جمعہ 24 جنوری 2025 - 18:45
مادری زبان کا حق ادا کیسے کریں؟

حوزہ/معزز قارئین! آج ہمارے سامنے بہت سے غیر محل اور پیچیدہ مسائل کے ساتھ دو ایسے مسئلے ہیں جن کا حل آج کے اس پر آشوب دور میں بہت ضروری ہے، بلکہ ہماری ترقی اور کامیابی کی تمام تر راہیں یہیں سے نکلتی ہیں۔ پہلا مسئلہ ہماری مادری زبان سے تعلق رکھتا ہے جبکہ دوسرا مسئلہ ہماری تہذیب و ثقافت سے وابستہ ہے۔

تحریر: مولانا محمد رضا ایلیا ؔمبارکپوری

حوزہ نیوز ایجنسی| معزز قارئین! آج ہمارے سامنے بہت سے غیر محل اور پیچیدہ مسائل کے ساتھ دو ایسے مسئلے ہیں جن کا حل آج کے اس پر آشوب دور میں بہت ضروری ہے، بلکہ ہماری ترقی اور کامیابی کی تمام تر راہیں یہیں سے نکلتی ہیں۔ پہلا مسئلہ ہماری مادری زبان سے تعلق رکھتا ہے جبکہ دوسرا مسئلہ ہماری تہذیب و ثقافت سے وابستہ ہے۔

آج ہم انہیں مسائل کو اپنے اس مضمون میں جائزہ لینے کی کوشش کریں گے ۔ تو آیئے قارئین ہم جاننے کی کوشش کریں ان مسائل کی بنیاد کا آغاز کہاں سے ہوتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارا بچہ جب اس دنیا میں مادر آغوش میں آتا ہے تو اسے دو متضاد ماحول کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک اس کے گھر خاندان کا محدود مذہبی اور دینی ماحول دوسرا باہری اور خارجی ماحول ۔ یہیں سے بچے کی ذہنی اور شخصی تعمیر کی ابتداء ہوتی ہے اور یہیں سے اس کے اندر مرئی تعلیم اور روحانی کشمکش کا آغاز ہوتا ہے۔

والدین اسے مذہبیات اور روحانیات کی ترغیب دیتے ہیں اور دوسرے لوگ گھر کے باہر اس کی شخصیت اور اخلاق کو نقصان پہنچانے اور سماج دشمن عناصر سے اس کی شخصیت کو آلودہ کر دیتے ہیں اور جیسے جیسے اس کی زندگی پروان چڑھتی ہے یہ مثبت اور منفی عناصر بھی اس کے ذہنوں و دلوں میں اپنی جڑیں مضبوط کرتے چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ اس کا وجود خیر وشر کی آماجگاہ بن جاتا ہے۔

ایماں مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر

کعبہ میرے پیچھے ہے کلیسا میرے آگے

معزز قارئین وہ کون سی اکسیر یا سنجیونی بوٹی ہے جو ہماری اور ہمارے بچوں کی زندگی کو زہر آلود ہونے سے بچا سکتی ہے۔ ہمارے پاس اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے کہ ہم بچوں کی تعلیم و تربیتی کے لیے بہترین اور زود اثر و وسائل کا استعمال کریں اور وہ ذریعہ جن سے بچوں کی ذہنی اور روحانی نشو و نما ہوتی ہے وہ ہمارا خاندانی اور گھریلو ماحول ہے جہاں تک ممکن ہو سکے ہمیں گھر کے ماحول کو دینی، مذہبی اور علمی اعتبار سے آراستہ کریں۔ تہذیب و اخلاق کو پروان چڑھانے والے وسائل اور ذریعہ اپنائیں۔ زبان کی تعلیم و تہذیب کا خاص دھیان رکھیں کیونکہ بچوں کی تعلیم و تربیت کا یہی بنیادی ذریعہ ہے۔ زبان و انداز رہن سہن اور طور طریقوں کو بچوں کے لیے دلچسپ بنانے کی کوشش کریں۔ ابتداء ہی سے بچوں میں اردو اور عربی زبان کے تئیں شوق پیدا کریں اور اپنے گھر میں بھی ان زبانوں کی تعلیم و تدریس کا بہترین انتظام کریں، کیونکہ ہماری مستحکم بنیاد اور اعلٰی تعلیم کا نمونہ اسی مادری زبان میں پوشیدہ ہے۔

قرآن فہمی کے بغیر زندگی کو ہر گز بہتر نہیں بنایا جا سکتا کیوں کہ قرآن وہ کتاب ہے جس میں دنیا کے سارے علوم، زندگی گزارنے کے نایاب و انمول طریقہ، سماج و معاشرے کے تمام ذہنی و روحانی مسائل کا حل اسی عظیم کتاب میں موجود ہے اور یہ لاریب کتاب عربی زبان میں ہے اور احادیث اور اقوال معصومین علیہم السلام اور دنیا و آخرت کی کامیابی کے تمام ذرائع اور اسرار نمایاں کرنے والے فارمولے قرآن و احادیث میں موجود ہیں اور یہ اقوال و احادیث سب عربی زبان میں ہیں اور بغیر عربی زبان کے ہم ان کی گہرائیوں اور بحسن و خوبی طو پر صحیح معانی و مطالب تک نہیں پہنچ سکتے۔ لہذا عربی زبان کا سیکھنا ہمارے اور ہمارے بچوں کے لیے ضروری ہے۔ رہا سوال اردو زبان کا تو چونکہ یہ ہماری مادری زبان ہے اور ہماری تہذیب و ثقافت اسی زبان میں رچی بسی ہے اس لیے عربی کے ساتھ ساتھ اردو زبان کا علم ہمارے لیے ناگزیر ہے۔ آسان زبان میں کہا جائے تو مذہبی اور مادی زبان دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں ۔

مذہبی زبان-ہماری مذہبی زبان عربی ہے۔ ہم سب کو عربی سیکھنا چاہیے تاکہ ہم کسی کے محتاج نہ رہیں اللہ کے کلام، پیغمبر اسلامؐ کے پیغامات اور ائمہؑ کے اقوال کو آسانی سے سمجھ سکیں ۔ اگر ہم عربی زبان اور اس کی تہذیب و ثقافت نہیں سیکھی تو ہم سب واقعی اور حقیقی طور پر اپنے مذہب کے ساتھ وفادار نہیں ہیں ۔ آج اس دور کیا ہم جانتے ہیں کہ قرآن میں اللہ نے کیا کہا ؟ رسول ؐ انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے کیا کہا ؟ آئمہ معصومؑ نے کامیاب زندگی کے کیا اصول کیا بتائیں ۔ اسلامی معلومات سے کیا آپ کی واقفیت کم ہوتی چلی جارہی ہے؟ کیا قرآن کی ہمارے گھروں میں طاق کی زینت بنا ہوا ہے؟ کیا ہم سب پیغمبر کے پیغامات ہم بھول چکے ہیں۔ کیا اماموںؑ سے محبت کے دعوے صرف زبانی ہیں ۔ آج ہم اتنے محتاج ہو گئے ہیں کہ اگر ہمارے گھر میں کسی کا انتقال ہو جاتا ہے تو ہم پیسے دیکر مولوی صاحب سے قرآن پڑھواتے ہیں۔ پیسے دیکر نماز پڑھواتے ہیں۔ پیسے دیکر روزہ رکھواتے ہیں اب ہماری یہ حالت ہو گئی ہے کہ ہم ایک سورہ فاتحہ پڑھنے کے بھی محتاج ہیں کیونکہ سورہ الحمد آتی نہیں سورہ قل اللہ یاد نہیں۔ اگر یہ تمام باتیں سچ ہیں تو ہم اپنے مذہب کے ساتھ وفادار نہیں ہیں۔

مادری زبان-بچہ جب ماں کے پیٹ 18 ہفتہ یعنی 126 دن کا ہو جاتا ہے تو اس کا نظام سماعت یعنی سننے کی صلاحیت کام کرنا شروع کر دیتی ہے۔ جن آوازوں کو بچہ سنتا ہے، ان آوازوں میں بچے کے ذہن میں ماحول کا اثر پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ نیچرل بات ہے کہ بچے کی سوچ میں پھیلاؤ اور گہرائی صرف مادری زبان میں ہی ممکن ہے۔ جس اردو زبان کو ہم نے اپنی ماں کے پیٹ لے کر گود میں پرورش پائی اور سوچ اور سمجھ کی حالت تک ہم نے اسے سننا۔ آج کیوں بھول گئے ۔ آج وہ اردو جو ہم اپنی ماں کے پیٹ سے سیکھ کر آئے ہیں اس کا حال یہ ہے کہ اردو عین (عردو)سے عسکری الف سے(اسکری) لکھنا شروع کر دیا۔ آج ہم نعت، نوحہ، سلام و مرثیہ وغیر وغیر ہ ہندی اور انگلش رومن میں لکھ رہے ہیں۔ میلا دو محفل و عزاداری کے پوسٹرس ہندی میں شائع کر رہے ہیں حد تو اب یہ ہوگئی ہے کہ شادی کے کارڈ انگریزی میں چھپوا کر فخر محسوس کر رہے جب کوئی ان سے پوچھتا ہے کہ اردو میں کارڈ کیوں نہیں چھوا تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ جانتا ہی کون ہے اردو میں کارڈ چھپوانے سے ہماری بے عزتی ہوتی ہے۔ کیا ہم نے مذہبی اور مادری زبان کا حق ادا کیا ہے؟ اگر حق ادا نہیں کیا تو ہم مذہبی اور مادری ہونے کا دعویٰ کرنا چھوڑ دیں۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha

تبصرے

  • منتشرشده: 2
  • در صف بررسی: 0
  • غیرقابل‌انتشار: 0
  • Zayahade IN 11:16 - 2025/01/25
    Zayahade
  • Zayahade IN 11:14 - 2025/01/25
    Zayahade