تحریر: مولانا سید نجیب زیدی
حوزہ نیوز ایجنسی | آج دنیا بھر میں خواتین کے حقوق کی بات زورو شور سے ہوتی نظر آ رہی ہے، فمینزم سے متعلق متعدد تحرکیں ہیں جو دنیا میں خواتین کے حقوق کے لئے کام کر رہی ہیں یہ اور بات ہے کہ خواتین کے حقوق کا نعرہ لگانے والے ہی خواتین کا استحصال کرتے نظر آ رہے ہیں۔
جس دور میں ہم زندگی گزار رہے ہیں وہ دور جہاں صنعت اور ٹکنالوجی کی پیشرفت کا دور ہے وہیں نظریاتی طور پر کھوکھلے اور فریبی نعروں کا دور ہے۔ دنیا میں جہاں نظر ڈالیں آپ کو اس ترقی یافتہ دور میں جعلی چیزیں ملیں گی کہیں جعلی پروڈیکٹ ہیں تو کہیں جعلی کمپنیاں جن سے ہوشیار رہنے کی صداوں کے درمیان روز بروز جعلی مصنوعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ دنیا صنعت و ٹکنالوجی کے ساتھ ساتھ جعلی نظریات کی دنیا ہے جعلی فکروں کی دنیا ہے جعلی تصورات کی دنیا ہے کھوکھلے نعروں کی دنیا ہے ان کھوکھلے نعروں میں ایک نعرہ خواتین کے حقوق کا نعرہ ہے ۔
آج دنیا بھر میں خواتین کے حقوق کی بات زورو شور سے ہوتی نظر آ رہی ہے فمینزم سے متعلق متعدد تحرکیں ہیں جو دنیا میں خواتین کے حقوق کے لئے کام کر رہی ہیں یہ اور بات ہے کہ خواتین کے حقوق کا نعرہ لگانے والے ہی خواتین کا استحصال کرتے نظر آ رہے ہیں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی ولادت کے با سعادت موقع پر جب جہان تشیع میں ہر جگہ حضرت صدیقہ طاہرہ کے سلسلہ سے محافل و جشن کا سلسلہ ہے ہم نے بہتر جانا کہ اس تحریک پر جسے فمینزم کہا جاتا ہے کچھ روشنی ڈالیں اور پھر خواتین کے حقوق کے سلسلہ سے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے کردار کا جائزہ لیں :
فیمینزم کے معنی اور اس کا مفہوم:
لغوی معنی :
“فیمینزم” (Feminism) ایک فرانسیسی لفظ ہے جو لاطینی لفظ “فیمینِد” (Femind) سے نکلا ہے۔ اس کا مطلب خواتین یا صنف نازک کے حقوق، مقام اور حیثیت کو نمایاں کرنا اور ان کے مساوی حقوق کی وکالت کرنا ہے۔ یہ لفظ معمولی تبدیلی کے ساتھ دیگر زبانوں مثلاً انگریزی اور جرمنی میں بھی اسی معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ “فیمینِن” (Feminine) کا مطلب عورت یا مونث جنس ہے۔
اصطلاحی معنی:
“فیمینزم” (Feminism) کا اصطلاحی استعمال دو مختلف معنوں میں کیا جا سکتا ہے:
1 – فیمینزم کے عمومی اور معروف مفہوم میں:
یہ پہلا اور ایسا معروف مفہوم ہے جس میں فیمینزم کو ایک نظریہ اور تحریک کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو خواتین کے مردوں کے ساتھ معاشرتی، اقتصادی، اور سیاسی حقوق میں برابری کا حامی ہے۔ فارسی زبان میں اس مفہوم کو “زن سالاری” یا “زن گرائی” جیسے الفاظ سے بھی بیان کیا جا سکتا ہے جسکا مطلب خواتین کو فوقیت دیتے ہوئے انکے حقوق کی بات کرنا ہے جسے ہمارے یہاں کسی حد تک جورو کے غلام کی اصطلاح بیان کرتی ہے البتہ اس میں اور خواتین کو فوقیت دینے میں بہت فرق ہے لیکن یہ بھی خواتین کی بالادستی کو بیان کرتا ہے کہ ایک شوہر بجائے مرد بن کر رہنے کے اپنی زوجہ کا غلام بن جائے اور اسی کی آنکھوں سے دنیا کو دیکھے اسی کے کانوں سے سنے یہ اسکی مردانگی کے بالکل خلاف ہے بس یہاں شوہر کی بات ہے فیمینزم میں تمام خواتین کی بات ہے اس نظریے کے فروغ کے ساتھ، ایسی منظم اور ترتیب شدہ تنظیمیں تشکیل دی گئی ہیں جو خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم ہیں اور انہیں “خواتین کی تنظیمیں”، “خواتین کی انجمنیں”، اور “خواتین کی تحریک” جیسے نام دیے جاتے ہیں۔
2 – فیمینزم کا دوسرا مفہوم:
فیمینزم کا دوسرا مفہوم مردوں میں خواتین کی خصوصیات اور صفات کے نمودار ہونے کو بیان کرتا ہے، البتہ یہاں اس معنی کو یہاں بیان کرنا مقصود نہیں ہے۔
فیمینزم کا تاریخی سابقہ اور پس منظر:
خواتین کے حقوق کی حمایت اور مردوں کے برابر ان کے حقوق کے مطالبے کی بنیاد پر مبنی “فیمینزم” کی تحریک کا پس منظر چند صدیوں پر محیط ہے، البتہ یہ اصطلاح خاص طور پر انیسویں صدی کے وسط میں اس مفہوم میں استعمال ہونا شروع ہوئی۔ فیمینسٹی نظریے کو حقیقت میں بدلنے کے لیے مختلف ادوار میں کئی تحریکیں وجود میں آئیں، جنہوں نے اپنے مطالبات کے حصول کے لیے مختلف طریقے اپنائے۔
تاریخی لحاظ سے، فیمینسٹ تحریک کی ترقی کو دو بڑے مراحل میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
پہلا مرحلہ – انیسویں صدی کے اوائل سے لے کر 1920ء تک (پہلی جنگ عظیم کے بعد)۔
دوسرا مرحلہ – 1960ء کی دہائی سے شروع ہونے والا دور
ابتدائی طور پر فیمینزم ایک ایسی تحریک تھی جس کا آغاز امریکہ میں ہوا، جہاں خواتین نے صنفی بنیاد پر ہونے والے امتیازات کے خلاف آواز بلند کی اور اپنے مخصوص سماجی اور بعض مرتبہ مذہبی نقطۂ نظر کی بنیاد پر حق مانگنے کی جدوجہد شروع کی۔ اگرچہ اس تحریک میں کچھ کمزوریاں بھی تھیں، مگر 1970ء اور 1980ء کی دہائیوں میں فیمینزم کے اندر مختلف رجحانات نے جنم لیا، جن میں انتہائی بنیاد پرست گروہوں سے لے کر معتدل اور حتیٰ کہ مذہبی فیمینسٹ شامل تھے۔
نتیجتاً، فیمینزم میں مختلف نظریات اور رجحانات موجود ہیں، لیکن ان سب کا مشترکہ موقف یہ ہے کہ خواتین کے حقوق کو نظرانداز کیا گیا ہے اور اس امتیاز کو ختم کرنے کے لیے موزوں اقدامات اختیار کیے جانے چاہئیں۔ البتہ، کچھ بنیادی نکات پر اختلافات بھی ہیں جن کی وجہ سے فیمینسٹ نظریات میں تنوع اور تعدد پایا جاتا ہے۔
مختصر طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ فمنیسم ایک ایسا نظریہ اور تحریک ہے جس کا مقصد خواتین کے حقوق، مساوات اور ان کی سماجی، معاشرتی اور اقتصادی حیثیت کو بہتر بنانا ہے۔ اس تحریک کا مقصد خواتین کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کا خاتمہ اور ان کے حقوق کا تحفظ ہے۔ جیسا کہ ہم نے بیان کیا فمنیسم کے مختلف ادوار اور نظریات ہیں، جو مختلف سماجی مسائل اور ثقافتی پس منظر پر توجہ دیتے ہیں، جیسے کہ جنس کی بنیاد پر فرق، صنفی انصاف، عورتوں کی آزادی، اور روزگار میں مساوات وغیرہ افسوس کا مقام یہ ہے کہ فمینسم کا نعرہ لگانے والوں نے کبھی بھی خود خواتین کے حقوق کی رعایت نہیں کی جبکہ دین نے ہمیشہ خواتین کے حقوق کی رعایت کی بات کی اور مختلف شعبہ ہائے حیات میں ان کے کرداروں کو اجاگر کیا حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا کردار اس سلسلہ سے قابل غور ہے۔
جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اسلامی تاریخ کی ایک نمایاں شخصیت ہیں، جنہیں ہم خواتین کے لیے ایک عظیم نمونے کے طورپر پیش کر سکتے ہیں آپ کی زندگی میں ہمیں خواتین کی عظمت، ان کے حقوق، ان کی ذمہ داریوں اور ان کی طاقت اور اپنے کردار کو معاشرے میں نبھانے کی بہت سی ایسی مثالیں ملتی ہیں جن پر توجہ دی جائے تو ہم ایک خاتون کے حقیقی کردار کو سمجھ سکتے ہیں۔
جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور خواتین کے حقوق:
جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی زندگی اور آپ کے اقوال میں خواتین کے حقوق اور وقار کے بارے میں نمایاں اسباق موجود ہیں۔ آپ نے خواتین کو معاشرت میں ان کا جائز مقام دلانے کے لیے عملی اقدامات کیے اور گرانبھا تعلیمات پیش کیں ان میں چند یہ ہیں
1. خاندان میں عورت کی عزت اور اس کاوقار: حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے ازدواجی اور گھریلو زندگی میں عورت کے حقوق اور اس کے احترام کو اجاگر کیا۔ آپ کا گھرانہ ایک اسلامی معاشرت کی بہترین مثال تھا، جہاں آپ نے اپنے کردار کے ذریعے گھر اور خاندان میں عورت کی اہمیت کو ثابت کیا
شک نہیں ہے ایک خاتون کو عزت و وقار اگر کہیں حاصل ہوتا ہے تو اسکے خلوص اس کی نیک نیتی اور اس کے خدمات کے عوض حاصل ہوتا ہے جب ہم جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے کردار کو دیکھتے ہیں تو آپکا ایک متحرک کردار گھر میں نظر آتا ہے
باوجودیکہ کے گھر کے وہ مسائل جنکا تعلق ازدواجی زندگی سے نہیں ہے اور اسلام نے انہیں ایک عورت پر واجب قرار نہیں دیا ہے جیسے برتن مانجھنا کھانا بنانا کپڑے دھونا وغیرہ لیکن اگر کوئی از خود بڑھ کر یہ کام گھر گرہستی کو بہتر بنانے کے لئیے کرتا ہے تو دین اسے مستحسن نظروں سے دیکھتا ہے ۔جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کی زندگی میں بھی نظر آتا ہے آپ نے کاموں کو بانٹ لیا تھا باہر کے کاموں کو امام علی ع انجام دیتے تو گھر کے امور کو آپ دیکھتی تھیں اس کے باوجود کے آپ وجہ تخلیق کائنات کی بیٹی تھیں یا خود وجہ تخلیق بھی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا لیکن آپ اپنے گھر میں ایک معمولی گھریلو خاتون کی طرح جو آپ سے ممکن ہوتا انجام دیتیں اور بسا اوقات تو گھر کے امور کی انجام دہی آپ پر شاق گزرتی لیکن پھر بھی گھر کے کاموں کو انجام دینے سے نہ رکتیں اتنا کام کرتیں اتنا کام کرتیں کہ ہاتھوں پر ورم آجاتا [1]آپکو اپنی شوہر رضایت کا اسقدر خیال رہتا کہ اگر کہیں خود ہی احتمال دیتیں کہ ممکن ہے میری کوئی بات شوہر کو بری لگی ہو تو خود ہی فرماتیں استغفر اللہ ولا اعوذ ابدا میں خدا کے حضور پناہ مانگتی ہوں اب اس بات کا اعادہ نہیں ہوگا [2]شوہر کی رضا کا اتنا خیال تھا کہ جب آپ نے اپنے عمر کے آخری لمحات میں خود کو ممنوع الملاقات کر دیا تھا اور کسی کو عیادت تک کے لئیے آنے کی اجازت نہیں دے رہی تھیں اس وقت امام علی علیہ السلام نے جب آپ سے درخواست کی کہ کچھ نمایاں لوگ آپ سے ملاقات کے لئیے آنا چاہتے ہیں تو آپ نے فرمایا: یا علی البیت بیتک والحرۃ زوجتک افعل ما تشاء [3]
علی! یہ گھر آپکا گھر ہے اور میں آپکی شریک حیات ہوں جو آپ کو مناسب لگے وہ کریں اگر ہمارے معاشرہ میں بھی یہی مزاج فاطمی حاکم ہو جائے تو کیوں نہ انسان کی زندگی کامیاب ہوگی جہاں بہت سے مسائل اسی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں زوجہ چاہتی ہے اس کی بات مانی جائے اور شوہر اپنی بات منوانا چاہتا ہے نتیجہ میں ایسی کھینچا تانی کا ماحول بن جاتا ہے کہ گھر کے اندر سے آپسی مفاہمت و پیار محبت کی فضا کی جگہ انتقام و انا و خود محوری کی فضا لے لیتی ہے اور یوں اچھا خاصا گھر جہنم بن جاتا ہے اور پھر وہ مسائل پیش آتے ہیں سب تماشا دیکھتے ہیں
2. تعلیم اور شعور: آپ نے خواتین کے تعلیمی اور فکری ترقی پر زور دیا۔ آپ خود علم اور تقویٰ کی اعلیٰ مثال تھیں، اور آپ کی تعلیمات میں ہمیشہ خواتین کو علم حاصل کرنے کی ترغیب دی گئی۔ آپ کے خطبات اور بات چیت میں ہمیں یہ بات واضح نظر آتی ہے کہ خواتین کو اپنے حقوق اور معاشرتی کردار سے آگاہ رہنا چاہیے۔
ہر سماج اور معاشرے میں تعلیم ایک پلر کی حیثیت رکھتی ہے اس سلسلہ سے ہمیں مدینہ میں فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا ایک لافانی متحرک کردار نظر آتا ہے چنانچہ
مدینہ کی خواتین آپ کی خدمت میں حاضر ہوتیں اور اپنے شرعی سوالوں کو آپ سے دریافت کرتی تھیں اور آپ صبر و تحمل کے ساتھ انکے جوابات عنایت فرماتیں جیسا کہ امام حسن عسکری علیہ السلام فرماتے ہیں :
ایک خاتون حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہا میری والدہ بہت بوڑھی و ضعیف ہیں اور وہ نماز کے احکام کے سلسلہ سے اکثر بھول چوک کا شکار ہو جاتی ہیں کبھی انہیں مسائل نماز میں کوئی شبہہ پیدا ہو جاتا ہے تو کبھی ان سے کوئی غلطی سرزد ہو جاتی ہے اسی وجہ سے انہوں نے مجھے آ پ کی خدمت میں بھیجا ہے کہ ان مسائل کے بارے میں آپ سے دریافت کروں اس کے بعد خاتون نے ایک اور مسئلہ دریافت کیا حضرت نے جواب دے دیا تو اس خاتون نے ایک اور سوال کیا اسی طرح ۱۰ سوال اس خاتون نے لئے آپ نے بھی سب کے جواب دئے پھر اس خاتون نے یہ سوچ کر اپنی شرمندگی کا اظہار کیا کہ میں اتنے زیادہ سوال پوچھ چکی ہوں اب مزید زحمت دینا مناسب نہیں ہے لہذا اس نے کہا بنت رسول اب اس سے زیادہ آپ کو اور کیا زحمت دوں اس کے جواب میں حضرت نے فرمایا: تم جب بھی چاہو آ کر مجھ سے سوال کر سکتی ہو اور جو چاہو پوچھ سکتی ہو ۔
3. سماجی اور سیاسی شعور: حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے اپنی زندگی میں اسلامی اصولوں پر قائم رہتے ہوئے حق اور انصاف کی بات کہی۔ خاص طور پر خلافت کے معاملے میں آپ نے حق کا مطالبہ کرتے ہوئے ظلم کے خلاف آواز اٹھائی۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ عورت کو اپنے حقوق کے لیے کھڑا ہونا چاہیے، چاہے سماج کچھ بھی کہے۔
4. معاشرتی انصاف اور مساوات: حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی زندگی میں ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ معاشرت میں عدل و انصاف کو قائم کرنا چاہیے، اور عورتوں کو ان کی صلاحیتوں اور شخصیت کے مطابق مواقع فراہم کرنا چاہیے۔ یہ نظریہ اس بات کا عکاس ہے کہ اسلام نے عورت کو معاشرت میں ایک باوقار مقام دیا ہے۔
اگر ہم فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی زندگی کو فیمینزم کے نقطۂ نظر سے دیکھیں تو ہمیں ایک مثال ملتی ہے جس میں عورت کو معاشرتی، خاندانی اور سیاسی شعور کے ساتھ اپنی شخصیت کی تعمیر کا حق دیا گیا ہے جبکہ اس نعرہ کا کھوکھلا پن بھی ظاہر ہوتا ہے۔
امید ہے کہ ولادتِ با سعادتِ حضرت صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیہا کے پر مسرت موقع ہم ان نکات کی طرف توجہ رکھتے ہوئے جنہیں بیان کیا گیا کوشش کریں گے اپنے گھروں میں ایک خاتوں کو متحرک کردار کی روپ میں دیکھ سکیں جو بچوں کی تربیت اور شوہر داری کے ساتھ سماج و معاشرے کے مسائل سے بھی غافل نہ ہو ۔ فمینزم کے کھوکھلے نعرے کے درمیان ہمارے لئے ضروری ہے اس حقیقی کردار کو پیش کریں جس سے آشنائی انسان کو زمینی رہتے ہوئے آسمانی بننے کا سبب ہے۔
حوالہ جات:
آپ کا تبصرہ