حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، باقرالعلوم (ع) یونیورسٹی کی علمی کمیٹی کی رکن محترمہ زہرا روحاللہی امیری نے "پیامبر رحمت، الگوی ممتاز زندگی بشر" (نبی رحمت، انسانی آئیڈیل زندگی کا نمونہ) کے عنوان سے منعقدہ نشست میں " سیرتِ پیغمبر اسلام میں حقوق زنان" کے موضوع پر خطاب کیا۔
انہوں نے کہا: اسلام دیگر ادیان الٰہی کی طرح اعتقادی و اجتماعی میدانوں میں اصلاح کا خواہاں ہے۔ انہی میں سے ایک اہم میدان "حقوق خواتین" ہے؛ ایسے حقوق جو جزیرہ العرب اور اس کے آس پاس خطوں میں کم توجہ پاتے تھے اور خواتین کو سماجی ڈھانچوں میں مناسب مقام حاصل نہ تھا۔ اسلام نے خواتین کے اور تمام سماجی اور اجتماعی حقوق کو مستحکم کیا۔
حوزہ علمیہ خواہران کی اس استاد نے خواتین کے حقوق کے کثیر الجہتی پہلو کی وضاحت کرتے ہوئے کہا: یہ میدان ایک طرف "قانونی ابعاد" رکھتا ہے جو شریعت کے احکام سے ماخوذ ہیں اور دوسری طرف "سیرت و اقوال پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم" میں قابلِ مشاہدہ ہے۔ اس لحاظ سے قرآن کریم، سنت نبوی اور تاریخ اسلام، خواتین کے حقوق کے بنیادی منابع شمار ہوتے ہیں۔
انہوں نے "حق" کی تعریف کرتے ہوئے کہا: حق وہ اختیار ہے جسے قانون افراد کے لیے تسلیم کرتا ہے اور اس کی بنیاد پر انسان کسی عمل کو انجام دے سکتا ہے یا ترک کرسکتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں، حق وہ قانونی قدرت ہے جس کے ذریعے شخص کسی چیز سے منتفع ہوتا ہے یا کسی کام کی ذمہ داری لیتا ہے یا کسی فعل کو ترک کرتا ہے۔
باقر العلوم (ع) یونیورسٹی کی اس رکن نے حقوق کو دو حصوں میں تقسیم کیا: «حقوق اخلاقی» اور «حقوق قانونی»۔ بعض حقوق کمزور اور غیر الزامی ہوتے ہیں جنہیں «حقوق اخلاقی» کہا جاتا ہے، لیکن «حقوق قانونی» ضمانتِ اجرا رکھتے ہیں؛ ان پر عمل نہ کرنے سے سماجی ردعمل اور قانونی تعاقب پیدا ہوتا ہے اور خلاف ورزی کرنے والوں پر پابندیاں عائد کی جاتی ہیں۔
انہوں نے حقوق کی ایک اور تقسیم بندی کا ذکر کرتے ہوئے کہا: «حقوق عمومی» اور «حقوق اختصاصی/خاص» بھی حقوق کی اقسام میں سے ہیں۔ «حق اختصاصی» کسی معین فرد اور دیگر معین افراد کے درمیان تعلق سے متعلق ہوتا ہے، جو زیادہ تر معاہدے یا پیمان سے جنم لیتا ہے؛ جیسے «عقد نکاح» جس کے ذریعے فریقین کچھ ذمہ داریاں قبول کرتے ہیں اور آزادیوں پر قیود آتی ہیں۔ اس کے برعکس «حق عمومی» فرد کی ارادے سے وابستہ نہیں ہوتا، بلکہ یہ «حق انسانی» ہے جو صرف انسان ہونے کے ناطے اس پر عائد ہوتا ہے اور قابلِ مطالبہ ہے۔
علومِ تاریخ کی اس محققہ نے خواتین کے حقوق کے سلسلہ میں "جزیرہ نما عرب" کے جغرافیائی تناظر کو بیان کرتے ہوئے کہا: اس سرزمین کی آب و ہوا کی خصوصیات (پانی کی کمی اور قدرتی وسائل کی ناپیدی) قبائل کی تقسیم اور مرکزی ریاست اور قانون کے ضعف کا باعث بنی۔ نتیجے کے طور پر وہاں "قبائلی قانون" تعلقات کو کنٹرول کرتا تھا اور خواتین کی حیثیت کا تعین "قبائلی روایات اور ثقافت" سے ہی ہوتا تھا۔ اس ثقافت کے اندر عورت کی حیثیت کا دوہرا پن واضح تھا۔ ایک طرف غیرت اور معاشی سہارے سے محروم خواتین کو سخت پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ دوسری طرف، "سیاسی اور اقتصادی اثر و رسوخ" کی مثالیں بھی دیکھی گئیں۔









آپ کا تبصرہ