جمعرات 19 دسمبر 2024 - 16:38
خاتون کی مرجعیت اور تقلید کے مسئلے کا تحقیقی جائزہ

حوزہ/ فقہ اسلامی میں مرجعیتِ تقلید ایک اہم مسئلہ ہے، اور اس سلسلے میں یہ موقف کہ عورت مرجع تقلید نہیں ہو سکتی، تاریخی، سماجی، اور ثقافتی عوامل کا نتیجہ ہے۔ اس موقف کی بنیاد زیادہ تر مردانہ معاشرتی نظام اور فقہی قواعد پر رکھی گئی، جن میں مردوں کو دینی و فقہی قیادت کے لیے زیادہ اہل تصور کیا گیا۔ قرآن و سنت میں عورت کی علمی صلاحیتوں کو کبھی بھی محدود نہیں کیا گیا، لیکن کئی روایات اور تفسیری رجحانات نے اس نظریے کو مضبوط کیا۔

تحریر: مولانا محمد احمد فاطمی

حوزہ نیوز ایجنسی| یہ مقالہ "خاتون کی مرجعیت اور تقلید کے مسئلے کا تحقیقی جائزہ" اور اسلامی فقہ میں خواتین کی مرجعیت کے موضوع پر تفصیلی مطالعہ فراہم کرتا ہے۔ اس میں تاریخی، سماجی، اور ثقافتی عوامل کا تجزیہ پیش کرتے ہوئے ان نظریات پر تنقید کی گئی ہے جو خواتین کو مرجع تقلید بننے سے روکتے ہیں۔ مقالہ اسلامی متون کی ان تفسیری روشوں پر سوال اٹھاتا ہے جو خواتین کی فقہی قیادت کو محدود کرتی ہیں۔ قرآن و سنت کے اصولوں اور معتبر فقہاء کی آراء کی روشنی میں، اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ فقہی قیادت کے لیے بنیادی معیار علم، تقویٰ، اور اجتہادی اہلیت ہے، نہ کہ صنفی امتیاز۔ مقالہ اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ خواتین کی مرجعیت، مساوات اور اسلامی معاشرت کی ترقی کے لیے ایک اہم عنصر ہے۔

کلیدی الفاظ: مرجعیت، تقلید، خواتین، اجتہاد، فقہ، مساوات، تقویٰ، شیعہ فقہ

فقہ اسلامی میں مرجعیتِ تقلید ایک اہم مسئلہ ہے، اور اس سلسلے میں یہ موقف کہ عورت مرجع تقلید نہیں ہو سکتی، تاریخی، سماجی، اور ثقافتی عوامل کا نتیجہ ہے۔ اس موقف کی بنیاد زیادہ تر مردانہ معاشرتی نظام اور فقہی قواعد پر رکھی گئی، جن میں مردوں کو دینی و فقہی قیادت کے لیے زیادہ اہل تصور کیا گیا۔ قرآن و سنت میں عورت کی علمی صلاحیتوں کو کبھی بھی محدود نہیں کیا گیا، لیکن کئی روایات اور تفسیری رجحانات نے اس نظریے کو مضبوط کیا۔

فقہی دلائل

فقہا کی آراء: زیادہ تر قدیم فقہا نے عورت کو قضا اور مرجعیت کے عہدے کے لیے نااہل قرار دیا۔ ان کے مطابق، مرجع تقلید کو قضا اور اجتماعی معاملات کی قیادت جیسے امور میں شامل ہونا ضروری ہے، جس کے لیے مرد ہونے کو شرط قرار دیا گیا۔

روایات: چند ضعیف روایات کو اس نظریے کی تائید کے لیے پیش کیا جاتا ہے، لیکن ان کی سند اور دلالت پر عصر حاضر کے علماء نے سوالات اٹھائے ہیں۔

اجتماعی تصور: معاشرتی روایات میں مردوں کو قیادت کے لیے زیادہ موزوں سمجھا جاتا رہا، اور اس نے فقہی فیصلوں کو بھی متاثر کیا۔

اس نظریے کے نقصانات

1. عورتوں کی علمی صلاحیتوں کا انکار:

یہ نظریہ عورتوں کی علمی اور فکری صلاحیتوں کو محدود کرتا ہے، حالانکہ تاریخ اسلام میں کئی جید خواتین عالمات رہی ہیں، جنہوں نے دینی معاملات میں گہری بصیرت فراہم کی۔

2. معاشرتی ترقی میں رکاوٹ:

جب عورتوں کو مرجعیت جیسے اعلیٰ دینی عہدوں سے محروم کیا جاتا ہے تو یہ معاشرتی ترقی میں ان کی شمولیت کو محدود کر دیتا ہے، جو کہ عصر حاضر کی ضروریات سے متصادم ہے۔

3. عورتوں کے مسائل کی نمائندگی کا فقدان:

خواتین کے مسائل کو مردانہ قیادت کی موجودگی میں اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے، اور عورت مرجع تقلید ہونے سے ان کے مخصوص مسائل پر بہتر اور جامع رہنمائی فراہم کی جا سکتی ہے۔

4. دینی قیادت میں یکطرفہ رجحانات:

اس نظریے کے باعث دینی قیادت مردوں تک محدود رہتی ہے، جو کہ دینی تفہیم میں توازن کے فقدان کا سبب بن سکتی ہے۔

عصر حاضر میں تجدید نظر کی ضرورت

1. اسلامی تاریخ کے مثبت پہلو:

تاریخ اسلام میں خواتین کی دینی خدمات کی مثالیں موجود ہیں، جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ دین اسلام نے کبھی بھی عورت کی علمی و فکری صلاحیتوں کو محدود نہیں کیا۔

2. معاشرتی تبدیلیاں:

جدید دور میں عورتیں ہر شعبے میں نمایاں کردار ادا کر رہی ہیں، اور تعلیم و شعور کی بلندی نے انہیں دینی قیادت کے لیے بھی اہل بنایا ہے۔

3. فقہی اجتہاد کی ضرورت:

اجتہاد ایک متحرک عمل ہے جو ہر دور کے تقاضوں کے مطابق ہوتا ہے۔ اس نظریے پر تجدید نظر کرتے ہوئے عورتوں کو مرجعیت کے لیے اہل قرار دینا دین کے جامع اور عدل پسند پیغام کو واضح کرے گا۔

4. مساوات کا اصول:

اسلام کا اصولِ مساوات عورتوں اور مردوں دونوں کو یکساں مواقع فراہم کرتا ہے۔ اس اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے مرجعیت جیسے دینی مناصب میں عورتوں کی شمولیت پر غور کرنا ضروری ہے۔

مرجعیت میں مرد ہونے کی شرط پر مختلف فقہاء نے مختلف آراء پیش کی ہیں۔ بعض فقہاء نے عورتوں کے لیے خاتون مجتہدہ کی تقلید کو جائز قرار دیا ہے، جبکہ مشہور نے مرد ہونے کو مرجعیت کی شرط سمجھا ہے۔ مرجع تقلید کے لیے مرد ہونے کی شرط کو سب سے پہلے شہید ثانی نے بیان کیا۔

شہید ثانی سے پہلے کے فقہاء کے اقوال میں اس شرط کا ذکر نہیں ملتا۔ اس کے بعد سید محمدکاظم طباطبائی یزدی نے ذکر کیا، جس کے بعد یہ شرط عام ہوگئی۔ اس کے برعکس، بعض فقہاء نے اس بات کا امکان تسلیم کیا ہے کہ اگر ضروری شرائط موجود ہوں تو خواتین ایک خاتون مجتہد کی تقلید کر سکتی ہیں۔

خاتون مجتہد کی تقلید کے حامیوں میں مندرجہ ذیل فقہا کا نام لیا جا سکتا ہے:

آیت اللہ محمد صادقی تہرانی (صادقی تهرانی، رساله توضیح المسائل نوین، ۱۳۸۴ش، ص۲۶)

آیت اللہ یوسف صانعی (صانعی، مجمع المسائل، ۱۳۸۷ش، ج۱، ص۲۰)

آیت اللہ محمد ابراہیم جناتی (جناتی، رساله توضیح المسائل، ۱۳۸۲ش، ص۶۲؛ جناتی، ادوار فقه، ۱۳۷۴ش، ص۳۷۱) شامل ہیں۔

آیت اللہ جوادی آملی (جوای آملی، توضیح المسائل، ۱۳۹۶ش، ص۲۸) کے مطابق بھی خواتین ایک خاتون مجتہدِ اعلم کی تقلید کر سکتی ہیں۔حال ہی میں رہبر انقلاب اسلامی، آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے خواتین کے ایک وفد سے گفتگو میں اسی نقطہ نظر کی تائید فرمائی ہے۔

وہ فقہاء جنہوں نے مرجع ہونے کے لیے مرد کی شرط کو قبول نہیں کیا یا اس میں شک ظاہر کیا ہے، ان میں سید محمد طباطبائی مجاہد، علی کاشف‌الغطاء، صاحب جواہر، محمد حسین غروی اصفہانی، سید محسن حکیم، سید علی حسینی شبّر، محمد علی اراکی، سید رضا صدر، مرتضی اردکانی اور سید تقی طباطبائی قمی شامل ہیں۔

عورت مجتہدہ کی تقلید کی مشروعیت کے چند دلائل؛

عورت مجتہدہ کی تقلید کے جواز میں متعدد دلائل موجود ہیں جن میں بنیادی طور پر علم و فہم کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔ یہاں ان دلائل پر تفصیل سے روشنی ڈالی جاتی ہے:

آیات کا ذکر؛

شیخ طوسی تفسیر التبیان میں سورۃ المجادلہ (58:1) کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ عورتوں کا دینی معاملوں میں دخل دینا اور ان کی باتوں کا اللہ کے ہاں سننا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ عورتیں فکری اور علمی حیثیت میں مردوں سے کم نہیں ہیں۔

"وَفِيهِ دَلِيلٌ عَلَى جَوَازِ إِمَامَتِهِمْ فِي بَعْضِ الْمَسَائِلِ وَالْوَجْهِ الَّذِي يُنَاقِشُونَ فِيهِ عِنْدَ اللَّهِ."

"اس میں یہ دلیل ہے کہ عورتیں کچھ دینی مسائل میں امام بن سکتی ہیں اور اللہ کے ہاں ان کی بحث اور رائے کو قبول کیا جاتا ہے۔"

شیخ طوسی اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے ایک عورت کی شکایت اور بحث کو تسلیم کیا، جو اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ایک عورت بھی دینی مسائل میں فیصلہ کر سکتی ہے اور اس کی رائے اہمیت رکھتی ہے۔(تفسیر التبیان،ج10، ص453)

وہ آیات جو کسی جنسیت کی قید کے بغیر، حقائق اور معارف کی سمجھ بوجھ کے لیے فرد کی اہلیت کو معیار قرار دیتی ہیں۔ جیسے:

فَاسْاَلُـوٓا اَهْلَ الـذِّكْرِ اِنْ كُنْتُـمْ لَا تَعْلَمُوْنَ (سورہ نحل آیت ۴۳)

حضرت فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا کا اسوہ؛

ہم جہاں تک غور کرتے ہیں اصلاً معصومین علیہم السلام کی تقلید کی جاتی ہے اور علماء ان کے علوم کے حاملین ہیں جس کی وجہ سے ان کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔ فہرست معصومین میں حضرت فاطمہ بنت رسول اللہ علیہم السلام کی موجودگی عورت کی تقلید جائز ہونے کی مضبوط دلیل ہے۔ ان کا اسوہ حسنہ اور فرمان حجت ہے۔ اور ان کی اطاعت و اتباع واجب ہے۔ (ڈاکٹر محسن نقوی)

جیسا کہ امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں: "حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی اطاعت تمام مخلوقات خدا، جنوں، انسانوں و پیغمبروں پر واجب ہے۔" (محمد بن جریر بن رستم طبری؛ دلائل الامامة، ص 28)

رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آئمہ اطہار کی سنت:

رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ اطہار علیہم السلام کی سنت میں یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ اگر کوئی شخص دینی معارف کا اہل ہو، تو اس کی جانب لوگوں کو رجوع کرنے کا کہا گیا۔ اس معاملے میں مرد یا عورت ہونا اہمیت نہیں رکھتا۔ ان خواتین میں سے ایک، جن کی جانب ارجاع کیا گیا، امام صادقؑ کی زوجہ اور امام کاظمؑ کی والدہ حمیدہ مصفاہ ہیں۔ (جناتی، ادوار فقه، ۱۳۷۴ش، ص۳۶۹)

ایک اور روایت میں جب امام صادقؑ سے حج میں عورت کی نیابت کے بارے میں سوال کیا گیا، تو آپ نے اس کو علم اور دینی فہم پر مشروط کیا اور فرمایا:

"بہت ممکن ہے کہ ایک عورت مرد سے بہتر ہو۔" (کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۴، ص۳۰۶)

تقلید کی حجیت؛

تقلید کی حجیت کے تمام دلائل میں اطلاق ہے اور کسی بھی دلیل میں مرجعیت کو مردوں تک محدود نہیں کیا گیا۔ مثلاً امام حسن عسکریؑ کی وہ روایت، جس میں تقلید کے قابل فرد کی خصوصیات بیان کی گئی ہیں، اس میں مرد ہونے کا ذکر نہیں کیا گیا۔

"و اما من کان من الفقهاء صائنا لنفسه حافظا لدینه مخالفا علی هواه مطیعا لامر مولاه فللعوام ان یقلدوه"

(حرّ عاملی، وسائل الشیعه، مؤسسة آل البیت علیہم السلام لإحیاء التراث، ج۲۷، ص۱۳۱)

اسلامی تاریخ میں خواتین فقہا؛

اسلامی تاریخ میں صحابہ، تابعین اور اس کے بعد کے ادوار میں خواتین فقہا موجود رہی ہیں، جن کے فقہی آراء کو مردوں سے مختلف نہیں سمجھا گیا۔ (جناتی، ادوار فقه، ۱۳۷۴ش، ص۳۶۸)

ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ قرون اولی میں دینی مسائل کی سمجھ کے لیے خواتین کی طرف رجوع عام تھا اور اس حوالے سے معصومینؑ کی جانب سے کوئی ممانعت نہیں کی گئی۔

پس عورتوں کے مخصوص مسائل کی پیچیدگیوں کے پیش نظر، ایک فقیہہ عورت موضوع کو زیادہ بہتر انداز میں سمجھ سکتی ہے اور زیادہ درست فتویٰ دے سکتی ہے۔ اس لیے، اگر مرد ہونے کو مرجع تقلید کی شرط مان بھی لیا جائے تو عورتوں کے لیے مجتہدہ عورت کی تقلید میں کوئی اشکال نہیں ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی کا بیان؛

رہبر معظم انقلاب اسلامی، آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے اپنے ایک حالیہ بیان میں فرمایا:

"امروز خوشبختانه زنهایی که مجتهدند، به اجتهاد فقهی رسیده‌اند کم نیستند. بنده حتّی معتقدم بسیاری از مسائل زنانه که موضوعش زنان هستند و مردها درست موضوع را تشخیص نمیدهند، باید خانمها از مجتهد زن تقلید کنند."

"آج خوش قسمتی سے ایسی خواتین کم نہیں جو مجتہدہ ہوں اور (باقاعدہ) فقہی اجتہاد کے درجے پر فائز ہوں، میں سمجھتا ہوں کہ خواتین سے متعلق بہت سے فقہی مسائل، جنھیں مرد فقہا ٹھیک سے نہیں سمجھ پاتے، میں خواتین کو خاتون مجتہدہ کی تقلید کرنا چاہیے۔"

رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای کا یہ بیان ایک اہم اشارہ ہے کہ آج کے دور میں خواتین کی علمی صلاحیتوں کو تسلیم کیا جا رہا ہے اور انہیں اسلامی فقہ میں اہم مقام دیا جا رہا ہے۔ اس بیان کا مقصد نہ صرف خواتین کی دینی و فقہی مہارتوں کو تسلیم کرنا ہے بلکہ اس کے ذریعے اس بات کو بھی واضح کرنا ہے کہ اسلامی معاشرے میں خواتین کو اجتہاد کی اعلیٰ سطح تک پہنچنے کی مکمل آزادی اور حمایت حاصل ہے۔

آیت اللہ العظمٰی خامنہ ای نے اپنے بیان میں دو اہم نکات پر زور دیا:

1. خواتین کی اجتہادی صلاحیتوں کا اعتراف:

آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ اب ایسی خواتین کم نہیں جو مجتہدہ ہوں اور فقہی اجتہاد کے درجے تک پہنچ چکی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی معاشرتی، علمی، اور فقہی سطح پر خواتین کی شمولیت بڑھ چکی ہے اور ان کا اجتہاد میں حصہ اہمیت اختیار کر چکا ہے۔

2. خواتین کے مخصوص مسائل میں مجتہدہ کی تقلید کی اہمیت:

رہبر معظم نے مزید کہا کہ بہت سے فقہی مسائل جنہیں مرد فقہا پوری طرح نہیں سمجھ پاتے، انہیں خواتین بہتر طور پر سمجھ سکتی ہیں کیونکہ یہ مسائل عموماً خواتین کی زندگی، جسمانی ساخت، اور تجربات سے جڑے ہوتے ہیں۔ اس بات کا مطلب یہ ہے کہ ایک خاتون مجتہدہ ان مسائل میں زیادہ مؤثر اور دقیق فتویٰ دے سکتی ہے، کیونکہ وہ ان مسائل کی پیچیدگیوں اور حساسیت کو مردوں سے زیادہ بہتر سمجھتی ہے۔

جنسیت کی بنیاد پر اجتہاد کے میدان میں فرق کا خاتمہ:

آیت اللہ خامنہ ای نے اس بیان میں کسی قسم کے جنسیتی فرق کو نظرانداز کیا ہے اور اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ دینی فہم، علم، اور اجتہادی صلاحیت کو مرد یا عورت ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ ایک اہم پیغام ہے جو اجتہاد کی مساوات کو فروغ دیتا ہے اور خواتین کے فکری اور دینی مقام کو تسلیم کرتا ہے۔

فقہ کے مخصوص مسائل:

رہبر معظم نے یہ بھی وضاحت دی ہے کہ خواتین کے مخصوص مسائل، جنہیں مرد فقہا مکمل طور پر نہیں سمجھ پاتے، میں خاتون مجتہدہ کی تقلید کرنا مفید ہو سکتا ہے۔ اس بات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ دینی مسائل کی پیچیدگیوں میں خواتین کے مخصوص تجربات اور فہم کا بڑا کردار ہے۔ یہ اس بات کا غماز ہے کہ خواتین کی فقہی مہارتوں کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا اور اس کے بجائے ان کی اہمیت کو بڑھایا جانا چاہیے۔

رہبر معظم کے اس بیان کے ممکنہ فوائد؛

1. خواتین کی تعلیم اور فقہ میں شمولیت کو بڑھانا: رہبر معظم کا یہ بیان خواتین کی دینی تعلیمات میں شمولیت اور اجتہاد کے میدان میں ان کی موجودگی کو بڑھا سکتا ہے۔ جب خواتین کو اجتہاد کی اجازت دی جاتی ہے اور ان کی تقلید کا جواز دیا جاتا ہے، تو اس سے خواتین کے لیے علمی میدان میں مزید مواقع پیدا ہو سکتے ہیں۔

2. مردوں اور عورتوں کے درمیان فکری مساوات:

اس بیان کے ذریعے رہبر معظم نے مرد اور عورت کے درمیان فکری مساوات کا پیغام دیا ہے۔ اس بات کا اعتراف کیا گیا ہے کہ کسی بھی فرد کے فقہی مقام کا تعین اس کی علمی صلاحیتوں پر ہوتا ہے، نہ کہ اس کی جنس پر۔ اس سے اسلامی معاشرت میں فکری مساوات کو فروغ ملے گا۔

3. خواتین کی مخصوص مشکلات کا بہتر حل:

آیت اللہ خامنہ ای نے یہ بات بھی کی ہے کہ خواتین کے مخصوص مسائل کی پیچیدگیوں کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے خاتون مجتہدہ کی تقلید کرنا فائدہ مند ہو سکتا ہے۔ اس سے خواتین کے مسائل کے لیے زیادہ مناسب اور جامع فتویٰ دیا جا سکتا ہے، جو زیادہ مؤثر اور حقیقت کے قریب ہو گا۔

4. اسلامی معاشرت میں خواتین کے مقام کا ارتقاء:

رہبر معظم کا یہ بیان خواتین کے مقام کو مزید مستحکم کرتا ہے اور اسلامی معاشرت میں خواتین کی فکری اور دینی اہمیت کو تسلیم کرتا ہے۔ یہ خواتین کے لیے ایک حوصلہ افزائی ہے کہ وہ فقہ اور اجتہاد کے میدان میں مزید تحقیق کریں اور اسلامی معاشرے میں اپنے مقام کو مضبوط کریں۔

آیت اللہ خامنہ ای کا یہ بیان اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ موجودہ دور میں خواتین کی علمی صلاحیتوں اور اجتہادی توانائیوں کا بھرپور اعتراف کیا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ خواتین کی مخصوص مشکلات اور مسائل کا بہتر انداز میں حل صرف ایک خاتون مجتہدہ ہی کر سکتی ہے، کیونکہ وہ ان مسائل کو بہتر طور پر سمجھنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔

دیگر فقہاء جو اسی نظر کے حامی ہیں انکی رائے مندرجہ ذیل ہے:

شیخ نائینی کی رائے:

شیخ نائینی نے اس بات پر زور دیا کہ عورتوں کو دینی مسائل میں اپنی رائے دینے کا حق ہے اور اگر ان میں علمی صلاحیت ہو تو وہ مرجع تقلید بن سکتی ہیں۔

"زن ها در مسائل دینی، به ویژه در مسائلی که مربوط به فقه و اصول است، می توانند صاحب نظر باشند و اگر در این زمینه توانمندی علمی داشته باشند، شایسته مرجعیت خواهند بود."

"عورتیں دینی مسائل میں، خاص طور پر فقہ اور اصولی مسائل میں، اپنی رائے دے سکتی ہیں اور اگر ان میں علمی صلاحیت ہو تو وہ مرجعیت کے قابل ہیں۔"

شیخ نائینی کی رائے کے مطابق، عورتیں بھی علمی حیثیت میں مردوں سے کم نہیں ہیں، اور اگر وہ دینی معاملات میں پوری قابلیت رکھتی ہوں تو وہ مرجع تقلید کے منصب پر فائز ہو سکتی ہیں (تنبیہات،ج2، ص47)

آیت اللہ محمد صادقی تہرانی کی رائے:

آیت اللہ محمد صادقی تہرانی ایک معروف فقیہ اور مجتہد ہیں, جنہوں نے خاتون مجتہدہ کی تقلید کے جواز پر اپنی رائے دی ہے۔ ان کے مطابق، اگر ایک خاتون فقہ اور اجتہاد کے تمام معیاروں پر پورا اُترتی ہے، تو اسے تقلید کی اجازت ہونی چاہیے۔ آیت اللہ تہرانی نے اپنی کتاب "رساله توضیح المسائل نوین" میں اس بات کو واضح کیا کہ خاتون مجتہدہ کی تقلید میں کوئی حرج نہیں، بشرطیکہ وہ دینی علوم میں گہری بصیرت اور علمی مہارت رکھتی ہو۔ اس رائے کو اسلامی فقہ میں اہمیت دی گئی ہے، اور ان کی اس رائے کو بعض دیگر فقہاء نے بھی تسلیم کیا ہے۔

آیت اللہ یوسف صانعی کی رائے:

آیت اللہ یوسف صانعی ایک اور معروف فقیہ ہیں جنہوں نے خاتون مجتہدہ کی تقلید کے جواز پر زور دیا ہے۔ انہوں نے اپنے فتویٰ میں کہا کہ اگر ایک خاتون اجتہادی معیاروں پر پورا اُترے تو وہ بھی ایک مجتہدہ بن سکتی ہے اور اس کی تقلید کی جا سکتی ہے۔ آیت اللہ صانعی نے اپنے "مجمع المسائل" میں اس بات کی وضاحت کی ہے کہ تقلید کا مقصد علمی اعتبار اور اجتہاد ہے، جو کہ جنس کے بغیر کسی بھی فرد میں ہو سکتا ہے۔ اس نقطہ نظر سے آیت اللہ صانعی نے خواتین کی علمی صلاحیتوں کی قدر کی ہے اور ان کے اجتہاد کو تسلیم کیا ہے۔

آیت اللہ محمد ابراہیم جناتی کی رائے:

آیت اللہ محمد ابراہیم جناتی ایک اور اہم فقیہ ہیں جننے خاتون مجتہدہ کی تقلید کی مشروعیت پر اپنی رائے پیش کی ہے۔ آیت اللہ جناتی کے مطابق، اگر ایک خاتون اجتہاد کے تمام معیاروں پر پورا اُترتی ہے تو وہ مردوں کی طرح تقلید کے قابل ہو سکتی ہے۔ ان کی رائے کے مطابق، تقلید کا معیار صرف علم، فہم، اور تقویٰ ہے، نہ کہ جنسیت۔ آیت اللہ جناتی نے اپنی کتاب "رساله توضیح المسائل" میں واضح طور پر کہا ہے کہ ایک خاتون مجتہدہ کی تقلید کرنے میں کوئی شرعی اعتراض نہیں ہے، اور اس کے اجتہادی درجہ کا احترام کیا جانا چاہیے۔ ان کا یہ نقطہ نظر اس بات کو تقویت دیتا ہے کہ خواتین کی اجتہادی صلاحیتوں کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

آیت اللہ جوادی آملی کی رائے:

آیت اللہ جوادی آملی، جو کہ ایک ممتاز فقیہ اور اسلامی فلسفے کے ماہر ہیں، نے بھی خاتون مجتہدہ کی تقلید کے جواز کو تسلیم کیا ہے۔ آیت اللہ آملی نے اپنی کتاب "توضیح المسائل" میں اس بات پر زور دیا ہے کہ اگر ایک خاتون اجتہاد کے تمام شرائط پر پورا اُترتی ہے، تو اسے تقلید کرنے کا حق حاصل ہے۔ آیت اللہ جوادی آملی کے مطابق، فقہ میں کسی فرد کی تقلید کا اصل معیار اس کی علمی صلاحیت ہے، جو کہ جنسیت سے قطع نظر ہوتی ہے۔ اس طرح، آیت اللہ آملی نے خواتین کی علمی صلاحیتوں کو بھرپور اہمیت دی ہے اور ان کے اجتہادی کام کو تسلیم کیا ہے۔

ڈاکٹر محسن نقوی کا موقف

ڈاکٹر محسن نقوی معروف پاکستانی محدث اور آیت اللہ العظمی خوئی کے شاگرد ہیں، آپ نے بھی اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ خاتون مجتہدہ کی تقلید میں کوئی شرعی رکاوٹ نہیں ہے۔ ان کے مطابق، حضرت فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا کی شخصیت اور ان کی علمی مقام کو دیکھتے ہوئے، یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ خواتین کو بھی اجتہادی صلاحیتوں کی بنیاد پر تقلید کرنے کا حق حاصل ہونا چاہیے۔ ڈاکٹر نقوی نے اس بات پر زور دیا کہ اگر عورت دینی مسائل میں مہارت رکھتی ہے، تو اسے مردوں کے برابر تقلید کی اجازت ہونی چاہیے۔ ان کی رائے میں، حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کا اسوہ خواتین کے علمی مقام کی اعلیٰ مثال ہے، اور اسی طرح کی خواتین کی تقلید بھی جواز رکھتی ہے۔

آیت اللہ استاد شہید مرتضی مطہری کی رائے:

آیت اللہ مرتضی مطہری ایک اہم فلسفی اور فقیہ تھے، جنہوں نے خاتون مجتہدہ کی تقلید کے جواز پر تفصیل سے لکھا ہے۔ آیت اللہ مطہری کے مطابق، تقلید کا اصل مقصد کسی فرد کی علمی صلاحیت کو تسلیم کرنا ہے، اور اس میں جنسیت کا کوئی دخل نہیں۔ اگر کسی خاتون میں علمی مہارت اور اجتہادی صلاحیتیں ہوں، تو اس کی تقلید کی جا سکتی ہے۔ آیت اللہ مطہری نے اپنی کتاب "زن و مسائل قضائی و سیاسی" میں اس موضوع پر تفصیل سے بات کی ہے اور اس بات کو ثابت کیا ہے کہ اگر عورت میں فقہ اور دینی فہم کی صلاحیت ہے، تو وہ تقلید کی مستحق ہو سکتی ہے۔

نتیجہ:

فقہ اسلامی میں خاتون مجتہدہ کی تقلید کی مشروعیت پر مختلف فقہاء کی آراء کی موجودگی اس بات کو واضح کرتی ہے کہ اس مسئلے پر متنازعہ اور مختلف زاویے ہیں۔ تاہم، زیادہ تر فقہاء نے اس بات پر زور دیا ہے کہ تقلید کا اصل معیار علم اور اجتہاد ہے، نہ کہ جنسیت۔ اگر خاتون میں اجتہاد کی تمام شرائط موجود ہوں، تو اسے تقلید کا حق حاصل ہے۔ اسلامی تاریخ میں بھی خواتین فقہاء کا ایک معتبر مقام رہا ہے، اور ان کے اجتہادی کام کو تسلیم کیا گیا ہے۔ اس لحاظ سے، خاتون مجتہدہ کی تقلید کی جوازیت اسلامی فقہ کی وسیع روایات اور اجتہادی بصیرت پر مبنی ہے۔

حوالہ جات:

1. قرآن مجید، سورہ نحل، آیت 43

2. قرآن مجید، سورہ المجادلہ، آیت 1

3. طبری، محمد بن جریر بن رستم؛ دلائل الامامة، ص 28

4. شیخ طوسی؛ تفسیر التبیان، ج 10، ص 453

5. کلینی، ابو جعفر؛ الکافی، ج 4، ص 306

6. شیخ نائینی؛ تنبیہات، ج 2، ص 47

7. جناتی، محمد ابراہیم؛ رساله توضیح المسائل، ص 62; ادوارد فقه، ص 371

8. جوادی آملی، عبد اللہ؛ توضیح المسائل، ص 28

9. خامنہ ای، علی؛ خواتین کے اجتماع سے خطاب، دسمبر 2024، khamenei.ir

10. کلینی؛ الکافی، ج 4، ص 306

11. مطہری، مرتضی؛ مجموعه آثار استاد شهید مطہری (زن و مسائل قضائی و سیاسی)، ج 29، ص 422

12. نقوی، محسن؛ صحبت در گروہ مباحث، موضوع مرجعیت خواتین اور دین

13. صادقی تہرانی، محمد؛ رساله توضیح المسائل نوین، ص 26

14. صانعی، یوسف؛ مجمع المسائل، ج 1، ص 20

15. حرّ عاملی، محمد بن حسین؛ وسائل الشیعه، ج 27، ص 131

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .

تبصرے

  • منتشرشده: 1
  • در صف بررسی: 0
  • غیرقابل‌انتشار: 0
  • شاهینه DE 23:36 - 2024/12/19
    بہترین تحریر ہے، رہبر معظم کے حالیہ خطاب نے ایک نیا در کھولا ہے خدا مومنات کو اس میدان میں کامیاب فرمائے