ہفتہ 21 دسمبر 2024 - 17:00
کتنی بلند ہے منزلت و شان فاطمہ (س)!

حوزہ/آپ کی کنیت ام الحسن، ام الحسین، ام الائمہ، ام السبطین اور ام ابیہا ہیں۔ غالباً اس آخری کنیت کے معنی عام لوگوں کی سمجھ میں نہ آئیں۔ یہاں 'ام' کے معنی مقصد کے ہیں۔ گویا اس کنیت کے معنی ہوئے "اپنے باپ کی اُمید" واقعی تبلیغ حق عنو انعقاد و نسل وغیرہ امور میں آپ اپنے والد ماجد کی مطلوب امید تھیں۔

تحریر: ڈاکٹر شجاعت حسین

حوزہ نیوز ایجنسی|

برتر ہے برگزیدہ و اعلیٰ صفات ہے

زہرا (س) نہیں‌‌ ہے دین خدا کی حیات ہے

جرأت کس میں تیری ثناء کر سکے رقم

تعظیم خود نبی کریں وہ تیری ذات ہے

دل بند خاتم النبیین، جگر گوشۂ سید المرسلین، ختم رسالت کا درخشاں نگین، مقام عظمت میں عرش نشین، ہمسر امیر المومنین، عصمت کا وہ مبین، خاتون خلد برین سیدہ النساء العالمین جناب فاطمتہ الزہرا (س) کی ولادت باسعادت 615 عیسوی یوم جمعہ 20 جمادی الثانی بعد بعثت 5 سال اور ہجرت سے 8 سال 8 مہینے اور 22 دن قبل ہے۔ یہ تاریخ پیدائش جناب امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ہے۔ اور یہی قول معتبر ہے۔ حاکم نے مستدرک میں اور عبدالبر نے الاستیعاب میں لکھا ہے۔ آج پوری دنیا میں حضرت فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا کی 1409 ویں یوم ولادت باسعادت موقع سے جوش وخروش، تزک و احتشام سے محفلیں منعقد کی جا رہی ہیں۔ مٹھاںٔیاں تقسیم کی جا رہی ہیں۔ امام بارگاہیں سجاۓ گۓ ہیں۔ لنگر و سبیل لگی ہیں۔ مصافحہ، معانقہ اور تقبیل دیکھنے میں آ رہے ہیں۔

آپ کی کنیت ام الحسن، ام الحسین، ام الائمہ، ام السبطین اور ام ابیہا ہیں۔ غالباً اس آخری کنیت کے معنی عام لوگوں کی سمجھ میں نہ آںٔیں۔ یہاں 'ام' کے معنی مقصد کے ہیں۔ گویا اس کنیت کے معنی ہوۓ "اپنے باپ کی اُمید" واقعی تبلیغ حق عنو انعقاد و نسل وغیرہ امور میں آپ اپنے والد ماجد کی مطلوب امید تھیں۔

حضرت فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا کے درج ذیل القاب ہیں: البتول، الحصان، الحرہ، السیدہ، العزرا، الطاہرہ، زہرا، الزکیہ، المرضیہ، وغیرہ۔ آپ کو بتول اس وجہ سے کہتے ہیں کہ آپ کا کوئی نظیر حُسن و جمال و صفات میں نہ تھا۔

آپ کے والد افضل بشر، رحمت اللعالمین، تاجدار انبیاء، حبیب خدا، سید المرسلین، جن کی والدہ گرامی سیدہ خدیجۃ الکبریٰ، ملکتہ العرب، جن کے شوہر علی ابن طالب، امیر المومنین، امام المتقین، کل ایمان، ساقی کوثر، فاتح خیبر، اسداللہ الغالب، جن کے فرزند حسن و حسین، جوانان جنت کے سردار، باغ توحید کی بہار، مراتب کا آبشار، تخلیق خدا کے شاہکار و کشتی نجات ہیں۔

آپ کی تخلیق نور خدا و رسول سے ہویٔ۔ تمام انبیاء و معصومین کا نور صلب آدم و رحم حوا کے پاک صلبوں اور طاہر رحموں سے منتقل ہوتا ہوا رسول تک پہنچا اور جناب فاطمہ کا نور عرش پر بیت معمور میں رکھا گیا کیونکہ خدا کو گوارا نہ تھا کہ آپ کا نور رسول کے علاوہ کسی اور صلب یا رحم میں رہے۔ اس لیے دوران معراج رسول حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو بشکل میوہ جنت، سیب تناول کرایا گیا اور تب آپ کا وجود اقدس رحم مادر میں منتقل ہوا۔

جناب فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا کی شان میں بیشمار احادیث رسول کتب کی زینت بنی ہویٔ ہیں جن میں سب سے مشہور احادیث پاک مندرجہ زیل میں ہیں:

'فاطمہ میرا ٹکڑا ہے', 'فاطمہ جنت کی عورتوں کی سردار ہے', 'فاطمہ ام ابیہا ہے', 'جس نے فاطمہ کو تکلیف پہنچائی اس نے مجھے ایزا دی', 'جس نے فاطمہ کو غضبناک کیا اس نے مصر ھے غضبناک کیا', 'جس سے فاطمہ راضی اس سے میں راضی اور جس سے میں راضی اس سے اللّٰہ راضی', 'جس سے فاطمہ ناراض اس سے میں ناراض اور جس سے میں ناراض اس سے اللّٰہ ناراض جو کفر ہے'۔

جناب فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا نے صرف اٹھارہ سال کی عمر میں وہ فضائل و عظمت حاصل کیے کہ خاتون جنت اور سیدہ النساء العالمین ہو گیٔں اور وہ مصاںٔب برداشت کیے کہ ام المصاںٔب کہلایٔں۔ آپ مبتداۓ تخلیق سے تا قیامت تمام نساء العالمین سے افضل ہیں۔ حدیث میں ہے کہ اے رسول اگر مجھے فاطمہ کو پیدا کرنا نہ ہوتا تو تم کو اور علی کو پیدا نہ کرتا۔ فاطمہ نے کتنا بلند مرتبہ پایا کہ آپ وجہ تخلیق محمد و علی ہیں۔ دین بھی رقص کرتا ہے عظمتیں فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا پر:

ہرہر قدم پہ ہوتی ہیں قربان عظمتیں

نظریں جھکا کے اتریں فلک سے نجابتیں

ہیں محو دید لوح سے قرآں کی آیتیں

تطہیر لے کے آیٔ ہے جملہ طہارتیں

طاہر ظہور، بنت رسالت مآب کا

یہ تیسرا ورق ہے طہارت کے باب کا

قرآن کریم کی آیات مبارکہ میں آپ کا قصیدہ سُرور و سُرود سے بیان کیا گیا ہے، آپ تمام خواتین جنت کی سردار ہیں، آپ تاجدار انبیاء و ختم المرتبت کی پارۂ جگر ہیں، امام المتقین کی شریک حیات ہیں، نوجوان جنت، حسنین و کریمین کی والدہ ہیں۔ رسول اکرم ﷺ نے آپ کے لیے کھڑے ہو کر آپ کی عظمت و فضیلت اپنی امت کے لیے واجب قرار ریا۔ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے فرمایا: "میرے والد نے مجھے خبر دی ہے کہ جو کوئی اُنؐ پر اور مجھ پر تین روز سلام کرے، خدا وند بہشت کو اس کا نصیب قرار دے گا۔" راوی نے سوال کیا آپ کے والدؐ پر صرف، آپ لوگوں کی حیات میں سلام کرے گا یہ اجر ہے؟ آپؑ نے فرمایا "حیات اور اس کے بعد بھی یعنی دونوں صورتوں میں۔"

(عورت) اگر بیٹی ہے تو رحمت، اگر بیوی ہے تو شوہر کے نصف ایمان کی وارث، اگر ماں ہے تو اس کے قدموں میں جنت لیکن فاطمتہ الزہرا سلام اللہ علیہ کی شان و شوکت دیکھئے: اس باپ کے لیے رحمت جو خود رحمت العالمین ہیں، اس شوہر کے لیے نصف ایمان جو خود کامل ایمان ہیں اور آپ کے قدموں میں ان بیٹوں کی جنت ہے جو جنت کے سردار ہیں۔

کتنی بلند ہے بخدا شان فاطمہؑ، جزوٍ رسالت و امامت، صدیقہ کسا۶، فتح مباہلہ، تفسیر و شرح آئینہ تطہیر، صورت کوثر، معراج پیمبر کی بہشتی سوغات، تفسیر میں قرآن کی تنوین ایماں، اسی کے گھر سے جاری چشمۂ نور ہدایت، عالمین عورتوں کی سردار شفیعہ روز محشر، نور پیغمبر، لخت و گوشۂ قلب رسولؐ، کمال عفت و عصمت بقائے دیں ہے ترویج شریعت، جس کی تعظیم پیمبر پر لازم، وہ ہے کون و مکاں، کلام خالق کائنات کی کونین، قرآن ہے زبان کنیزانٍ فاطمہؑ، وہ ہیں فاطمہؑ جو پردہ نشین ہوکے بھی دین کو محفوظ کر گئیں۔

وجہ بقائے نسل نبوت ہے فاطمہؑ

سب سے عظیم جو ہے وہ نعمت ہے فاطمہؑ

اے نا شناس سورۂ کوثر کو پڑھ کر دیکھ

اللہ کے رسولؐ کی عزت ہے فاطمہؑ

مندرجہ بالا تحریر سے معزز قارئین سیدہ فاطمہ زہراؑ کی عظمت اور فضیلت لگ بھگ قطرہ بھر کا احاطہ کر چکے ہوں گے۔ راقم الحروف کی دلی خواہش ہے کہ مندرجہ ذیل تحریر سے عالم اسلام کی تمام خواتین حضرات چاہے وہ دنیا کی کسی خطہ کی باشندہ ہوں، پارۂ جگر رسولؐ کی حیات طیبہ اور ان کمال و فضل کا سنجیدگی سے مطالعہ کریں۔ ان روشنی میں اپنی زندگی، خاندان کے افراد کی زندگی، اپنے والدین، شوہر، فرزند، دختر، کنیز، پڑوسی اور دیگر رشتہ داروں کی دنیاوی و اُخروی زندگی کو متاثر کر ان افراد کی زندگی کو ترتیب، تشکیل، آراستہ، مہزب و سنوار سکتی ہیں۔ حضرت سیدہ فاطمہؑ کی نادر و نایاب گوہر سے مزین کردار جیسے اللہ سبحانہ کی شب و روز عبادت، زہد، تقویٰ، حق کی حفاظت، ایثار و رضا، صبر و شکر خدا، ہر خاتون اپنے کسب کمال کے لیے ان خصوصیات کا اتباع کرتے ہوئے اپنے آپ کو چراغ ہدایت کے لیے مثبت و مثالی کردار تمام خواتین کے لیے نمونۂ عمل کے طور پر پیش کرنے کی کوشش و سعی کر سکتی ہیں۔

حضرت فاطمتہ الزہرا (س) کے کمالات اور مشکل کشا ٕ کی مشکل کشائی کے حوالے سے آیتہ اللہ محمد جواد فاضل لنکرانی طاب ثراہ کی کتاب "تفصیل آیتہ اللہ فاضل رحہ نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ جب شادی ہوئی تو عقد کے دوسرے روز پدر بزرگوارٍ فاطمہ س نے اپنے داماد، شیرٍ خدا حضرت علی علیہ السلام سے سوال کیا کہ بتاؤ، تم نے میری بیٹی کو کیسا پایا؟ حضرت علیؑ نے رسول اکرمؐ کو بتایا کہ اللہ کی عبادت و اطاعت میں مددگار پایا۔ المختصر حضرت علیؑ کائنات کے مشکل کشا ٕ ہیں اور جناب فاطمہ زہراؑ حضرت علیؑ کی مشکل کشا ٕ ہیں۔

عظمت فاطمہؑ بیان کرنے کے لیے یہ قابل ذکر ہے کہ امام زمانہ عجل اللہ تعالٰی الفرجک الشریف فرما رہے ہیں کہ جناب فاطمہؑ گیارہ آئمہ کے لیے نمونۂ عمل ہیں لیکن عورتوں کے لیے صرف حضرت فاطمہؑ نمونۂ عمل قرار پائیں۔

اس درمیان حضرت فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا کی منزلت و شان کو دلائل دے کر واضح کرنا چاہتا ہوں۔ 11 ہجری کی 28 سفر المظفر پر غور کریں کہ حضرت فاطمہ کے گھر میں داخل ہوے کے لئے ملک الموت بار بار اذن چاہتا ہے، رسول اکرم اپنے صحابی کے ساتھ حضرت فاطمہ کے گھر میں داخل ہونے کی اجازت چاہتے ہیں، آپ سے معافی ما نگنے کے لیے گستاخ صحابہ آتے ہیں، حضرت علی سے اجازت چاہتے ہیں لیکن حضرت علی جناب فاطمہ سے اجازت حاصل کرنے کی بات کر روک دیتے ہیں، حبیب خدا معراج کے دوران زمین سے ہوا، ہوا سے فضاء، فضا سے خلا اور خلا سے آسمان، معبود تک جہاں مقصد فاطمہ وہاں سید الملائکہ بھی ایک قدم بڑھا نہ سکے ورنہ بال و پر جل جائے گا، اب آخری دلیل کہ حضرت فاطمہ سب سے پہلے جنت میں داخل ہوں گی جہاں ہر فرد بشر کو اذن فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا لازمی ہے۔

عزیزان ایمان و صحابہ و آپ کے پیروکار غور کریں: جس نے فاطمہ کو ناراض کیا، گھر میں آگ لگایٔ، دروازے گراۓ، حضرت محسن کو شہید کیا، پسلی کی ہڈیاں توری، فدک غصب کیا، قرآن کریم کی دلیل جھٹلایا، ثبوت کے کاغز پھاڑ دیے، مسجد میں کھڑا رکھا۔۔۔یہ تو بے شمار۔ ہے، جن پر خدا کی لعنت اتری۔ اسے جنت میں داخلہ کے لیے اذن حضرت فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا لازمی ہے۔ یہ ہے شان و منزلت فاطمہ۔

نمونہ عمل کو حاصل کرنے کے لیے ضروری نہیں ہے کہ نمونہ عمل ظاہر ہو، کیونکہ اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ گزشتہ دور میں جو جو شخصیات گزری ہیں وہ موجودہ دور کے افراد سے بہتر نمونہ عمل بن سکتے ہیں، کیونکہ نمونہ عمل کے حصول کا اصلی محور تربیت اور انسانی قدر و قیمت کے کلی اصول ہیں کہ جو زمانے کے گزرنے کے ساتھ پرانے نہیں ہوتے، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی زندگی بھی نمونہ عمل ہے، نہ صرف ہمارے بلکہ عالم بشریت کو نجات دینے والی شخصیت کے لیے بھی کیونکہ اس بزرگوار کی زندگی کا ہر پہلو ہمارے لیے روشن ہے اور تاریخ میں بیان ہوئی ہے اور جب دنیا باقی ہے تمام پاک و پاکیزہ ہستیوں کے لیے نمونہ عمل ہیں۔ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی پاک و پاکیزہ اور خوبصورت رحمتیں، ان کی زندگی کی نورانیت اور راتوں کو عبادت، ان کی سادہ زندگی، نا محرم افراد سے ان کا رد عمل، دینی احکامات میں ان کی مکمل پیروی، دینی اور دنیوی معیار کے مقابلے میں انسانی اقدار کو اہمیت دینا، چشم پوشی، ولایت کا دفعہ اور اسی کے ہزاروں کردار فاطمہ زہرا (س) کی بنیادی زندگی کے ہزاروں نکات ہیں جو ہمیشہ کے لیے نمونۂ عمل بن سکتے ہیں۔

فاطمہ زہراؑ سلام اللہ علیہا کے کردار، صفات، منزلت، کمالات، فضیلت و عظمت سمجھنے اور آپؑ کو نمونۂ عمل جاننے کے لیے کوئی کتاب سیدہ فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا پر دستیاب ہو تو ضرور پڑھیں اور دوسرے حضرات کو بھی کتاب پڑھنے کا مشورہ دیں۔ کتاب فکر روشن کرتی ہے، وسعت دیتی ہے اور علم و معرفت میں اضافہ کرتی ہے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .