تحریر: مولانا سید نجیب زیدی
حوزہ نیوز ایجنسی| ہم نے پچھلی تحریر میں فمینزم کے نظریہ پر روشنی ڈالتے ہوئے اس نعرے کی حقیقت کو پیش کرنے کی کوشش کی تھی ساتھ ہی اس بات کو بیان کیا تھا کہ جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے کس طرح خواتین کے حقوق کا تحفظ کیا اور ان کے گرانقدر تعلیمات کی روشنی میں ہم کس طرح دنیا کے کھوکھلے نعروں کو پرکھنے کے ساتھ حقوق نسواں سے متعلق حقیقی متحرک کرداروں کو سمجھ سکتے ہیں چانچہ ہم نے گزشتہ تحریر میں فیمینزم کے نعرے کی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے خواتین کے حقوق، ان کی آزادی، اور ان کے سلسلے سے مغربی نظریات کو پیش کرتے ہوئے اسلامی نقطہ نظر کو واضح کرنے کی کوشش کی تھی اور خاص طور پر حضرت فاطمہ زہرا (س) کی شخصیت کو خواتین کے لیے ایک مثالی نمونہ کے طور پر پیش کرتے ہوئے یہ بیان کیا تھا کہ جب ہمارے پاس حقیقی کردار موجود ہیں تو ہمیں کھوکھلے نعروں کی طرف جانے کی ضرورت نہیں ہے پیش نظر تحریر میں اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے ہم نے کوشش کی ہے کہ اس بات کا جائزہ لیں فمینزم کی کتنی تفسیریں ہیں اسکا کیا تاریخی سابقہ ہے اور صنف نسواں کے حقوق کی بازیابی کے لئے جو فمنیسٹی تحریکیں چل رہی ہیں ان سے صنف نسواں کو کیا حاصل ہوا ہے اور ان سب کے درمیان شہزادی کونین حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے کردار سے ہم کیا کچھ حاصل کر سکتے ہیں۔
اس بات میں شک نہیں کہ آزادی، انسانی حقوق، خواتین کے حقوق اور اس جیسے دوسرے پُرفریب عنوانات، جو آج کل ہر جگہ عام ہیں، ایک عرصے سے دنیا کو دھوکہ دیکر ا پنے مقاصد کے حصول کے لئے پیش کیے جا رہے ہیں، اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ یوں تو بظاہر یہی لگتا ہے کہ اگر خواتین ان لوگوں کے ہمراہ ہو جائیں جو انکے حقوق کے لئے لڑ رہے ہیں تو دنیا میں کوئی ان کے حقوق کو پامال کرنے کی جرات نہیں کر سکے گا لیکن کیا واقعی انسانیت، اور خاص طور پر خواتین، ان پرکشش دعووں کی ادنیٰ سطح پر بھی پہنچ سکی ہیں؟ مثال کے طور پر، کیا مغربی معاشروں یا ان معاشروں میں جہاں مغربی فکر کا اثر ہے، عورت کو حقیقی آزادی ملی ہے؟ کیا وہ، اپنے جنسی مظاہر کی نمائش کے علاوہ، ایسی آزادی پا سکی ہے جو اس کو سرمایہ دارانہ نظام کے استحصال سے بچا سکے؟
“فیمینزم” کے نظریے کو اس رخ سے دیکھنے کی ضرورت ہے اور اسلامی تعلیمات، خصوصاً حضرت فاطمہ زہرا (س)، کی شخصیت کو تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے کہ انہوں نے حقوق نسواں کے لئے چودہ سو سال پہلے اپنی مختصر سی زندگی میں کیا کیا اور آج فیمینزم کانعرہ دینے والے کیا کچھ کر سکے اگر فمینزم کے سلسلہ سے حاصل مطالعہ کو پیش کیا جائے تو ہم کہہ سکتے ہیں بنیادی طور پر فیمینزم کے دو پہلو ہیں:
(1) ایک پہلو تحریک کے طور پر ہے اسکا مطلب فیمینزم ایک ایسا نعرہ ہے جو خواتین کے حقوق اور مرد و عورت کی برابری کا مطالبہ کرتا ہے اور یہ وہ تحریک ہے جومغرب میں صنعتی دور سے شروع ہوئی۔
(ب) ایک خاص فلسفیانہ و فکری نقطہ نظر کے طور پر فیمینزم، جسے ایک مکمل نظریے یا آئڈیالوجی کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
ان دو پہلووں کو سمجھنے کے بعد فیمینزم کے ارتقاء کا مرحلہ آتا ہے جس کے سلسلے میں ہم کہہ سکتے ہیں:
فیمینزم پہلے مغربی معاشروں میں آیا اور پھر آہستہ آہستہ ایشیائی اور مسلم معاشروں میں داخل ہوا۔ خاص طور پر حالیہ دہائیوں میں، مسلم خواتین، جو بظاہر تعلیم یافتہ ہیں لیکن ان پر مغرب کا بھوت سوار ہے بعض جگہوں پر فقہی مسائل اور روایتی قوانین پر نظرثانی کا مطالبہ کر رہی ہیں جبکہ شریعت نے مرد و زن کی خلقت کے اعتبار سے ان کے حقوق کو مختلف رکھا ہے۔
حتی اب الہیاتی فیمینزم کی بھی بات ہو رہی ہے بعض نظریہ ساز فیمینزم کی اصل روح کو “الہیاتی فیمینزم” کے طور پر پیش کرتے ہیں، جو ان کے نزدیک مساوات اور آزادی کے عام تصورات سے زیادہ گہرے نظریات کی عکاسی کرتا جبکہ مسلم خواتین کے لیے بہترین معیار اور نمونہ حضرت فاطمہ زہرا (س) کی شخصیت ہے، جو اسلامی اخلاقیات، حقوق، اور خواتین کے مثالی کردار کی مکمل تصویر پیش کرتی ہے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی زندگی وہ عظیم المرتبت سبق آموز زندگی ہے جس کی کرنوں سے ہم اپنی زندگی کی تاریکیوں کو روشن کر سکتے ہیں اس کے لئےہمیں سنجیدگی کے ساتھ آپ کی زندگی کے عملی پہلووں کی طرف متوجہ ہونے کی ضرورت ہے ۔یہ عملی پہلو کیا ہو سکتے ہیں فیمینزم کی چلتی ہوا کے درمیان ان پہلووں پر گفتگو یقینا سخت ہے
لیکن بات میں بھی شک نہیں کہ جہاں نئی نسل کے سامنے اس کا کھوکھلا پن واضح ہونا ضروری ہے وہیں یہ بھی لازم ہے کہ حضرت صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیہا کا عملی کردار بھی سامنے آئے اور ہمارا آج کا جوان سمجھ سکے اس کے پاس کتنا بڑا سرمایہ ہے اور وہ اس سے غافل کس طرح کھوکھلے نعروں پر جان دے رہا ہے۔
فمینزم کے تعارف میں عالمی تحریکوں کا کردار:
جہاں تک بات فمینزم کی ہے تو یہ ایک ایسا نظریہ ہے جو اپنے مخصوص معرفتی، اخلاقی، اور علمی اصولوں کے ذریعے خود کو متعارف کرواتا اور فروغ دیتا ہے۔ اس کے تعارف میں فمینزم کی عالمی تحریک کا ایک بڑا کردار ہے
فمینزم کے بارے میں شائع شدہ متون اور ذرائع کے جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس تحریک کی تاریخ کو دو اہم اور واضح مراحل میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ۔
فمنیزم کا پہلا مرحلہ انیسویں صدی کے اواخر سے بیسویں صدی کے اوائل تک، یعنی 1870 سے 1920 کے درمیان کا ہے۔
دوسرا مرحلہ: 1960 سے 1970 تک بیان کیا جاتا ہے۔
ان دو مراحل کے دوران، فمینزم کی فکر امریکہ، یورپ کے بیشتر ممالک، خاص طور پر صنعتی اور اقتصادی طور پر ترقی یافتہ علاقوں، اور ایشیا کے بعض حصوں میں پھیلی۔
پہلے مرحلے کا مختصر جائزہ :
پہلے مرحلے میں، فمینزم کی تحریک لبرل ازم سے متاثر تھی، اور اس کے مقاصد مغربی سرمایہ دارانہ نظام اور مسیحیت کی تعلیمات کے سماجی اور سیاسی ڈھانچے کے اندر محدود تھے۔ اس دور کے فیمینسٹ صرف قانونی، پیشہ ورانہ، اور سیاسی حقوق میں مردوں کے برابر ہونے کے خواہاں تھے۔
دوسرا مرحلہ:
دوسرے مرحلے میں، فمینزم کی فکر بنیادی طور پر نئی بائیں بازو (نیو مارکسزم) کے نظریات پر مبنی تھی۔ نئی نسل کے فیمینسٹ، “خواتین کی آزادی کی تحریک” کے تحت، مرد و زن کے درمیان جنسی مساوات کے حصول کے لیے جدوجہد کرتے رہے اور یہ دعویٰ کیا کہ یہ حقوق صرف انقلابی تبدیلیوں سے حاصل ہو سکتے ہیں۔
اس دور کے فیمینسٹ سماجی ثقافتی روایات کی جڑوں، بنیادوں، اور ان کے اثرات کو ختم کرنے کی کوشش کرتے رہے، کیونکہ ان کے نزدیک انسانی معاشروں کی روایتی ثقافت کا بنیادی ڈھانچہ مرد کی محوریت و مرکزہت یا مردسالاری کے تحت تھا۔ ان کا ماننا تھا کہ جب تک یہ نظام انسانی معاشروں پر غالب رہے گا، حقیقی انصاف اور مکمل مساوات کا حصول ممکن نہیں ہوگا۔
فمینزم کی مرکزی فکر اور مرد :
مندرجہ بالا نکات کی روشنی میں، یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ فمینزم کی تمام مباحث کا مرکزی البتہ منفی محور “مرد” ہے۔ اس نظریاتی نظام میں مرد کو خواتین کی زندگی میں کسی بھی قسم کے مثبت کردار سے محروم تصور کیا جاتا ہے، بلکہ مرد کو عورت کا سب سے بڑا اور ناقابلِ مصالحت دشمن قرار دیا جاتا ہے۔
نیو مارکسسٹ نظریات کے حامی سخت گیر فیمینسٹوں کا خیال ہے کہ خواتین کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مردوں پر انحصار کے علاوہ دوسرے راستے تلاش کیے جائیں۔ اگرچہ اس مکتبِ فکر کے کچھ افراد مردوں کے مثبت کردار کو مکمل طور پر رد نہیں کرتے، لیکن وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ خواتین اور مردوں کے درمیان مکمل مساوات کے لیے مسلسل اور ہمہ جہتی جدوجہد ناگزیر ہے۔ ان کے نزدیک یہ جدوجہد ایک طویل اور حق طلبی پر مبنی عمل ہے جس کے لیے مستقل محنت درکار ہے۔
مردوں کے لیے ہر قسم کی قدر و منزلت کا انکار:
خواتین کا مردوں سے، زندگی کے تمام شعبوں میں، حتیٰ کہ جنسی معاملات میں بھی بے نیاز ہونے کا عقیدہ۔
اس نظریہ کے تحت عورتوں کے استقلال کو مضحکہ خیز انداز میں ایسا بنا کر پیش کیا گیا کہ ایک عورت کا اپنا وجود ہی ختم ہو جائے ظاہر ہے عورت مرد سے بے نیاز ہو کر کیا رہ جائے گی ایک عورت کی معراج یہ ہے کہ وہ ماں بنے لیکن وہ مردوں سے بے نیاز رہے گی تو کیسے اس معراج کو حاصل کر سکے گی بے نیازی نہ تو اس کے سر پر شوہر کو برداشت کرے گی نہ کسی اور ذمہ داری کو جسے وہ نبھائے ایسے میں اس کی حقیقت کیا رہ جائے گی سوائے اس کے کہ اسکا وجود تفریح و تسکین کا ذریعہ بن جائے
اس نظریہ میں بظاہر بزعم خود مردوں کی ہزاروں سالہ حکمرانی کے خاتمے کے لیے خواتین کی جانب سے مسلسل جدوجہد کی ضرورت پرزور دیا گیا ہے جس کا مقصد بالآخر مردوں کو زندگی کے تمام شعبوں اور ان کی انفرادی و اجتماعی زندگی کے میدانوں میں مغلوب و مقید کرنا ہے۔ سوال یہ ہے غالب و مغلوب سے حاصل کیا ہے اگر مردو زن سماج میں اپنے کردار کو ادا نہ کر سکیں ؟
فمینزم کے تاریخی ارتقا کے ایک اور مرحلہ کو1990 کی دہائی کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ اس دوران فیمینسٹوں کے مطالبات دن بدن زیادہ شدت اختیار کرتے گئے اور تحریک انتہا پسندی کی طرف بڑھنے لگی۔ اس دور کے فیمینسٹ، ژاک لاکان، ژولیا کرسٹیوا، اور زبان کے ماہرین جیسے سوسر کے نظریات سے متاثر ہو کر، زبان، آرٹ، ادبی تنقید، فلسفہ، نفسیات، اور معرفت شناسی کے شعبوں میں فمیسنٹی مباحث لے کر آئے۔ یہ رجحانات انتہائی افراط پسندی کی طرف مائل ہو گئے، یہاں تک کہ فیمینسٹ یہ دعویٰ کرنے لگے کہ خواتین، تمام معاملات میں، حتیٰ کہ جنسی معاملات میں بھی مردوں سے بے نیاز ہیں۔مزید یہ کہ، فیمینسٹوں کا ماننا تھا کہ خواتین ہمیشہ اور ہر دور میں مردوں سے برتر اور زیادہ صلاحیتوں کی حامل رہی ہیں۔ ان کے مطابق، “خاتون ہونے” کا تصور ایک نسبتی حقیقت ہے، اور یہ مردسالارانہ یا مرد کی مرکزیت کے تحت آنے والے سماج اور روایتی معاشرتی اقدار ہی تھیں جنہوں نے خواتین کی تعریف کی، اور اسی تعریف نے مردوں کو خواتین پر حاکمیت کا موقع دیا، انہیں استحصال کا شکار بنایا، اور عورت کو ایک کمزور، ذلیل، اور مرد کے تابع مخلوق بنا دیا۔
اخلاقیات کا انکار اور جنسی فمینزم:
اس دور کے بعض سخت گیر فیمینسٹوں نے حد درجہ انتہا پسندی اختیار کر لی، یہاں تک کہ انہوں نے مکمل طور پر اخلاقیات کا انکار کر دیا۔ اس دور میں ایک خاص قسم کا فمینزم بھی سامنے آیا، جسے “جنسی فمینزم” کہا جاتا ہے۔ اس گروہ نے ژاں پال سارتر اور سیمون دی بوار جیسے وجودیت پسند فلسفیوں کے خیالات کی بنیاد پر خواتین کی فطرت اور مستقل حیثیت کو یکسر مسترد کرتے ہوئے اسکے لئے جنس اور جنسیت کی نئی تعریفیں پیش کیں۔
یہ فیمینسٹ خواتین اور مردوں کو جسمانی فرق کی بنیاد پر نہیں بلکہ ثقافتی، سماجی، سیاسی، اور اقتصادی حالات کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک مرد اور عورت کی تعریف کو روایتی معاشروں کی مردسالارانہ یا مرد محور سوچ اور حاکمانہ رشتوں نے تشکیل دیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ مرد کسی بھی لحاظ سے عورت پر برتری نہیں رکھتے، بلکہ اس کے برعکس معاملہ ہے۔
مسیحیت اور مرد کی مرکزیت کے سلسلہ سے فیمینسٹ مفکرین کا نقطۂ نظر:
اس نظریہ کے مطابق مسیحیت کی تعلیمات بنیادی طور پر مرد مرکز ہیں، جو خواتین کے ساتھ عدم مساوا منت کو فروغ دیتی ہیں جس کی دلیل خدا کا مردانہ تصور ہے
ان فیمینسٹی مفکرین کے مطابق، مسیحیت میں خدا کو عمومی طور پر ایک مردانہ شخصیت کے طور پر پیش کیا گیا ہے:
خدا کو “باپ” (Father) کہا جاتا ہے، “مادر” (Mother) نہیں۔
مسیحیت کے تثلیثی عقیدے (پدر، پسر، روح القدس) میں دو اقنوم (پدر اور پسر) مرد سمجھے جاتے ہیں۔
حتیٰ کہ بائبل کے متن میں خدا کے لیے “He” اور “His” جیسی مردانہ ضمیر استعمال کیے جاتے ہیں جن کے تحت یہ لوگ کہتے ہیں یہ مردانہ تصور ہے
فیمینسٹی الٰہیات کے مطابق، مسیحیت کی بنیادوں میں یسوع مسیح کا کردار بھی مرد مرکزی ہے
انکے مطابق یسوع مسیح مرد ہیں، جو مسلوب ہوئے، انہوں نے انسانوں کے گناہوں کا بوجھ اٹھایا، اور انسانیت کے لیے نجات کی بشارت دیتے ہوئے سولی پر چڑھ گئے ان کے یہاں ہر فیض اور برکت کا سر چشمہ مسیح کو سمجھا جاتا ہے، جو کہ ایک مرد ہیں۔
بائبل کے مطابق، مسیح کے تمام حواری بھی مرد تھے، جسے فیمینسٹ الٰہیات کے مطابق مسیحیت کی مرد مرکزی سوچ کی عکاسی قرار دیا جاتا ہے۔
فیمینسٹی الٰہیات کا مطالبہ:
فیمینسٹ الٰہیات کے پیروکار مسیحیت کی تعلیمات کی نئی تشریح کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ان کے مطابق:
1. خدا کو ایک “دو جنسی” ہستی کے طور پر ماننا چاہیے، جو مرد اور عورت دونوں خصوصیات کا حامل ہو۔
2. اگر خدا کو مرد ہی سمجھا جائے، تو پھر خواتین کو وہ حیثیت ملنی چاہیے جو مسیحیت میں خدا، مسیح، حواری، اور نجات دہندہ کو دی گئی ہے، کیونکہ خواتین بھی ان تمام کرداروں کے لیے موزوں اور شایستہ ہیں۔ مختصر طور پر ہم کہہ سکتے ہیں
فیمینسٹی مفکرین کا ماننا ہے کہ مسیحیت کے الٰہیات میں مرد کی مرکزیت کی جڑیں گہری ہیں، اور ان تعلیمات میں تبدیلی کے بغیر خواتین کو مذہب میں مساوی حیثیت دینا ممکن نہیں۔ ان کے نزدیک، خواتین بھی ہر لحاظ سے خدا کی نمائندگی کرنے اور نجات دہندہ کے کردار ادا کرنے کی اہلیت رکھتی ہیں
فمینزم کے بارے مندرجہ بالا سلسلہ بحث کے بعف اگر جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے کردار پر غور کیا جائے تو بہت سارے مسائل کا جواب مل جائے گا ہمارے یہاں فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو محور رضائے رب کے طور پر جانا جاتا ہے جبکہ ہمارے یہاں خدا کو لیکر جنسیت کا تصور نہیں یہ تصور وہاں ہوتا ہے جہاں جسم و جسمانیت ہو ہم خدا کو اس سے مبرہ جانتے ہیں فمیننزم کی گفتگو گرچہ طولانی ہے جس سے صرف نظر کرتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر اس سلسلہ سے سارے شبہات کو ایک طرف رکھ کر بی بی دو عالم کے فعال و لا ثانی کردار کو پیش کریں جنکا اپنے شوہر کے ساتھ بچوں کے ساتھ اور سماج اور معاشرے کے ساتھ لازوال کردار ہے جس میں بے شمار اسباق موجود ہیں جن سے انسانیت بہت کچھ حاصل کر سکتی ہے اگر ہم اس کردار کو پیش کرنے میں کامیاب ہو گئے جو شہزادی کا ہے تو بہت سے شبہات خود بخود ختم ہو جائیں گے اور فمینزم کے کھوکھلے نعرے کا کھوکھلا پن اور بھی ظاہر ہوگا لیکن اس کے لئے ضروری ہے ہم شہزادی کونین کی سیرت کے عملی نمونوں کو نئی نسل کے سامنے پیش کر سکیں جو بغیر مطالعہ سیرت کے ممکن نہیں ہے تو آئیں کیا ہی بہتر ہو آپکی ولادت با سعادت کے پر مسرت موقع پر ہم شہزادی کونین سے متعلق کتب و مضامین کا مطالعہ کریں انکی سیرت کے سلسلہ سے بزرگ علماء اور دانشورں کی تقاریر کو سنیں تاکہ ہمیں اپنی روح کی تشنگی بجھانے کے لئے کسی اور در پر نہ جانا پڑے کہ ہمارے لئے اس در پر ہی سب کچھ ہے جس در زہرا سلام اللہ علیہا کہا جاتا ہے۔
آپ کا تبصرہ