جمعرات 13 نومبر 2025 - 07:00
حضرت فاطمہؑ؛ امام مہدیؑ کی نظر میں اسوۂ حسنہ

حوزہ/ ایّامِ فاطمیہ کے موقع پر ہمارا مقصد یہ ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی مبارزاتی، سیاسی اور سماجی سیرت اور ان کے بے مثال اور پائیدار کردار کا جائزہ لیتے ہوئے، معتبر تاریخی منابع کی روشنی میں حقائق کو آشکار کریں، تاکہ ابتدائی اسلامی تاریخ کے واقعات کا ایک جامع و عمیق تجزیہ پیش کیا جا سکے۔

حوزہ نیوز ایجنسی| حضرت امام مهدی موعود عجل الله تعالی فرجه الشریف سے منقول ایک بابرکت روایت میں ارشاد ہوتا ہے: «وَ فی إبنةِ رسولِ اللّهِ صلّی اللّه علیه و آله لی أُسوةٌ حسنة» "رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کی دختر (حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا) میرے لیے بہترین نمونہ اور کامل اسوہ ہیں۔"

یہ روایت شیخ طوسیؒ کی کتاب الغیبة میں نقل ہوئی ہے۔ وہاں بیان ہے کہ ابن ابی غانم قزوینی نے امام حسن عسکری علیہ السلام کی امامت کے بعد جانشینی کے مسئلے پر اختلاف کیا تھا۔ بعض شیعوں نے اس تنازع کی اطلاع امام زمانہ (عج) کو خط کے ذریعے دی۔ امام (عج) نے جواب میں شیعیانِ حق کے لیے دعا فرمائی اور چند اہم نکات بیان کیے، جن میں فرمایا: "فاطمہ زہرا علیها السلام، رسولِ خدا کی دختر، میرے لیے بہترین نمونہ ہیں۔"

امام زمانہ (عج) کے لیے حضرت زہرا (س) کی سیرت بطور نمونہ

محققین نے بیان کیا ہے کہ امام (عج) نے حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی سیرتِ مبارکہ سے تین پہلوؤں کو اپنا نمونہ قرار دیا ہے:

1. بیعتِ ظالم سے انکار:

حضرت زہرا سلام اللہ علیہا نے اپنی پوری زندگی میں کسی ظالم حکمران سے بیعت نہیں کی۔

اسی طرح امام مهدی (عج) بھی کسی جابر و ستمگر کی بیعت اپنے ذمے نہیں رکھتے۔

2. ظاہری اسباب سے اجتناب:

اس خط کے موقع پر کچھ شیعہ امام کی امامت پر شک میں مبتلا تھے۔ امام (عج) نے فرمایا: "اگر اجازت ہوتی تو میں حقیقت کو تم پر ایسے واضح کر دیتا کہ کوئی شک باقی نہ رہتا، مگر میری اقتدا حضرت زہرا سلام اللہ علیہا سے ہے۔ جس طرح انہوں نے، باوجود حقِ خلافت کے غصب ہونے کے، غیر معمولی طریقہ اختیار نہ کیا، میں بھی اپنے حق کے لیے غیر عادی راہ اختیار نہیں کرتا۔"

3. امت پر شفقت و صبر:

امام (عج) فرماتے ہیں: "اگر ہماری محبت اور شفقت تم پر نہ ہوتی، تو تمہارے ظلم اور انکار کی وجہ سے ہم تم سے کنارہ کر لیتے۔"

یہاں امام (عج) حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی اُس رحمت و دردمندی کو یاد دلاتے ہیں، کہ باوجود ظلم و جفا کے، وہ امت کے لیے دعا کرتی رہیں۔ امام (عج) بھی اسی سیرت پر قائم ہیں۔

فاطمہ (س)؛ واحد مددگارِ ولیِ خدا

جیسے بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تنہا چھوڑ دیا، ویسے ہی امت نے حضرت علی علیہ السلام کو اکیلا کر دیا۔ اس وقت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا تھیں جو علی کے ساتھ کھڑی رہیں۔

علیؑ نے کہا: "پروردگارا! میرے پاس فاطمہ کے سوا کوئی مددگار نہیں۔" اور فاطمہؑ نے گواہی دی کہ وہ اُس امت سے بیزار ہیں جس نے امامِ زمانہ کو تنہا چھوڑا۔ اسی لمحے سے غیبت اور حیرانی کا زمانہ شروع ہوا۔ امت سرگردان ہوگئی، اور نجات کا راستہ صرف ایک ہے: فاطمیہ کے پیغام کو سمجھنا اور حجتِ خدا کی نصرت میں لبیک کہنا۔

شناختِ حقیقت کا راستہ: فاطمہ (س)

تاریخ بتاتی ہے کہ سب نے علیؑ کو نہیں بھلایا تھا، بلکہ جنہوں نے فاطمہؑ کو پہچانا، انہوں نے راہِ حق پالی۔ آج بھی جو فاطمہؑ سے جڑے ہیں، وہ امامِ زمانہ (عج) سے غافل نہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ظہور کے منتظر بنیں، تو ہمیں احساسِ حضور پیدا کرنا ہوگا۔ فاطمہؑ کے ذکر سے دل کو روشن کریں، محبتِ فاطمہؑ سے گناہوں سے بچیں، اور اُن کی خوشنودی کے لیے انفاق کریں۔

یا فاطر، بحق فاطمہ، عجل لولیک الفرج!

حضرت زہرا (س)؛ ولایت کے دفاع کی کامل مثال

حضرت زہرا سلام اللہ علیہا، وہ عملی نمونہ ہیں جن کی سیرت میں دعائے عہد کے آٹھ اوصاف جھلکتے ہیں.

«اللّهمّ اجعلنی من انصاره و اعوانه»، «الذابین»، «الممتثلین» ، «المسارعین»، «المحامین»، «السابقین»، و «المستشهدین»

انہوں نے صرف زبانی محبت کا دعویٰ نہیں کیا، بلکہ اپنے امام کے دفاع میں جسم و جان قربان کر دی۔

فاطمیہ ہمیں سکھاتا ہے کہ: اگر امامِ زمان کے دفاع میں زخم بھی کھانے پڑیں، تو ہاتھ ٹوٹے مگر وفا نہ ٹوٹے۔

عزادارِ فاطمہ (س) کی سب سے بڑی ذمہ داری

اہلِ فاطمیہ کا سب سے اہم فریضہ دعا برائے ظہور ہے۔کیونکہ امامِ زمانہ (عج) کا سب سے بڑا درد یہی ہے یعنی ظہور کا وقت۔

حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے بارے میں دعا میں آتا ہے: "المجهولة قدرها و المخفیة قبرها" یعنی صرف قبر ہی نہیں، بلکہ قدر و منزلت بھی پوشیدہ ہے۔

ظہور کی برکت سے ہی حضرت کی حقیقت دنیا پر آشکار ہوگی۔

فاطمیہ کا رزق

ایامِ فاطمیہ میں ہمارا سب سے قیمتی رزق ہے، مجالسِ عزا میں شرکت، حدیثِ کساء کی تلاوت، اور خطبۂ فدکیہ کی معرفت۔ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: "ہم اپنے بچوں کو حکم دیتے ہیں کہ وہ اپنی مادر کا خطبہ حفظ کریں۔" جس نے خطبۂ فاطمہؑ سے غفلت کی، اس پر وہی محرومی طاری ہوئی جو مدینہ والوں پر ہوئی یعنی حجتِ خدا کی غربت۔

درسِ فاطمیہ: دفاعِ امام تا شہادت

جب ظلم و مصیبت کی دنیا تمہیں گھیر لے، تو فاطمہؑ کی طرح کہو: "یا مهدی!" مادرِ زہراؑ نے سکھایا کہ دفاعِ امام کے لیے زخم، تازیانے اور مصیبتیں سب قبول کرو۔انہوں نے کہا: "مجھے مارو، مگر میرے امام کو نہ مارو!" فاطمہؑ کی یہی وفا دین کا خلاصہ ہے۔ منتظرِ حقیقی وہ ہے جو فاطمہؑ سے وفا سیکھے۔

فاطمہ (س): محورِ نبوت و ولایت

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: «ما تکاملت النبوة لنبی حتی اقر بفضلها و معرفتها» "نبوت کسی نبی میں کامل نہ ہوئی،جب تک اس نے فاطمہؑ کے فضل و معرفت کا اقرار نہ کیا۔" یعنی معرفتِ فاطمہؑ ہی تکاملِ نبوت کا راز ہے۔ اہل بیتؑ جب بھی مشکل میں ہوتے، کہتے تھے: "یا فاطمہ!" کیونکہ ہر دعا اور ہر حاجت کی کنجی نامِ فاطمہؑ میں پوشیدہ ہے۔

پیغامِ آخر

فاطمیہ صرف غم کا موسم نہیں، بلکہ امامِ زمانہ (عج) کی نصرت اور ظہور کی تیاری کا زمانہ ہے۔ جو فاطمہؑ سے غافل ہے، وہ امام سے بھی غافل ہے۔ اور جو فاطمہؑ کے ذکر سے جڑا ہے، وہ امام کے حضور میں ہے، اگرچہ ظاہراً دور ہو۔

فاطمیہ یعنی لبیک کہنا، اس حجتِ خدا کو جو ہر دل میں صدا دے رہا ہے: "هل من ناصرٍ ينصرنی"

مآخذ:

الغیبة (شیخ طوسی)، ص ۲۸۶

احتجاج، ج ۲، ص ۲۷۹

بحارالأنوار، ج ۵۳، ص ۱۸۰

ویکی شیعہ

دین‌شناسی از دیدگاه حضرت مهدی (عج)، علی‌اصغر رضوانی

تارنمای مسجد مقدس جمکران

پایگاه اطلاع‌رسانی حوزه

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha