جمعہ 19 دسمبر 2025 - 10:58
شعبۂ تحقیق جامعہ روحانیت بلتستان کے تحت ”جنگِ نرم کا جامع حل“ کے عنوان پر نقد و تجزیہ کی نشست

حوزہ/شعبۂ تحقیق جامعہ روحانیت بلتستان کی جانب سے ہفتۂ تحقیق کی مناسبت سے ایک نشست ”جنگِ نرم کا جامع حل“ کے عنوان پر منعقد ہوئی؛ جس میں حجت الاسلام صادق جعفری نے اپنا مقالہ پیش کیا، جبکہ حجت الاسلام سجاد شاکری اور حجت الاسلام علی محمد جوادی نے مقالے پر علمی نقد اور تجزیہ پیش کیا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، شعبۂ تحقیق جامعہ روحانیت بلتستان کی جانب سے ہفتۂ تحقیق کی مناسبت سے ایک نشست ”جنگِ نرم کا جامع حل“ کے عنوان پر منعقد ہوئی؛ جس میں حجت الاسلام صادق جعفری نے اپنا مقالہ پیش کیا، جبکہ حجت الاسلام سجاد شاکری اور حجت الاسلام علی محمد جوادی نے مقالے پر علمی نقد اور تجزیہ پیش کیا۔

حجت الاسلام صادق جعفری المعروف صادق الوعد نے اپنا تحقیقی مقالہ پیش کیا۔

بسم الله الرحمٰن الرحیم

الٓرۚ كِتَٰبٌ أَنزَلْنَٰهُ إِلَيْكَ لِتُخْرِجَ ٱلنَّاسَ مِنَ ٱلظُّلُمَٰتِ إِلَى ٱلنُّورِ بِإِذْنِ رَبِّهِمْ إِلَىٰ صِرَٰطِ ٱلْعَزِيزِ ٱلْحَمِيدِ.(سورہ ابراہیم، آیت ۱)

“الف، لام، را۔ یہ ایک کتاب ہے جسے ہم نے آپ کی طرف نازل کیا ہے تاکہ آپ لوگوں کو ان کے رب کے حکم سے اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لے آئیں، اُس راستے کی طرف جو غالب اور ہر تعریف کے لائق ہے۔”

قرآن مجید کی یہ آیتِ مبارکہ آج کے دور کی بہترین عکاسی کرتی ہے۔ آیت میں “اندھیروں” کے لیے جمع کا صیغہ (ٱلظُّلُمَٰتِ) استعمال ہوا ہے، جو ہمارے عہد کے لاتعداد فکری بحرانوں، نفسیاتی شکوک و شبہات، نظریاتی حملوں اور ذہنی انتشار کی طرف اشارہ ہے۔ ان گنت اندھیروں کے مقابلے میں “روشنی” کے لیے واحد کا صیغہ (ٱلنُّورِ) استعمال ہوا ہے، جو اس حقیقت کا اعلان ہے کہ نجات اور حل کا راستہ صرف ایک ہے—یعنی توحید اور قرآن کی خالص ہدایت کا راستہ۔ انبیاء کرامؑ کے بعد اسی “اخراج من الظلمات الی النور” کے الٰہی مشن کو اہلبیتِ اطہارؑ، بالخصوص سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے اپنی سیرت اور اپنے لازوال خطبات سے آگے بڑھایا۔

بحران کی تشخیص: عملی الحاد اور اس کے مراحل

آج ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جسے مفکرین “عصرِ بے حیائی” اور “وجودی خلا (Existential Vacuum)” کا دور کہتے ہیں۔ تاہم، آج کا سب سے بڑا اور مہلک بحران نظریاتی الحاد (Atheism)، یعنی خدا کا زبان سے انکار کرنا نہیں، بلکہ عملی الحاد (Practical Atheism) ہے۔ اس سے مراد خدا کو زبان سے مان کر بھی اپنی عملی زندگی، اپنے فیصلوں، اپنی معیشت، سیاست اور تہذیب سے مکمل طور پر بے دخل کر دینا ہے۔ یہ وہی کیفیت ہے جسے قرآن نے یوں بیان کیا: “نَسُوا اللَّهَ فَأَنْسَاهُمْ أَنْفُسَهُمْ” (انہوں نے اللہ کو بھلا دیا، تو اللہ نے انہیں خود ان کی اپنی ذات سے غافل کر دیا)۔

یہ فراموشی اور غفلت کوئی حادثاتی یا اتفاقی امر نہیں، بلکہ ایک منظم فکری یلغار کا نتیجہ ہے جسے میڈیا، لبرل فلسفے اور جدید تعلیمی نظام کے ذریعے اذہان پر مسلط کیا گیا ہے۔ اس جنگ کا میدان جسم نہیں، بلکہ انسان کا دل، دماغ اور روح ہے۔ اس جنگ کے تین بنیادی مراحل ہیں:

پہلا مرحلہ - رویے پر حملہ: “ذاتی آزادی” کے پرکشش نعرے کی آڑ میں حجاب، حیا اور محرم و نامحرم کی حدود جیسے دینی احکامات کو فرسودہ اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ قرار دیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ دین کو ہی عوام کے لیے “افیون” قرار دے کر ترقی کا دشمن بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔

دوسرا مرحلہ - فکر پر حملہ: جب رویہ بدل جاتا ہے تو اسے جواز بخشنے کے لیے “حقیقت” کا معیار ہی بدل دیا جاتا ہے۔ یہ نظریہ مسلط کیا جاتا ہے کہ اصل علم صرف وہ ہے جو سائنس اور تجربے سے ثابت ہو، جبکہ غیب، روح، وحی اور خدا جیسے ماورائی حقائق محض توہمات ہیں۔

تیسرا مرحلہ - شناخت کا خاتمہ: جب انسان الٰہی حدود اور روحانی حقائق سے انکار کر دیتا ہے تو وہ ایک بے سمت وجودی خلا میں کھڑا ہو جاتا ہے۔ اس خلا کو پُر کرنے کے لیے وہ لذت، دولت اور شہرت کی ایک ایسی لامتناہی دوڑ میں شامل ہوتا ہے جس کی کوئی منزل نہیں۔

جنگِ نرم کا جامع حل

سوال یہ ہے کہ کیا اس ہمہ گیر نظریاتی حملے کا کوئی جامع اور قابلِ عمل حل موجود ہے؟ ہمارا مدعا یہ ہے کہ اس کا واحد، مکمل اور ابدی حل فاطمی نظامِ مقاومت میں پوشیدہ ہے، جو محض چند تاریخی واقعات کا مجموعہ نہیں، بلکہ ہر دور کے لیے ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ اس نظام کے بنیادی ستون درج ذیل ہیں:

پہلا ستون: تبیینِ حق (بیانیے کی جنگ)

جنگِ نرم کا پہلا اور سب سے مہلک وار ہمیشہ بیانیے (Narrative) پر ہوتا ہے۔ اس جنگ میں حقائق کو مسخ کر کے، مفاهیم کو بدل کر، اور جھوٹ کو سچ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ لہٰذا، فاطمی نظامِ مقاومت کا پہلا اور بنیادی اصول “تبیینِ حق” ہے—یعنی حقائق کو ان کی اصل نظریاتی بنیادوں کے ساتھ واضح کرنا۔ اس کا سب سے عظیم عملی مظہر خطبۂ فدک ہے، جو بیانیے کی جنگ لڑنے کا ایک لازوال شاہکار ہے۔ اس محاذ پر حضرت فاطمہ زہراؑ نے چار کلیدی حکمتِ عملیاں استعمال کیں:

میدانِ جنگ کی تبدیلی: آپؑ نے دشمن کے بنائے ہوئے میدان میں لڑنے سے انکار کر دیا۔ مخالفین نے فدک کو ایک ذاتی اور وراثتی جھگڑا بنا کر پیش کیا، لیکن آپؑ نے اپنے خطبے کا آغاز توحید کے فلسفے، رسالت کے مقصد اور قرآن کی حاکمیت سے کیا۔ یوں آپؑ نے ثابت کیا کہ یہ مسئلہ میری ذاتی جاگیر کا نہیں، بلکہ اللہ کے قانون کی بقا اور اسلامی نظام کے مستقبل کا ہے۔ اس اقدام نے جھگڑے کو مادی سطح سے اٹھا کر بلند ترین نظریاتی سطح پر پہنچا دیا، جہاں مخالفین فکری طور پر نہتے تھے۔

قرآن بطورِ حتمی معیار: فکری جنگ میں فاتح وہ ہوتا ہے جو “سچ کا معیار” طے کرے۔ جب مخالفین نے ایک حدیث کو اپنے عمل کی بنیاد بنایا تو آپؑ نے اس حدیث کو جانچنے کے لیے امت کے سب سے بڑے ناقابلِ تردید علمی معیار—قرآن کریم—کو سامنے رکھا اور حضرت سلیمانؑ و حضرت زکریاؑ کے ورثاء سے متعلق قرآنی آیات پیش کیں۔ اس عمل سے آپؑ نے رہتی دنیا تک کے لیے یہ اصول قائم کر دیا کہ کسی بھی قول یا فیصلے کی حیثیت قرآن کے مقابلے میں ثانوی ہے۔

نقلی حقیقت سے پردہ اٹھانا: جدید فلسفے کی زبان میں، اس وقت قائم ہونے والی خلافت دراصل “امامتِ الٰہیہ” کی ایک “شبیہ” (Simulacrum) تھی—ایک ایسی سیاسی نقل جس میں اسلامی اصطلاحات تو تھیں، مگر اصل روح (نصِ رسولؐ) موجود نہیں تھی۔ خطبۂ فدک اس نقلی حقیقت سے پردہ اٹھانے کا عمل تھا۔ آپؑ نے ظاهری اسلامی نعروں کے پیچھے چھپی سیاسی مصلحت کو بے نقاب کر دیا اور بتایا کہ جسے اسلامی حکومت سمجھا جا رہا ہے، وہ اصل کی جگہ ایک متبادل ہے۔

ضمیر کو بیدار کرنا: آپؑ نے انصار کو ان کا شاندار ماضی (“اے اسلام کے بازوؤ! اے دین کے محافظو!”) یاد دلا کر پکارا اور پھر ان کی خاموشی کی اصل وجہ—آرام طلبی اور دنیاوی مصلحت—کو بے نقاب کر دیا۔ آپؑ کا خود دربار میں جانا اس بات کا عملی اعلان تھا کہ جب حقائق مسخ کیے جا رہے ہوں تو خاموشی جرم ہے اور سب سے بڑا جہاد حقائق کو واضح کرنا (تبیین) ہے۔

دوسرا ستون: فاطمی زہد (مادیت پرستی کا مقابلہ)

جنگِ نرم ہمیں لامتناہی خواہشات اور صارفیت (Consumerism) کا غلام بناتی ہے۔ اس کا علاج فاطمی زہد ہے۔ سورۂ دہر کا واقعہ اس کی عملی تفسیر ہے، جہاں اہلبیتؑ اپنی شدید ضرورت کے باوجود اپنا کھانا صرف اللہ کی رضا (لِوَجْهِ اللَّهِ) کے لیے دے دیتے ہیں۔ یہ عمل نفع اور ذاتی مفاد پر قائم پورے سرمایہ دارانہ نظام کے فلسفے کو جڑ سے اکھاڑ دیتا ہے اور سکھاتا ہے کہ حقیقی سکون “لینے” میں نہیں، بلکہ اللہ کے لیے “دینے” میں ہے۔

تیسرا ستون: سماجی ذمہ داری (انفرادیت پسندی کا رد)

جنگِ نرم دین کو ایک ذاتی معاملہ قرار دے کر معاشرے سے کاٹ دیتی ہے۔ حضرت فاطمہؑ کی زندگی اس کا عملی رد ہے۔ آپؑ کا رات بھر عبادت کے بعد اپنے لیے دعا سے قبل پڑوسیوں کے لیے دعا کرنا اور یہ فرمانا کہ “اَلْجَارُ ثُمَّ الدَّارُ” (پہلے پڑوسی، پھر گھر)، انفرادیت پرستی (Individualism) پر مبنی مغربی سوچ کو چیلنج کرتا ہے اور ثابت کرتا ہے کہ ایک مومن کی نجات پورے معاشرے کی فلاح سے جڑی ہے۔

نتیجہ:

جب منطق اور دلیل کے تمام راستے بند کر دیے گئے، تو سیدۂ کونینؑ نے مقاومت کے دو ایسے لازوال حربے استعمال کیے جو آج بھی ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں:

گریۂ ہدفمند (مقصد پر مبنی گریہ): آپؑ کا گریہ ذاتی غم کا اظہار نہیں، بلکہ ایک سیاسی اور سماجی احتجاج تھا—ایک ایسا زندہ بیانیہ جسے کوئی طاقت قید نہیں کر سکتی تھی اور جو روزانہ مدینہ کے عوام کے سوئے ہوئے ضمیر پر دستک دیتا تھا۔

مخفی قبر کی وصیت: یہ محض ایک وصیت نہیں، بلکہ تاریخ کا سب سے بلیغ اور خاموش خطبہ ہے۔ یہ وقت کی ظالم حکومت کو جائز تسلیم نہ کرنے کا ابدی اعلان ہے۔ آج چودہ صدیاں گزرنے کے بعد بھی یہ سوال بن کر زندہ ہے کہ دخترِ رسولؐ کی قبر کہاں ہے اور کیوں مخفی ہے؟

اس سوال کے جواب میں تاریخ کا سر تو شرم سے جھک گیا ہے، مگر جن لوگوں کو جوابدہ ہونا تھا، وہ آج بھی اپنے اعمال کے سبب بے نقاب ہو رہے ہیں۔

فتح ہمیشہ حق، بصیرت اور استقامت کی ہی ہوتی ہے۔

آخر میں مقالے کے ناقدین حجت الاسلام شیخ سجاد شاکری اور حجت الاسلام علی محمد جوادی نے مقالے کا کافی گہرائی اور دقت سے تنقیدی جائزہ پیش کرتے ہوئے اس کی خوبیوں کی نشاندہی کی نیز مقالے میں مزید نکھار پیدا کرنے کے لیے قیمتی تجاویز اور رہنمائی فراہم کی۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha