں کے خلاف سازشیں ہو رہی ہیں تو ہمیں سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں ؟ میدان میں ہیں بھی یا نہیں ۲۲ رجب کی تاریخ ہمارے سامنے یہ سوال رکھتی ہے کہ کل جو بھاگے تھے وہ تو بھاگے ہی تھے آج ہم کہاں پر کھڑے ہیں ؟
۲۳ رجب المرجب
۲۳ رجب کی ایک مناسبت جنگ خیبر میں ہی ایک اور نمایاں شخصیت کے پرچم ہاتھ میں لیکر یہودیوں کی طرف بڑھنے اور دشمن کو دیکھ کر بھاگ کھرے ہونے کی تاریخ ہے[۲] اور عجیب بات یہ ہے کہ یہ صاحب نہ صرف جنگ سے بھاگے بلکہ دوسروں کو بھی بھاگنے کی ترغیب دلاتے نظر آئے تھے[۳] انکا کردار تاریخ نے محفوظ کر لیا ۔ جنگ خیبر میں فرار کے بعد دوسروں کو ترغیب دلانا کتنی بڑی خیانت ہے آج بھی ہمیں اپنے معاشرہ میں ایسے لوگوں کو پہچاننے کی ضرورت ہے جودشمن کے مقابل خود تو کہیں نظر نہیں آتے اور ان لوگوں کو بھی مقابلہ نہ کرنے کی ترغیب دلاتے ہیں جو احساس ذمہ داری کے تحت دشمن کے سامنے سینہ سپر ہیں ۔اور اپنی اس بات کی ہزاروں تاویلیں بھی پیش کرتے ہیں مثلا اسلامی جمہوریہ ایران ہی کی مثال لے لیں وہ ملک جو مکمل طور پر اقتصاری ناکہ بندی کو جھیل رہا ہے چاروں طرف سے دشمنوں کے محاصرے میں ہے شدیدترین اقتصادی پابندیوں کے باوجود اسلام کے حقیقی دشمنوں کے خلاف مظلوموں کی آواز بنا ہوا ہے کچھ لوگ اسکے بارے میں ہی کہتے نظر آتے ہیں کہ کیا ضرورت ہے ساری دنیا سے بیر لینے کی ؟ کیا ضرورت ہے اتنے دباو کے باوجود اس فلسطین کے مسئلہ کو زندہ رکھنے کی جسے خود عربوں نے مردہ خانے میں ایک لاش کی صورت ڈال دیا ہے ،علاوہ ا ز ایں بر صغیر میں بھی اسی قسم کی فکر دوسرے انداز سے دیکھنے کو مل جائے گی اگر فرض کریں پاکستان میں کوئی فرض شناس عالم غلط رسوم اور سماج میں رائج غلط ریتی رواجوں کے بارے میں زبان کھولتا ہے تو سب اسے نصیحت کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ ہم تو اپنے کام سے کام رکھتے ہیں کیا ضرورت ہے ہر مسئلہ میں ٹانگ لڑانے کی ہر ایک کا اپنا اپنا عقیدہ ہے ،اگر کوئی دردمند شخصیت ملکی پیمانے پر اہلبیت اطہار علیھم السلام کے چاہنے والوں کو ایک پلیٹ فارم لانے کی کوشش کرتے ہوئے یہ چاہتی ہے کہ علی والوں کی واحد آواز ہو اور تاکہ ملکی سطح پر اسکے راست اثرات پڑ سکیں تو کچھ اپنے ہی اسکی ٹانگ کھیچنا شروع کر دیتے ہیں ، دشمن کی تو ضرورت ہی نہیں پڑتی اپنے ہی دشمن کی پالیسی کو آگے بڑھاتے نظر آتے ہیں اسی طرح ہندوستان میں بڑھتی ہوئی منافرت کے سامنے اگر کوئی آواز اٹھاتا ہے تو خود اپنے ہی مکھوٹے اس کے خلاف زہر افشانی کرتے نظر آتے ہیں ایسے میں ہمیں سوچنے کی ضرورت ہے کہ آج کے خیبر میں ہم کہاں کھڑے ہیں کیا ہمیں اپنے ہی دوستوں سے لڑائی لڑتے لڑتے موت کی آغوش میں چلے جانا ہے یا دشمنوں کے خلاف بھی کچھ کرنے کا عزم پیدا کرنا ہے ۔
ایسے میں ۲۲ رجب کے دن خیبر سے بھاگنے والوں سے اظہار بیزاری کے ساتھ کیا ہی اچھا ہو کہ ہم سوچیں کہ دین کے میدان میں ہم کہاں کہاں سے بھاگیں ہیں اور کہاں جمے ہوئے ہیں ۔
۲۴ رجب المرجب
جہاں ۲۲ رجب المرجب تاریخ اسلام کے بھگوڑوں کے بھاگ کھڑے ہونے سے پردہ اٹھاتی ہے وہیں ۲۴ رجب المرجب تاریخ اسلام کی عظیم فتح سے منسوب ہے جب ساتویں ہجری میں امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے ہاتھوں یہودیوں کے پرچم دار اور مرحب نامی بڑے سورما کو شکست ہوئی اور آپ نے مرحب کو ذوالفقار کا شکار بنا کر در خیبر فتح کیا [۴]
تاریخ کہتی ہے خیبر کی جنگ میں حضور سرورکائنات نے قلعہ قموص کا محاصرہ کر لیا تھا اور خیبر کی فتح کے لئے آپ نے مختلف بڑے بڑے لوگوں کو علم دیا لیکن کسی کو کامیابی نصیب نہ ہو سکی [۵]انجام کار حضور سرور کائنات نے اعلان کر دیا کہ کل اسکو علم دونگا جو مرد ہو گا بڑھ بڑھ کر حملے کرنے والا ہوگا ، میدان جنگ سے فرار نہیں کرے گا وہ خدا و) پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم (کو دوست رکھتا ہوگا اور خدا و) پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ( اسے دوست رکھتے ہوں گے اور خدا خبیر کو اسکے ہاتھوں فتح کرے گا[۶] ، تمام اصحاب کی یہ تمنا رہی کہ علم انہیں ملے لیکن حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے علم علی علیہ السلام کو دیا ، اور آپ کو میدان کارزار میں بھیجتے ہوئے یہ اہتمام کیا کہ اپنی زرہ آپ کو پہنائی ، اپنے ہاتھوں سے عمامہ بنا کر آپ کے سر پر رکھا ذوالفقار کو آپ کی کمر میں حمائل کیا اور خود مرکب پر سوار کیا اور چونکہ امام علی ع آشوب چشم میں مبتلا تھے حضور سرورکائنات نے آب دہان آپ کی آنکھوں پر لگایا جس سے آپ کو شفا ہوئی اسکے بعد آپکے کے لئے دعا ء فرمائی کہ پروردگار گرمی اور سردی کی زحمت کو علی سے اٹھا جس کے بعد آپ کو نہ کبھی آشوب چشم کی شکایت ہوئی اور نہ ہی ٹھنڈک اور گرمی نے پریشان کیا [۷]، آپ نے امام علی علیہ السلام کو میدان میں بھیجتے ہوئے فرمایا:
اس پرچم کو اٹھاؤ اور اپنے ساتھ لے جاؤ تاکہ خدا تمہارے ذریعہ خیبر کو مسلمانوں کیلئے فتح کرے[۸] حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آپ کو رخصت کرتے ہوئے خاص انداز میں اپنی محبت کا اظہار یوں فرمایا :
“علی جبرئیل داہنی جانب سے ، میکائیل بائیں جانب سے عزرائیل سامنے سے اور اسرافیل پیچھے سے ، خدا سر کے اوپر سے اور میری دعاء تمہارے پیچھے پیچھے تمہاری محافظ ہے “۔
امام علی ع علیہ السلام کے جانےکچھ ہی دیر بعد خیبر کی فتح کی خبر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تک آ گئی چنانچہ ابو رافع خادم رسول خدا(ص) کا فتح خیبر کے سلسلہ سے یہ بیان تاریخ کے دامن میں محفوظ ہے : “علی بن ابی طالب(ع) کے کے ہاتھ میں رسول خدا(ص) کا دیا ہوا پرچم تھا۔ جیسے ہی حضرت علی(ع) قلعہ کے نزدیک پہنچے تو قلعہ میں موجود افراد نے باہر آکر جنگ کرنا شروع کر دی ۔ جنگ کے دوران دشمن کی جانب سے کسی نے آپ پر ایک وار کیا جس کی وجہ سے آپ کے ہاتھ سے ڈھال زمین پر گر گئی اس موقع پر آپ نے قلعہ کے دروازے کو اکھیڑا اور اسے ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہوئے جنگ کرنے لگے یہاں تک کے خدا نے آپکو کامیابی نصیب کی [۹]
خیبرکے قلعہ کو فتح کرنا اور باب خیبر کو اکھاڑنا مرحب کو پچھاڑنا یہ تو امام علی علیہ السلام کا وہ کارنامہ ہے جس پر ہم سبھی خوشی سے جھوم اٹھتے ہیں اور ایسا ہونا بھی چاہیے لیکن ایک بات جو بہت اہم ہے وہ یہ آپ نے ایک ایسی تدبیر اختیار کی جس کے چلتے جنگ میں جانی نقصان کم سے کم ہو چنانچہ امام علیہ السلام کا ایک بڑا کارنامہ یہ تھا کہ آپ نے اس انداز سے جنگ کی کہ مرحب اور اسکے بھائی یاسر کو قتل کر دینے کے بعد دشمنوں کے اندر تاب مقاومت نہ رہی اور قلعہ میں موجود یہودیوں نے بغیر قید و شرط کے ہتھیار ڈال دئے ۔خیبر جیسی جنگ میں اس طرح جنگی حکمت عملی اختیارکرنا کہ قلعہ کے اندر تمام لوگوں نے ہتھیار ڈال دئے یہ امام علی علیہ السلام کی ایک بڑی کامیابی ہے ۔ جسکی نظیر تاریخ میں نہیں ملتی ۔
جناب جعفر کی حبشہ سے واپسی
خیبر کی فتح کے ساتھ ہی جناب جعفر کی حبشہ سے بازگشت کی خبر نے بھی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بہت مسرور کیا چنانچہ تاریخ میں ہے کہ آپ فتح خیبر کے دن ہی واپس پلٹے جب آپ کو جناب جعفر کی واپسی کی خبر ملی تو آپ نے فرمایا: میں کس بات پر زیادہ خوش ہوں ؟ جعفر کے آنے پر یا فتح خبیبر پر ، یہ کہہ کر جناب جعفر کو حضور سرورکائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی آغوش میں لے لیا اور آپ کی پیشانی کا بوسہ لیا [۱۰]. یقینا خیبر کی فتح اسلام کی ایک بڑی کامیابی ہے لیکن جناب جعفر کی حبشہ سے واپسی کے بعد پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا آپ کی بازگشت کو خیبر کی تاریخی کامیابی کے ہم پلہ قرار دینا اس بات کی دلیل ہے کہ اگر کوئی مسلمان ہجرت کر کے اپنے ایمان کو بچا لے جائے صر ف اتنا ہی نہ ہو بلکہ جس جگہ اس نے ہجرت کی ہے وہاں کے لوگوں کو بھی اپنے کردار و عمل سے متاثر کر دے اور دین کے پیغام کو لوگوں تک پہنچائے تو اس لائق ہے کہ اسکی واپسی کو خیبر کی فتح کے ہم پلہ قرار دیا جائے ، اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نزدیک محض یہی بات نہ تھی یقینا آپ بہتر جانتے ہیں کہ جناب جعفر ع آپ کے لئے کیا تھے اور انکی محبوبیت کا راز کیا تھا لیکن اس بات سے اتنا تو پتہ چلتا ہے کہ اگر کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا واقعی عاشق و پیرو ہوتا ہے اور حقیقیت میں صاحب ایمان ہوتا ہے تو رسول ص اسکی ہجرت سے بازگشت پر نہ صرف خوشی کا اظہار کرتے ہیں بلکہ اتنا خوش ہوتے ہیں کہ فرماتے ہیں آج اس مہاجر الی اللہ کی واپسی پر زیادہ خوشی کا اظہار کیا جائے یا خیبر کی فتح پر ، حضور سرورکائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یہ عمل ہمیں بتاتا ہے یقینا اگر کوئی اپنے نفس کو فتح کر لے تو اس لائق ہے کہ ہجرت سے واپسی پر اسے فتح خیبر جیسے عظیم واقعہ کی خوشی کے ہمراہ قرار دیا جائے ۔
حواشی
[۱] ۔ الغدیر ، جلد ۷ ص ۱۹۹، مسند احمد جلد ۵ ص ۳۵۳، مستدرک حاکم ، جلد ۳ ص ۳۷، اسد الغابہ ، جلد ۴ ص ۲۱ ، کنزالعمال ، جلد ۱۰ ، ص ۴۶۳،تاریخ دمشق، جلد ۴۱، ص ۴۶۴
[۲] ۔ وقائع الایام جلد ۱ ص ۲۱۱، ۲۱۳، وقائع المشہور ، ص ۱۴۷،
[۳] ۔ الغدیر ، جلد ۷ ص ۱۹۹، تاریخ المدینۃ جلد ۲ ص ۶۶۵، تاریخ طبری، جلد ۲ ص ۳۰۰، سیر اعلام النبلاء ، جلد ۱۴ ص ۲۰۹
[۴] ۔ مصباح المتھجد ص ۷۴۹، وقائع الایام ، جلد ۱ ص ۲۲۳
[۵] ۔ إنَّ رَسولَ اللّهِ(ص) بَعَثَ أبا بَکرٍ، فَسارَ بِالنّاسِ، فَانهَزَمَ حَتّى رَجَعَ إلَیهِ. وبَعَثَ عُمَرَ، فَانهَزَمَ بِالنّاسِ حَتَّى انتَهى إلَیهِ
المصنّف لابن أبی شیبة، ج ۷، ص ۴۹۷، ح ۱۷؛ مسند البزّار، ج ۲، ص ۱۳۶، ح ۴۹۶؛ خصائص أمیر المؤمنین للنسائی، ص ۵۴، ح ۱۳ کلّها عن أبی لیلى؛ السیرة النبویة لابن هشام، ج ۳، ص ۳۴۹؛ البدایة والنهایة، ج ۷، ص ۳۳۷ و ج ۴، ص ۱۸۶؛ تاریخ مدینة دمشق، ج ۴۲، ص ۸۹ والأربعة الأخیرة عن سلمة بن عمرو بن الأکوع؛ المناقب لابن المغازلی، ص ۱۸۱، ح ۲۱۷ عن أبی هریرة والخمسة الأخیرة من دون إسناد إلیه(ع)؛ الخصال، ص ۵۵۵، ح ۳۱ عن عامر بن واثلة؛ الأمالی للطوسی، ص ۵۴۶، ح ۱۶۸ عن أبی ذرّ؛ شرح الأخبار، ج ۱، ص ۳۰۲، ح ۲۸۳ والثمانیة الأخیرة نحوه؛ إعلام الورى، ج ۱، ص ۳۶۴ عن أبی لیلى وراجع: مسند ابن حنبل، ج ۹، ص ۱۹، ح ۲۳۰۵۴.
[۶] لُاعطِینَّ الرّایةَ غَدا رَجُلاً یحِبُّ اللّهَ ورَسولَهُ، ویحِبُّهُ اللّهُ ورَسولُهُ، کرّارا غَیرَ فَرّارٍ، لا یرجِعُ حَتّى یفتَحَ اللّهُ عَلى یدَیهِ.۔ الکافی، ج ۸، ص ۳۵۱، ح ۵۴۸ عن عدّة من أبناء المهاجرین والأنصار؛ الإرشاد، ج ۱، ص ۶۴؛ الإفصاح، ص ۳۴ و ۱۳۲؛ الأمالی للطوسی، ص ۳۸۰، ح ۸۱۷ عن أبی هریرة؛ الاحتجاج، ج ۲، ص ۲۵، ح ۱۵۰ عن الإمام الحسن(ع) عنه(ص)؛ شرح الأخبار، ج ۱، ص ۱۴۸، ح ۸۶ عن بریدة وفیه «یفتح خیبر عنوة» بدل «لا یرجع.. .»؛ عوالی اللئالی، ج ۴، ص ۸۸، ح ۱۱۱؛ إعلام الورى، ج ۱، ص ۲۰۷ عن الواقدی؛ الفضائل لابن شاذان، ص ۱۲۸؛ المناقب للخوارزمی، ص ۱۷۰، ح ۲۰۳ کلاهما عن عمر.مناقب امیر المومنین جلد ۱ ص ۳۴۵، صحیح بخاری ، جلد ۴ ص ۱۲ ، ۲۰، ۲۰۷ ، جلد ۵ ص ۷۶، صحیح مسلم ، جلد ۵ ص ۱۹۵، جلد ۷ ص ۱۲۲، مسند احمد ، جلد ۱ ، ص ۹۹ ، ۱۸۵، جلد ۳، ص ۱۶، جلد ۵ ص ۵۲، انساب الاشراف، ص ۹۳، ۹۴، مستدرک حاکم ، جلد ۳ ص ۳۸ ،
[۷] ۔ وقالَ: اللّهُمَّ اکفِهِ الحَرَّ وَالبَردَ. قالَ: فَما آذانی بَعدُ حَرٌّ ولا بَردٌ، خصائص أمیر المؤمنین للنسائی، ص ۵۴، ح ۱۳ کلّها عن أبی لیلى؛ السیرة النبویة لابن هشام، ج ۳، ص ۳۴۹
[۸] ۔”خذ هذه الرایة فامض بها حتی یفتح الله علیک؛، ۔ابن ہشام، سیرہ النوبویہ، ج۲، ص۳۳۴؛ حاکم نیشابوری، مستدرک، ج۳، ص۳۷
[۹] ۔ ذہبی، میزان الاعتدال، ج۲، ص۲۱۸؛ ابن حجر، فتح الباری، ج۹، ص۱۸
[۱۰] ۔ تہذِب الاحکام ، جلد ۳ ص ۱۸۶، وسائل الشیعہ ، جلد ۸ ص ۵۰۔
تحریر: سید نجیب الحسن زیدی