حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، جامعۃ الزہرا (سلام اللہ علیہا) کی ایک استاد نے بیان کیا کہ "اسلامی فیمینزم" ایک درست اصطلاح نہیں ہے کیونکہ فیمینزم کے اصول اسلام سے ہم آہنگ نہیں ہیں، اسلام کو فیمینزم اور خاتون پرستی کی تحریکات کی ضرورت نہیں کیونکہ اسلام میں انسان کی قدر و منزلت کو جنس سے بالاتر سمجھا گیا ہے۔
فرزانہ حکیم زادہ نے حوزہ نیوز ایجنسی کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 16ویں صدی کی رنسانس نے زندگی کے تمام شعبوں میں بنیادی تبدیلیاں پیدا کیں، جن میں خواتین کے مسائل بھی شامل تھے، قرون وسطیٰ میں خواتین سمیت تمام طبقات کے ساتھ امتیازی رویہ اختیار کیا جاتا تھا، لیکن رنسانس نے مغرب کو علم اور صنعت کی ترقی کی طرف گامزن کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ صنعتی ترقی کے نتیجے میں خواتین کو سستے مزدور کے طور پر استعمال کیا گیا، لیکن جلد ہی وہ یہ سمجھ گئیں کہ ان سے سخت اور ناقابل برداشت کام لیے جا رہے ہیں اور ان کی اجرت مردوں سے کم ہے۔
فیمینزم اور مغربی خواتین کی تحریکات
حکیم زادہ نے وضاحت کی کہ انیسویں اور بیسویں صدی کے اوائل میں خواتین نے اپنے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک کو محسوس کیا اور اپنے بنیادی حقوق کے حصول کے لیے فیمینسٹ تحریکات کا آغاز کیا۔ ان تحریکات نے خواتین کو حقوق دلانے کی کوشش کی، لیکن یہ بھی واضح ہوا کہ ان تحریکات کا مقصد ہمیشہ انصاف پر مبنی نہیں تھا۔
اسلامی فیمینزم: ایک متضاد اصطلاح
انہوں نے کہا کہ "اسلامی فیمینزم" ایک پاراڈوکس (متضاد) ہے کیونکہ اسلام میں عورت یا مرد کی کسی خاص ترجیح کو بنیاد نہیں بنایا گیا۔ اسلام نے عورتوں کو پہلے ہی سے وہ حقوق فراہم کیے جو فیمینزم کے تحت طلب کیے جا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر، قرآن کی سورہ نساء خواتین کے حقوق کے حوالے سے ایک مکمل منشور ہے۔
اسلامی حقوق اور فیمینزم کا تقابل
فرزانہ حکیم زادہ نے کہا کہ اسلام نے خواتین کے حقوق کو ہر پہلو سے محفوظ کیا ہے، خواہ وہ گھریلو ہوں، اقتصادی ہوں یا سماجی۔ انہوں نے کہا کہ مغربی خواتین کے حقوق کی تحریکات دراصل غلط فہمیوں پر مبنی ہیں، جبکہ اسلام میں جنسیت کو معیار نہیں بنایا گیا۔
شیعہ اور سنی نظریات کا فرق
انہوں نے کہا کہ شیعہ مکتب فکر میں عورت کی اہمیت اور اس کے حقوق کو ہر پہلو سے تسلیم کیا گیا ہے، جبکہ اہل سنت میں بعض اوقات خواتین کے حقوق کو نظرانداز کیا گیا، جس کی وجہ سے بعض اہل سنت شخصیات فیمینزم کی تحریکات میں شامل ہوئیں۔
بدفہمیاں اور ان کے اثرات
فرزانہ حکیم زادہ نے اس بات پر زور دیا کہ بعض لوگ، جیسے شیرین عبادی، اسلام اور تشیع کے بارے میں غلط فہمیوں کی بنیاد پر فیمینزم کی طرف مائل ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ اگر اسلام میں انسانی قدر و منزلت کے اصولوں کو بہتر طریقے سے سمجھا جائے تو ایسی بدفہمیاں ختم ہو سکتی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ مردوں کو زیادہ وراثت اور دیت ملنے کا مطلب ان کی زیادہ قدر و منزلت نہیں بلکہ ان کی اقتصادی ذمہ داریوں کی وجہ سے ہے۔ خواتین کو اگر زیادہ آمدنی حاصل ہو تو وہ اس پر مکمل اختیار رکھتی ہیں، جبکہ مردوں کو اپنی آمدنی کا بڑا حصہ خاندان پر خرچ کرنا ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسلامی ممالک میں خواتین کے حقوق کے بارے میں غلط فہمیاں بعض اوقات اسلامی فیمینزم جیسی تحریکات کا باعث بنیں، لیکن اسلام میں ایسی کسی تحریک کی ضرورت نہیں کیونکہ اسلام نے ہر انسان کو جنس سے بالاتر ہو کر عزت دی ہے۔
آپ کا تبصرہ