جمعرات 6 نومبر 2025 - 16:03
حضرت فاطمہ زہرا(س) قرآن کی عملی تفسیر اور مؤمن کے لیے کامل نمونۂ حیات ہیں

حوزہ/ ایامِ فاطمیہ اہلِ ایمان کے لیے غم، معرفت اور عمل کا امتزاج ہیں۔ یہ وہ ایام ہیں جب پوری دنیا میں محبانِ اہلِ بیتؑ دخترِ رسولِ اکرم (ص) حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے فضائل و مصائب کو یاد کرتے ہیں اور آپ کی سیرت کو نمونۂ حیات کے طور پر اپنانے کی کوشش کرتے ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایامِ فاطمیہ اہلِ ایمان کے لیے غم، معرفت اور عمل کا امتزاج ہیں۔ یہ وہ ایام ہیں جب پوری دنیا میں محبانِ اہلِ بیتؑ دخترِ رسولِ اکرم (ص) حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے فضائل و مصائب کو یاد کرتے ہیں اور آپ کی سیرت کو نمونۂ حیات کے طور پر اپنانے کی کوشش کرتے ہیں۔

اسی مناسبت سے حوزہ نیوز ایجنسی نے قم المقدسہ میں محقق و خطیب اور معروف شاعر اہل بیت (علیہم السلام) حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا سید عابد رضا نوشاد رضوی گوپال پوری سے گفتگو کی، جنہوں نے حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی حیاتِ طیبہ کے مختلف پہلوؤں پر نہایت عالمانہ روشنی ڈالی۔ پیشِ خدمت ہے اس خصوصی انٹرویو کے منتخب حصے۔

حوزہ: حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی سیرت کو ’’نمونۂ عمل‘‘ قرار دینے کا مفہوم کیا ہے؟

مولانا سید عابد رضا نوشاد: حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی ذات اقدس ہر پہلو سے انسانِ کامل کا مظہر ہے۔ اگر ہم واقعی اپنے کردار کو سنوارنا چاہتے ہیں تو ان کی عملی زندگی سے سبق لینا ضروری ہے۔ آپ کی زندگی کا ایک ایک لمحہ عبادت، ایثار، صبر، عفت اور اطاعتِ الٰہی کا مظہر ہے۔

قرآن و سنت نے جس کامل ایمان اور روحانیت کا معیار مقرر کیا ہے، وہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی ذات میں مجسم نظر آتا ہے۔ اس لیے آپ کی سیرت کا مطالعہ صرف علمی نہیں بلکہ عملی ضرورت ہے۔

حوزہ: عبادت و بندگی کے حوالے سے حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی سیرت ہمیں کیا پیغام دیتی ہے؟

مولانا سید عابد رضا نوشاد: حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی پوری حیات عبادت و روحانیت سے عبارت تھی۔ امام حسن علیہ السلام فرماتے ہیں کہ دنیا میں کوئی بھی فاطمہؑ سے زیادہ عبادت گزار نہ تھا۔ آپ اتنی دیر نماز میں کھڑی رہتی تھیں کہ پائے مبارک میں ورم آجاتا تھا۔

یہی نہیں بلکہ آپ کے گھر کو قرآن نے "بیوتٍ أذن الله أن ترفع" میں شمار کیا، یعنی وہ گھر جنہیں خدا نے رفعت عطا کی ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ عبادت، تقویٰ اور ذکرِ الٰہی نے آپ کے گھر کو عرش تک روشن کر رکھا تھا۔

حوزہ: ایمان کے مقام و مرتبے کے لحاظ سے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی کیا خصوصیت ہے؟

مولانا سید عابد رضا نوشاد: روایات میں ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ نے میری بیٹی فاطمہ کے قلب اور اعضا کو ایمان سے بھر دیا ہے۔

جب آپ عبادت میں مشغول ہوتیں تو فرشتے آپ کے کام انجام دیتے، جیسا کہ سلمان فارسیؓ نے دیکھا کہ بی بیؑ قرآن کی تلاوت کر رہی تھیں اور چکّی خود بخود چل رہی تھی۔

یہ ایمان کا وہ درجہ ہے جہاں بندہ مکمل طور پر ذاتِ الٰہی میں فنا ہوجاتا ہے۔ یہی وہ روحِ ایمان ہے جس کی آج امتِ مسلمہ کو سب سے زیادہ ضرورت ہے۔

حوزہ: حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے محرابِ عبادت اور خدا سے تعلق کیسی کیفیت رکھتا تھا؟

مولانا سید عابد رضا نوشاد: رسول خدا (ص) فرماتے ہیں کہ جب فاطمہ محرابِ عبادت میں کھڑی ہوتیں تو ستر ہزار فرشتے ان پر درود و سلام بھیجتے۔ وہی ندا جو حضرت مریم کے لیے بلند ہوتی تھی، فاطمہ کے لیے بھی بلند کی جاتی۔

یہ کیفیت ظاہر کرتی ہے کہ عبادت صرف ظاہری ریاضت نہیں بلکہ روح کی معراج ہے۔ جنابِ زہرا سلام اللہ علیہا نے عبادت کے ذریعے بندگی کے اعلیٰ ترین مقام تک رسائی حاصل کی، اور یہی بندگی انسان کو خدا کے قریب کرتی ہے۔

حوزہ: سماجی زندگی میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے ایثار و انفاق کا کردار کس قدر نمایاں ہے؟

مولانا سید عابد رضا نوشاد: جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کی زندگی ایثار اور فقرائے امت کے ساتھ ہمدردی کا مظہر تھی۔ آپ نے اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ مسلسل تین دن روزہ رکھا، لیکن جب افطار کا وقت آیا تو ہر دن کوئی نہ کوئی مستحق دروازے پر آیا، اور آپ نے اپنا افطار انہی کو دے دیا۔

یہ خلوص و للہیت کا اعلیٰ نمونہ ہے، جس پر اللہ نے سورہ ’’ہل اتی‘‘ نازل فرما کر آپ کے عمل کو قرآن کا حصہ بنا دیا۔ اگر امت اس سیرت کو اپنالے تو سماج میں نہ صرف غربت ختم ہوسکتی ہے بلکہ دلوں میں باہمی محبت بھی پروان چڑھے گی۔

حوزہ: عفت و حجاب کے حوالے سے حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی عملی تعلیمات کو آپ کیسے بیان کریں گے؟

مولانا سید عابد رضا نوشاد:

بی بی دو عالمؑ نے قول و عمل دونوں سے حیا و عفت کا پیغام دیا۔ آپ نے فرمایا: "عورت کے لیے بہترین چیز یہ ہے کہ نہ وہ کسی نامحرم کو دیکھے نہ کوئی نامحرم اسے دیکھے۔"

یہ تعلیم صرف ظاہری حجاب تک محدود نہیں بلکہ باطنی پاکیزگی کا بھی درس دیتی ہے۔ حتیٰ کہ اپنی شہادت کے بعد بھی آپ نے اپنی عفت کی حفاظت چاہی اور تابوت کا ایسا نمونہ تیار کروایا جس میں جسم مبارک مکمل طور پر ڈھکا رہے۔

یہ وہ پیغام ہے جو ہر مومنہ عورت کو راہِ حیا میں استقامت دیتا ہے۔

حوزہ: خاندانی زندگی اور صبر و استقامت کے باب میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی سیرت سے کیا رہنمائی ملتی ہے؟

مولانا سید عابد رضا نوشاد: حضرت زہرا سلام اللہ علیہا نے زندگی کی سختیوں میں صبر، ایثار اور شکر کا مظاہرہ کیا۔ گھر کا اثاثہ نہ ہونے کے باوجود کبھی شکوہ نہیں کیا، بلکہ فرمایا: "میں اللہ کی نعمتوں پر اس کی حمد کرتی ہوں۔"

امیرالمومنین علیہ السلام نے ان کی شہادت کے بعد فرمایا کہ ’’جب تک فاطمہ زندہ رہیں، میں نے کبھی انہیں ناراض نہیں کیا، اور نہ انہوں نے میری نافرمانی کی۔‘‘

یہی باہمی احترام، صبر اور محبت آج کے ہر گھرانے کے لیے درسِ زندگی ہے۔

لہذا ایامِ فاطمیہ میں حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی سیرت پر غور و فکر ہمیں یہ پیغام دیتی ہے کہ ایمان، عبادت، عفت، ایثار اور صبر کے بغیر کوئی معاشرہ نجات نہیں پاسکتا، بی بی دو عالمؑ کی سیرت دراصل قرآنِ مجید کی عملی تفسیر ہے، اور اگر امت ان کے کردار کو اپنائے تو دنیا و آخرت دونوں سنور جائیں۔”

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha