منگل 18 نومبر 2025 - 07:00
حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کا پیغام | خطبۂ فدک میں امتِ اسلامی کے ابتدائی انحرافات کا بیان

حوزہ / حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا نے خطبہ فدک میں امتِ اسلامی کے ابتدائی انحراف کو نہایت صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ آپ سلام اللہ علیہا نے فرمایا کہ ابھی رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تدفین بھی مکمل نہ ہوئی تھی کہ بعض افراد نے "فتنے کے خوف" کا بہانہ بنا کر ایسا قدم اٹھایا جس نے امت کو تفرقے میں دھکیل دیا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایام فاطمیہ کی مناسبت سے آیت اللہ مصباح یزدی رحمۃ اللہ علیہ کے بیانات سے اخذ کردہ اس منتخب شرح میں خطبہ فدک کے اس اہم حصے کی وضاحت پیش کی جا رہی ہے۔

حضرت زہرا سلام اللہ علیہا نے فرمایا کہ: "ابھی رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جسدِ اطہر زمین میں اتارا بھی نہیں گیا تھا کہ تم لوگوں نے جلدبازی میں ایسے اقدامات شروع کر دیے۔"

پھر آپ نے ان کے اس عمل کی دلیل کو ان ہی کے الفاظ میں نقل کیا: "ابتداراً زعمتم خوف الفتنة" یعنی تم نے یہ گمان کیا اور ایسی صورت حال ظاہر کی کہ گویا مسلمانوں میں فتنے کے اندیشے کے سبب یہ قدم اٹھانا ضروری تھا۔

وہ کہتے تھے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد امت میں اختلاف پیدا ہو سکتا ہے، اس لیے جلدی سے خلیفہ چن لینا چاہیے تاکہ فتنہ روکا جا سکے۔ لیکن حضرت زہرا سلام اللہ علیہا نے ان کے اس عذر کا قرآن سے جواب دیا: "ألا فی الفتنة سقطوا" یعنی "آگاہ رہو! یہی لوگ خود فتنے میں جا پڑے۔"

قرآن کریم منافقین کے بارے میں بھی فرماتا ہے کہ وہ فتنے کے خوف کا بہانہ بنا کر اقدام کرتے تھے لیکن حقیقت یہ تھی کہ وہ خود فتنہ تھے۔ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا نے اسی قرآنی منطق سے انہیں متنبہ کیا کہ تم جس چیز کو "فتنے سے بچاؤ" کا نام دے رہے ہو، حقیقت میں وہی اصل فتنہ ہے۔

مسلمانوں کو متحد رکھنے کے نام پر جو جلدبازی اور پیش دستی کی گئی، وہی امت میں اختلاف اور تفرقے کا نقطۂ آغاز بنی۔ اسی لیے حضرت نے اس کے بعد قرآن کریم کا یہ حصہ بھی ذکر کیا: "وَ إِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحیطَةٌ بِالکافِرین" یعنی "جلد ہی جہنم کافروں کو گھیر لے گی۔"

جو لوگ حق کو چھوڑ کر باطل کی راہ لیتے ہیں اور سچائی کو پامال کر کے فتنے کی بنیاد رکھتے ہیں، وہ دراصل اسی انجام کی طرف بڑھ رہے ہوتے ہیں۔

آخر میں مرحوم آیت اللہ مصباح (رہ) اس نکتہ کی طرف توجہ دلاتے ہیں کہ اگر ہم اس وقت کے انصار یا مہاجرین میں ہوتے اور مسجد میں یہ واقعات دیکھتے، تو ہمارا ردِعمل کیا ہوتا؟

کیا ہم حق کے ساتھ کھڑے ہوتے یا "امت کی مصلحت" کے نام پر اس عجلت پسند گروہ کی پیروی کرتے جو خود فتنے میں جا گرا تھا؟

ایامِ فاطمیہ کا پیغام یہی ہے کہ ہر دور میں حق کی پہچان اور باطل سے تمیز ایک فوری اور سنگین آزمائش ہوتی ہے اور فاطمی معیار بھی یہی ہے کہ حق قربانی مانگے تو قربانی دی جائے، مگر باطل کا ساتھ نہ دیا جائے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha