حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حضرت میر ببر علی انیس صاحب کی تاریخ وفات کی مناسبت سے جامعہ امام جعفر صادق علیہ السّلام میں مولانا سید صفدر حسین زیدی صاحب کی سرپرستی میں ایک تعزیتی ریفرنس منعقد ہوا اور ان کی ادبی خدمات کو یاد کیا گیا۔
پروگرام کا آغاز تلاوتِ کلامِ پاک سے حافظ زمن صاحب نے کیا
سب سے پہلے مولانا عنبر عباس صاحب نے میر انیس صاحب کی پاکیزہ نفسی طہارت اور معنوی بلندی کا ذکر کیا۔
اردو ادب میں میر انیس کا کلیدی کردار رہا ہے۔ عام فہم زبان میں کربلا کی حقیقت سے قریب منظر نگاری فرمائی وہ لا زوال ہے۔ اللہ ان کے درجات کو بلند کرے۔
مولانا محسن صاحب نے اپنے بیان میں میر انیس کی عظمت و بلندی کا اعتراف کیا اور ان کی زبان و بیان، فصاحت، بلاغت، اشارہ کنائے کے انداز کو پیش کیا میر انیس کا لگاؤ کربلا والے اور کربلا سے ایسا تھا، جیسے خون گوشت دل و دماغ میں بس وہی رچا بسا تھا۔
مولانا آصف عباس صاحب نے بیان فرمایا کہ میر انیس آج کے ذاکرین و خطباء کے لیے بہترین نمونۂ عمل ہیں، جن کو پڑھ کر خطیب زبان و بیان کو بہتر بنا سکتا ہے اور بناتا بھی ہے۔
مولانا طاہر عابدی غازی پوری نے میر انیس کے سلسلے میں تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میر انیس نے غم کے مناظر کو زبان حال کے ذریعے اس طرح سے بیان کیا کہ ہر آدمی کو کربلا سے محبت اور رغبت پیدا ہوئی اور کربلا کو سمجھنے کی صلاحیت پیدا ہوئی۔ یقیناً یہ مقولہ مشہور و بجا ہے کے اردو ادب سے اگر دو میر اور دو میرزا کو نکال دیا جائے تو اردو ادب کا دامن خالی ہو جاتا ہے، ایک میرزا غالب اور دوسرے میرزا دبیر اور ایک میر تقی میر اور دوسرے میر انیس ہیں۔
میر انیس کے کلام میں ادبی، معنوی اور انقلابی کچھ ایسی ہی کیفیت تھی جس پر علامہ شبلی نعمانی بھی قلم اٹھانے پر مجبور ہوئے اور موازنہ انیس و دبیر جیسی کتاب لکھی اور ان کی ادبی خدمت کے اعتراف کا واضح اعلان ہے۔
دنیائے ادب میں میر انیس مدتوں یاد کیے جائیں گے، میر انیس نے اپنے مراثی اور نظم میں امکانی طاقت کے اعتبار سے وہ کچھ لکھ دیا ہے جو آسانی سے ممکن نہیں۔
مولانا احمد عباس صاحب نے میر انیس کے کچھ بند پڑھے اور ان کی عظمتوں اور بلندیوں پر روشنی ڈالی۔
مجلسِ ترحیم سے مولانا رضا عباس خان صاحب نے خطاب کرتے ہوئے شعر و شاعری و شعراء کے کردار پر گفتگو کی اور بیان فرمایا کہ ہر زمانے میں شعر کے ذریعے آسانی سے اپنی بات کو پہنچایا جا سکتا ہے۔
اس پروگرام میں مولانا دلشان خان صاحب، مولانا سیف عابدی صاحب، مولانا صادق عباس صاحب، جناب مصطفیٰ صاحب شمسی موجود رہے اور آخر میں مولانا شاذان زیدی صاحب نے تمام مؤمنین کا شکریہ ادا کیا اور حضرت میر ببر علی انیس اعلیٰ اللہ مقامہ کے لیے سورۃ الفاتحہ کی گزارش کی۔
آپ کا تبصرہ