تحریر: مولانا گلزار جعفری
حوزہ نیوز ایجنسی| ماہ جمادی الثانی کی بیسویں تاریخ تھی، صبح کی پہلی کرن آغوش نور میں جلوۀ افروز تھی، شبنم کی سگھند سے یا اوس کی چمک سے مدینہ کا موسم بڑا سہانہ تھا، لیلہ القدر کا نور جلی مطلع الفجر کی صورتِ حجاب قدرت سے آغوش ملیکتہ العرب میں منصہ شہود پر آرہا تھا۔
ملکۂ شجاعت نے زمین عرب پر اپنا پہلا قدم رکھا تھا کہ اصنام قریش کے دل دہلنے لگے ابتر کا طعنہ دینے والوں کے چہرے فق ہو گئے مقطوع النسل کا کلمہ زبانوں پر ورد کرنے والوں کی نسلیں ناپید ہو گئیں زبانیں گنگ نظر آنے لگیں عرب کا گندہ گدلا پانی پینے والے پست فکر اور نیچ لوگوں کے رخسار پر قدرت نے ننھے ننھے قدموں سے ایسا طمانچہ لگوایا کہ منھ ٹیڑھے ہو گئے وہ مبداء رحمت، فیض علی الاطلاق، ذات واجب الوجود جس نے رحمت للعالمین کے دامن میں اصل رحمت کو بھیجا، جس کی رسالت کی گواہی کے بغیر رسولوں کی گواہیاں قابل قبول نہیں کاتب تقدیر نے کتاب رسالت کے سینہ پر وہ تحریر حقیقت لکھ دی، جس کی محبت و فضیلت و محبت کا اقرار اگر نبوتیں نہ کریں تو ان کی تکمیل ناگزیر ہو جائے۔
قال امامنا الباقر علیہ السلام:تكاملت النبوّة لنبيّ ، حتّى أقرّ بفضلها و محبّتها.
بہر کیف سیدہ عالمیان کا زمین عبودیت پر بچھ جانا اور اپنے وجود کی برکت سے مدینہ منورہ میں بیٹیوں کی عزتوں کو بحال کرنا چشم تاریخ سے پوشیدہ نہیں ہے جس زمانہ میں آپ کی ولادت باسعادت ہوئی وہ بڑا بھیانک دور تھا نبی رحمت ص کے اعلان بعثت کو ابھی پانچ برس گزرے تھے چاروں جانب سے مخالفتوں کا بازار گرم تھا کفر و شرک کی مسموم آندھیاں چل رہی تھیں یہود و نصاری کی سوزشیں سازشیں اپنے عروج پر تھیں پورا عالم عرب اس طرح عداوت پر کمر بستہ تھا کہ ملیکتہ العرب جو ہر وقت ہر لمحہ ہزاروں کنیزوں کے جھرمٹ میں رہا کرتی تھیں، غلام جہاں صف با صف دست بستہ جسکے حضور میں کھڑے ہوتے تھے، جس کے خانہ مقدس میں عیش و آرام کے سارے سامان فراہم ہوں، جس کی جنبش لب پر ہر خواہش کی تکمیل چشم زدن میں ہوتی ہو، جس کا دروازہ فیض عرب کے ناداروں کا محور شکم سیری ہوا کرتا ہو جس کا آستان قدس دست طلب کو عزتیں بخشتا ہو، جہاں چہرے کا پانی اتارا نہ جاتا ہو اس ملکۂ سخاوت کو بیٹی کی ولادت کے وقت عرب کی عورتوں کا روگردانی کرنا ایسے نازک وقت میں نازوں کی پلی شہزادی کی تنہائی اور کوئی مونس تنہائی نہیں ذرا سوچیں یہ لمحہ کس قدر اذیت ناک ہوتا اگر قدرت نے اپنے رسول پر کرم نہ کیا ہوتا اور خواتین جناں کو خدمت حضرت خدیجہ میں نہ بھیجا ہوتا، لیکن دست قدرت نے تاریخ عرب کے چہرے نخوت پر ایک زور دار زناٹے دار طمانچہ لگایا اور ملکہ صبر کو ثمرہ صبر شیریں اس طرح عطا فرمایا کہ رب ذوالجلال والاکرام نے اسکا نام ہی عطیہ رکھ دیا اور مصداق کوثر قرار دیکر ابتر کا طعنہ دینے والے کو ہی مقطوع النسل قرار دے دیا دس بیٹے دیے تھے مگر شانک ھو الابتر کا عنوان باقی رکھنا تھا، اس لیے سلب اولاد کرکے تکبر کے مزاج پر ایک ضرب کاری لگادی۔
جب وہ نسلوں کے شجروں پر ثمر لگاتا ہے تو طاقت و قوت پر اترانے والوں کو سبق سکھانے کے لیے بیٹی سے نسل کو دوام دیتا ہے، تاکہ بگڑا ہوا سماج بیٹی اور بیٹے میں فرق نہ کرے، کیونکہ جس کے دس بیٹے تھے، اس کی نسل مقطوع ہوگئی اور جسے ایک بیٹی دی تھی اسے کوثر بنایا اور آج اس کوثر کی برکت کو پوری دنیا کے گوشہ و کنار میں دیکھا جا سکتا ہے، سادات کی نسلوں کا پھلنا اور پھولنا رب لازوال کے وعدہ کی نشانی ہے، ورنہ جتنا اس درخت کی شاخوں اور پتوں کو کاٹا گیا کائنات میں کسی شجرہ پر اتنا ستم نہیں ہوا۔
سادات سے عداوت در اصل عاص بن وائل کے شجرۀ ابتر کے بچے کچے نطفوں کی شرارت کا نتیجہ ہے سید کو ایک شرف تو بہرحال حاصل ہے یہ اور بات ہے کہ اسے کردار کی چمک ہیرا بنا دیتی ہے اور بدکرداری انسان کو اس شجرہ کی عظمت سے گرادیتی خیر اصل مقصد سیدہ کے حیات طیبہ کے نقوش پتھروں کی صلابتوں پر اتارنے کا ارادہ ہے سادات کے شجرے محل بحث نہیں ہیں۔
جس پر آشوب دور میں سیدہ نے چشم نور کو وا کیا وہ ظلمتوں سے بھرا ہوا تھا ہر طرف عداوتوں کی گھٹن تھی، نفرتوں کی سیاہ آندھیاں چل رہی تھیں، نیچ نسلیں نیچتا دیکھانے پر تلی تھیں، ہر طرف اسلام کے خلاف سازشوں کا دور دورہ تھا، نمک حرام عرب جس دہلیز خدیجہ سے شکم سیر ہوئے اسی در پر بھونکنے لگے، جہاں کبھی دم ہلا کر ہڈیاں چوستے تھے، وہیں کاٹنے کو دوڑنے لگے خربوزے کے چھلکے چبانے والی قوم مال ملکۂ عرب سے اپنے آپ کو اہل ثروت گرداننے لگے، جن کی فاقہ شکنی خدیجہ کے ٹکڑوں سے ہوتی تھی اب وہ اپنے آپ کو جاگیردار کہلانے لگے تھے، جس کا آستانہ مقدس تشنگی، گرسنگی، برہنگی، مفلسی، کے دور میں چشمہ فیض کرم تھی اب اسی ذات کو شعب ابی طالب ع میں تین سال تک درختوں کے پتوں اور چھالوں پر گزارنا پڑے، جس کے آنگن میں کبھی ہیرے جواہرات، زیورات، سونا چاندی، نقدی کی خیرات کشکول امت میں دان کی جا رہی تھی آج وہی امت نمک حرام عزم خدیجہ کی آزمائش کر رہی تھی، مگر سلام ہو اس ام المؤمنین پر جس نے عشق نبی اور شغف الٰہی میں سب کچھ برداشت کیا اور دشمن کی تاریخ نے بھی اسکے لب و لہجہ سے شکایت نہ سنی بلکہ ہر ان شکر منعم ہی ادا ہوتا رہا۔
اک شیر خوار بچی نے آغوش مادر میں صبر کے جو جلوے دیکھے اسے کردار میں اس طرح ڈھالا کہ اگر غربت کی گرد کبھی بیت سیدہ س کا طواف کرنے لگی تو ذروں کو صحن میں آنے کی اجازت نہیں تھی ہر آن ماں کی طرح صبر و شکر کی ملکہ بن کر صراط صبر پر استقامت کا مظاہرہ کیا بھلا اسکی شان و عظمت میں کوئی کیا خامہ فرسائی کرے حوزہ کوثر سے وضو کرے، شاہین خیال کو بال و پر دے، تسنیم و سلسبیل کے چکر لگائے طائر تخیل کو سدرة المنتھی تک لے جائے تب کہیں جا کر وہ خرمہ ملےگا جو قدرت نے حجابوں میں رکھ کر صلب رسالت میں ودیعت کیا تھا جس کی خلقت کی خوشبو فردوس بریں کا عطر ذریں ہو اس پر کلک قلم کا تحرک یا خامہ فرسائی کا جگر تو جبریل امیں جیسے قوی شہ پر والے میں نہیں ہے تو اس لطیف و نحیف مخلوق حضرت انسان میں کیا ہو گی، مگر بس انکی غبار خاک کف پا کے حصول کے لئے بام و در علم آل محمد پر بسیرا کیا جائے، شاید کشکول معرفت لبریز ہو جائے کچھ علم کے قطرے منقار معرفت سے چن لیے جائیں، خزانہ ادب سے لفظوں کے موتی نکالے جائیں، جس سے وہ گلوں کی مالا سجائی جائے، جس کی خوشبو سے مشام عالم مہک اٹھے اور بدبودار شجروں پر لعنت و نفرین کی جا سکے۔
جناب سیدہ سلام اللہ علیہا آغاز حیات سے ہی صبر و ضبط، شکر و ایثار ، شجاعت و ہمت تقوی و تقدس ،علم و ہنر ، جلوہ وحدت کی شان جلی ہم مباحث عالم علم لدنی علی علیہ السّلام قرار پائی ہو اور حیات طیبہ کے وہ سنہرے نقوش چھوڑے جو ہر دور کی ہر خاتون کے لیے مشعل راہ ہے بس چشم معرفت کے دریچہ کھلے ہوں کاسہ دل مودت قربی کے لیے وسیع ہو اور کشکول طلب اس بارگاہ مقدس میں ہمہ وقت پھیلا ہو تو ان کی عطا میں کوئی کمی نہیں ہے بس خدا کرے ہمیں مانگنے کا سلیقہ آجائے۔
رب کریم ہمیں سیرت حضرت صدیقہ طاہرہ پر چلنے کی توفیق عنایت فرمائے۔
تمام موالیان حیدر کرار کو صدیقہ طاہرہ حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی ولادتِ باسعادت بہت بہت مبارک ہو۔
حوالہ جات:
عوالم العلوم و المعارف و الأحوال من الآیات و الأخبار و الأقوال ج ۱۱، ص ۱۶۱
سورۂ مبارکۂ الکوثر آیت ۳
آپ کا تبصرہ