جمعہ 12 دسمبر 2025 - 15:54
ولادتِ حضرت فاطمہؑ اور اسلام میں خواتین کے مقام کی بنیاد

حوزہ/حضرت فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا کی ولادت اسلام کی تاریخ میں ایک غیر معمولی اور روحانی اہمیت رکھنے والا واقعہ ہے۔ آپؑ کی آمد نہ صرف رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر نور و برکت کا سبب بنی، بلکہ یہ واقعہ اس سماجی انقلاب کا نقطۂ آغاز بھی تھا جس نے عورت کی حیثیت کو نئی بلندیوں سے آشنا کیا۔

تحریر: عاصم علی

حوزہ نیوز ایجنسی|

ولادتِ حضرت فاطمہؑ: نورِ محمدی کی جلوہ گری

حضرت فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا کی ولادت اسلام کی تاریخ میں ایک غیر معمولی اور روحانی اہمیت رکھنے والا واقعہ ہے۔ آپؑ کی آمد نہ صرف رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر نور و برکت کا سبب بنی، بلکہ یہ واقعہ اس سماجی انقلاب کا نقطۂ آغاز بھی تھا جس نے عورت کی حیثیت کو نئی بلندیوں سے آشنا کیا۔

ولادت کا پس منظر

آپؑ کی ولادت ایسے وقت میں ہوئی جب پورا عرب معاشرہ شدید جاہلی رسوم و عقائد میں الجھا ہوا تھا۔ بیٹی کی پیدائش کو معیوب سمجھا جاتا تھا، بعض قبائل لڑکیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے، عورتوں کا معاشرتی مقام انتہائی پست تھا۔ ایسے ماحول میں اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کے گھر ایک بیٹی عطا کی جو آنے والے زمانوں میں سیدۃ نساء العالمین کہلانے والی تھیں۔

سنِ ولادت اور تاریخ

حضرت فاطمہؑ کی ولادت 20 جمادی الثانی بروز جمعہ مکہ مکرمہ میں ہوئی۔ روایات کے مطابق یہ وقوعہ بعثت کے پانچویں یا دسویں سال کے درمیان ہے۔ آپؑ کے والد رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور والدہ حضرت خدیجہؑ کبریٰ تھیں۔وہ عظیم خاتون جنہوں نے اسلام کی ابتدا ہی میں اپنے مال اور جان سے رسول اللہ کا ساتھ دیا۔

ولادت کا روحانی پہلو

روایت میں آتا ہے کہ حضرت خدیجہؑ کی ولادت کے وقت مکہ کی عورتوں نے جاہلیت کے اثرات کے باعث ان کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا تھا، لیکن اللہ تعالیٰ نے اس محرومی کو اپنی رحمت سے بدل دیا۔ روایات بیان کرتی ہیں کہ چند نورانی خواتین آسیہ، مریم اور حورالعین۔ان کی مدد کے لیے بھیجی گئیں۔ یہ واقعہ اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ آنے والی شخصیت معمولی نہیں بلکہ روحانیت کی بلندیوں پر فائز ہونے والی تھی۔

رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کی غیر معمولی خوشی

ولادت کی خبر سنتے ہی رسول اللہ نے اپنی بیٹی کو گود میں لیا، بوسہ دیا، اور نہایت خوشی کا اظہار کیا۔ اس وقت آپ (ص) نے اس معاشرتی سوچ کو عملی طور پر مسترد کر دیا جو بیٹی کی پیدائش کو بوجھ سمجھتی تھی۔آپ (ص) نے فرمایا:“فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے، جو اسے خوش کرے گا وہ مجھے خوش کرے گا۔”یہ اعلان صرف باپ کی محبت نہیں بلکہ عورت کی عزت و تکریم کا اعلان تھا۔

نام رکھنے کی حکمت

اللہ تعالیٰ نے آپؑ کا نام “فاطمہ” رکھا، جس کے معنی ہیں:جدا کرنے والی، پاکیزہ، گناہوں سے دور رکھنے والی ۔یہ نام پہلے ہی اعلان تھا کہ یہ بیٹی نہ صرف روحانی مقام رکھے گی بلکہ پاکیزگی، تقویٰ اور عظمت کی علامت بنے گی۔

گھر میں تربیت کا ماحول

آپؑ نے رسول اللہ(ص)کی آغوش میں پرورش پائی۔ گھر میں نبوت کا نور تھا، صداقت کی فضا تھی، عبادت کا رنگ تھا، اور اخلاق کی خوشبو تھی۔ یہی وہ تربیتی ماحول تھا جس نے فاطمہؑ کو مستقبل میں کامل ترین عورت کا درجہ عطا کرنا تھا۔

جاہلیت کے مقابل ایک نمایاں ولادت

حضرت فاطمہؑ کی پیدائش عرب معاشرے کے لیے ایک اعلان تھا:کہ بیٹی رحمت ہے، عورت کا مقام بلند ہے، پاکیزگی عورت کا زیور ہےاور نبی خود اپنی بیٹی کو وہ عزت دیں گے جو دنیا میں کسی کو نہ ملی ہو۔آپؑ کی ولادت نے عورت کے متعلق اسلام کا اصل نظریہ واضح کر دیایعنی عورت نہ کمتر ہے نہ بوجھ، بلکہ خاندان اور معاشرے کی بنیاد ہے۔

اسلام میں خواتین کے مقام کی بنیاد اور ولادتِ فاطمہؑ سے نظریاتی آغاز

حضرت فاطمہؑ کی ولادت نے صرف ایک گھر کو نہیں، پورے معاشرے کو بدلنے کی بنیاد رکھی۔ آپؑ کی آمد وہ دروازہ تھی جس سے عورت کی حقیقی عظمت امت کے سامنے کھلی۔ اب تحریر کے اس حصے میں اسلام نے عورت کے لیے جو اصولی مقام مقرر کیا ہے، اسے حضرت فاطمہؑ کی روشنی میں بیان کرتے ہیں۔

1. عورت کی عزت و تکریم کا عملی معیار

رسول اللہ (ص) اپنی بیٹی فاطمہؑ کا احترام اس طرح کرتے تھے کہ جب بھی وہ تشریف لاتیں، آپ (ص) کھڑے ہو جاتے، ان کا ہاتھ پکڑ کر بوسہ دیتے اور اپنی جگہ پر بٹھاتے۔ یہ عمل اعلان تھا کہ:عورت عزت کے لائق ہے۔بیٹی نعمت ہے،گھر کی روشنی ہے۔حضرت فاطمہؑ احترامِ نسواں کا زندہ معیار بن گئیں۔

2. عورت کے حقوق کی بنیاد

اسلام نے عورت کووراثت،نکاح میں رضامندی،جائداد کی ملکیت،عزتِ نفس،معاشرتی کردار،تعلیم،عبادت کی آزادی جیسے حقوق دیے۔ ان حقوق کی نظریاتی بنیاد وہی احترام ہے جو رسول اللہ(ص) نے حضرت فاطمہؑ کے ذریعے سکھایا۔

3. سیرتِ فاطمہؑ عورت کی تربیت کا مکمل نمونہ

بطور بیٹی آپؑ اطاعت، خدمت، محبت اور حیاء کی مثال تھیں۔ بطور بیوی آپؑ حضرت علیؑ کے ساتھ ایثار، برداشت اور محبت کا استعارہ تھیں۔ بطور ماں آپؑ نے حسنؑ، حسینؑ اور زینبؑ جیسے کرداروں کی تربیت کی جو اسلام کی بقا کی ضمانت بنے۔اس سے واضح ہوتا ہے کہ عورت گھر کی پہلی درسگاہ ہے اور نسلوں کی تربیت اس کے ہاتھوں میں ہے۔

4. علم و حکمت میں اعلیٰ مقام

حضرت فاطمہؑ کو رسول اللہ (ص) نے اپنے علم کا وارث قرار دیا۔ آپؑ نے صرف عبادت نہیں کی بلکہ فکری اور اجتماعی مسائل میں بھی اپنی رائے پیش کی۔ خطبۂ فدکیہ اس کا روشن ثبوت ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ علم عورت کا بنیادی حق ہے۔

5. معاشرتی کردار اور ایثار

آپؑ نے معاشرے کے محروم طبقات کی مدد، غربت میں صبر، بھوک میں ایثار، اور عبادت میں اخلاص کی وہ مثالیں قائم کیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے قرآن میں محفوظ کیا۔خصوصاً سورہ "هل أتى" میں۔یہ اسلام کے اس اصول کی وضاحت ہے کہ عورت محض گھر کی قید نہیں، بلکہ ایک باشعور، باوقار اور فعال فرد ہے۔

نتیجہ

حضرت فاطمہؑ کی ولادت عورت کی عظمت کا اولین اور سب سے روشن اعلان ہے۔ آپؑ کی پیدائش نے عرب معاشرے کی سوچ کو بدلا، عورت کی تکریم کا معیار بنایا، اور حقوقِ نسواں کی بنیاد فراہم کی۔ اسلام میں خواتین کے مقام کو سمجھنے کے لیے حضرت فاطمہؑ کی زندگی کامل نمونہ ہے۔

ان کی ولادت ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ: بیٹی اللہ کی رحمت ہے۔ عورت خاندان کی طاقت ہے، اس کا احترام ایمان کا حصہ ہے اور اس کی تربیت ہی معاشرے کا مستقبل ہے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha