تحریر: مولانا سید شہروز زیدی
حوزہ نیوز ایجنسی| اسلام کی تاریخ میں بی بی فاطمہ زہراؑ ایک ایسی عظیم شخصیت ہیں، جن کی زندگی ہر انسان، خصوصاً خواتین کے لیے مکمل رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ آپؑ کا کردار و سیرت نہ صرف اسلام کی روح کو سمجھنے میں مدد دیتی ہیں، بلکہ زندگی کے ہر پہلو میں انسانیت کو رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔
ایک نورانی آغاز
بی بی فاطمہ زہراؑ کی ولادت ۲۰ جمادی الثانی بروز جمعہ بعثت کے پانچویں سال مکہ میں ہوئی۔ایک ایسے گھرانے میں پیدا ہوئیں جو نورِ ایمان اور تقویٰ کا سرچشمہ تھا۔ آپؑ کی ولادت کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول اللہؐ کے لیے تسکین اور امتِ مسلمہ کے لیے ایک نعمت قرار دیا گیا۔
"حضرت فاطمہ زہرا ؑ کی ولادت کے وقت رسول خدا ﷺ نے جناب خدیجہ سے فرمایا: جبرائیل نے مجھے بشارت دی ہے کہ ہماری یہ پیدا ہونے والی اولاد لڑکی ہے اور تمام آئمہ معصومین اِسی کی نسل سے ہوں گے"
بیٹی کے طور پر مثالی کردار
بی بی فاطمہ زہراؑ نےاپنے والد رسول اللہ کی زندگی کے ہر لمحے میں ان کا ساتھ دیا، چاہے وہ مکی دور کے سخت حالات ہوں یا مدینہ میں تبلیغِ اسلام کی مشکلات ہوں۔ آپؑ کو رسول اللہؐ "ام ابیہا" یعنی اپنے باپ کی ماں کہہ کر مخاطب کرتے تھے، کیونکہ آپؑ والد کی دلجوئی اور خدمت میں ہمیشہ پیش پیش رہتی تھیں۔ جناب سیدہؑ کو اپنے بچپن میں بہت سے ناگوار حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ پانچ سال کی عمر میں سر سے ماں کا سایہ اٹھ گیا ۔ اب باپ کے زیر سایہ زندگی شروع ہوئی تو اسلام کے دشمنوں کی طرف سے رسول کو دی جانے والی اذیتیں سامنے تھیں ۔ کبھی اپنے بابا کے جسم مبارک کو پتھرون سے لہو لہان دیکھتیں تو کبھی سنتی کے مشرکوں نے بابا کے سر پر کوڑا ڈال دیا۔ کبھی سنتیں کہ دشمن بابا کے قتل کا منصوبہ بنا رہے ہیں ۔ مگر اس کم سنی کے عالم میں بھی سیّدہ عالم نہ ڈریں نہ سہمیں نہ گھبرائیں بلکہ اس ننھی سی عمر میں اپنے بزرگ مرتبہ باپ کی مددگار بنی رہیں۔ آپؑ کی اس محبت نے والد اور بیٹی کے رشتے کو ایک مثالی نمونہ بنا دیا۔
ازدواجی زندگی
بی بی فاطمہ زہراؑ کا عقدِ نکاح حضرت امام علیؑ سے ہوا، جنہیں رسول اللہؐ نے اسلام کا سب سے بہترین جوان قرار دیا تھا۔ آپؑ کی شادی سادگی اور قناعت کی اعلیٰ مثال تھی، جس میں دنیاوی نمود و نمائش کے بجائے دینی اقدار کو اہمیت دی گئی۔آپؑ کی ازدواجی زندگی محبت، احترام، اور باہمی تعاون سے بھرپور تھی۔ آپؑ نے حضرت امام علیؑ کے ساتھ زندگی کے سخت ترین حالات میں بھی صبر و قناعت کا مظاہرہ کیا اور کبھی شکوہ نہ کیا۔
سماجی اور سیاسی کردار
بی بی فاطمہ زہراؑ نے خواتین کے لیے نہ صرف ایک گھریلو زندگی کا نمونہ پیش کیا بلکہ سماجی اور سیاسی میدان میں بھی رہنمائی فراہم کی۔ آپؑ نے خطبہ فدک میں ظالموں کے خلاف حق کی آواز بلند کی اور اسلامی اصولوں کی حفاظت کے لیے اپنی بصیرت اور حکمت کا مظاہرہ کیا۔ بی بی زہراؑ نے امت کو یہ پیغام دیا کہ خواتین کا کردار صرف گھریلو زندگی تک محدود نہیں بلکہ دین اور معاشرے کی اصلاح میں بھی ان کا کلیدی کردار ہے۔
جناب فاطمہ (س) كى معنوى شخصيت
آپ ؑ كى معنوى شخصيت ہمارے ادراك و ہمارى توصيف سے بالاتر ہے۔ يہ عظيم خاتون كہ جو معصومين كے زمرہ ميں آتى ہيں ان كى اور ان كے خاندان كى محبت و ولايت دينى فريضہ ہے ۔ اور ان كاغصہ اور ناراضگى خدا كا غضب اور اسكى ناراضگى شمار ہوتى ہے۔
(بحار الانوار جلد 34/19)
پس، بی بی فاطمہؑ كى شخصيت كومعصوم كے کلام سے پہچاننا چاہیے۔
رسول ِ اكرمﷺ نے فرمايا: جبرئيل نازل ہوئے اورانہوں نے بشارت دى كہ ''حسنؑ و حسين ؑ جوانان جنّت كے سردار ہيں اور فاطمہؑ جنّت كى عورتوں كى سردار ہيں ۔( امالى طوسى جلد ۱ ص ۸۳)
آنحضرت ﷺ نے فرمايا: دنيا كى سب سے برتر چار عورتيں ہيں : مريم بنت عمران، خديجہ بنت خويلد ، فاطمہ بنت محمد اور آسيہ بنت مزاحم (مناقب ابن شہر آشوب جلد3 ص 322)
بی بی فاطمہ زہراؑ کی ولادت امتِ مسلمہ کے لیے خوشی اور ہدایت کا پیغام ہے، اس دن کو مناتے ہوئے ہمیں آپؑ کی تعلیمات کو اپنی زندگی میں شامل کرنے کا عہد کرنا چاہیے۔ آپؑ کی زندگی اس بات کا ثبوت ہے کہ خواتین کسی بھی معاشرے میں انقلاب برپا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
بی بی فاطمہ زہراؑ کی شخصیت تمام مسلمانوں کے لیے، خاص طور پر خواتین کے لیے ایک کامل نمونہ ہے۔ آپؑ کی زندگی ہمیں دین، اخلاق، اور انسانی قدروں کی اہمیت کا درس دیتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ آپؑ کی تعلیمات کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں تاکہ ہم ایک کامیاب، مضبوط، اور اخلاقی طور پر برتر معاشرہ تشکیل دے سکیں۔
آپ کا تبصرہ