حوزہ نیوز ایجنسی کے رپورٹر کو انٹرویو دیتے ہوئے حوزہ اور یونیورسٹی کی استاد محترمہ راحلہ ضائفی نے نہج البلاغہ میں سماجی ذمہ داری کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا: ذمہ داری کا مطلب ہے جوابدہ ہونا۔ لغت میں، مسئولیت یا ذمہ داری کو اکثرطور پر فرض یا کچھ انجام دینے کے پابند ہونے کا مترادف سمجھا جاتا ہے۔ لفظ مسئولیت فرض، تکلیف، تعہد اور حق جیسے الفاظ کے ساتھ استعمال ہوتا ہے، کیونکہ جب تک کسی کے کندھے پر کوئی فریضہ نہ ہو، وہ اس کے انجام دینے یا ترک کرنے کا ذمہ دار نہیں ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا: نہج البلاغہ کے 167ویں خطبہ میں امام علی علیہ السلام نے"مسئوولون" کی اصطلاح کے ساتھ انسانوں کی ایک دوسرے کے لیے ذمہ داری سے بڑھ کر ہر ایک کو خدا کے نزدیک مسئول اور ذمہ دار قرار دیا ہے۔
محترمہ راحلہ ضائفی نے مزید کہا: امام علی علیہ السلام اپنی خلافت کو قبول کرنے کو "معاشرے کی ذمہ داریوں کا احساس" سمجھتے ہیں اور خطبہ شقشقیہ میں خلافت اور حکومت کے قبول ہونے کی واحد وجہ اپنی ذمہ داری کا احساس اور اتمامِ حجت قرار دیتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: امام علی علیہ السلام اپنے فرزندان امام حسن و امام حسین علیہما السلام کو وصیت کرتے ہوئے تمام افراد سے تقاضا کرتے ہیں کہ "امر بالمعروف اور نہی از منکر کو ترک نہ کرنا تاکہ برائیاں تم پر مسلط نہ ہو جائیں"۔ آپ علیہ السلام اس اہم فریضہ کے ترک کرنے کو خداوند متعال کے انسانوں سے روگردانی کا باعث قرار دیتے ہیں۔
حوزہ اور یونیورسٹی کی استاد نے کہا: امیرالمومنین حضرت امام علی علیہ السلام کی سیرت اور نہج البلاغہ میں ان کے گرانقدر کلام کا جائزہ لینے سے یہ بات اچھی طرح سے معلوم ہوتی ہے کہ لوگوں کے ساتھ حسن سلوک کرنا اور ان کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آنا انسان کی سماجی ذمہ داریوں میں سے ایک ہے۔