اتوار 14 دسمبر 2025 - 13:03
دفاع نہیں جارحیت؛ رہبر معظم کا تہذیبی بقاء کے لیے جدید فارمولا

حوزہ/ تقریباً پندرہ سال قبل، مغربی نظریہ دان جیفری سی الیگزینڈر (Jeffrey C. Alexander) نے ایران کو ایک ایسے اژدہے سے تشبیہ دی جس کا سر تہران میں، کمر شام و عراق میں اور بازو لبنان و یمن میں پھیلے ہوئے ہیں۔ یہ خاکہ بظاہر ایک عسکری نقشہ تھا، لیکن درحقیقت یہ تہذیبوں کے بارے میں مغرب کی سطحی اور مادی سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ مغرب دنیا کو صرف جغرافیائی سرحدوں اور فوجی طاقت کے پیمانوں سے دیکھتا ہے، جبکہ وہ اس روح کو سمجھنے سے قاصر ہے جو قوموں کو زندہ رکھتی ہے۔

تحریر : مولانا صادق الوعد

حوزہ نیوز ایجنسی|

تقریباً پندرہ سال قبل، مغربی نظریہ دان جیفری سی الیگزینڈر (Jeffrey C. Alexander) نے ایران کو ایک ایسے اژدہے سے تشبیہ دی جس کا سر تہران میں، کمر شام و عراق میں اور بازو لبنان و یمن میں پھیلے ہوئے ہیں۔ یہ خاکہ بظاہر ایک عسکری نقشہ تھا، لیکن درحقیقت یہ تہذیبوں کے بارے میں مغرب کی سطحی اور مادی سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ مغرب دنیا کو صرف جغرافیائی سرحدوں اور فوجی طاقت کے پیمانوں سے دیکھتا ہے، جبکہ وہ اس روح کو سمجھنے سے قاصر ہے جو قوموں کو زندہ رکھتی ہے۔

اسی فکری مغالطے کا شکار سیموئل ہنٹنگٹن (Samuel P. Huntington) بھی تھا، جس نے پیشین گوئی کی تھی کہ مستقبل کی جنگیں ملکوں کے درمیان نہیں، بلکہ تہذیبوں کے مابین ہوں گی۔ اس نے اسلام اور دیگر تہذیبوں کو مغربی تہذیب کے سامنے زوال پذیر قرار دیا تھا۔ لیکن ایران نے، بالخصوص امام سید علی خامنہ ای کی حکیمانہ قیادت میں، یہ ثابت کر دیا کہ تہذیبیں ہتھیاروں کے زور پر نہیں، بلکہ حکمت، خودی اور استقامت سے زندہ رہتی ہیں۔

مغربی سیاسی فکر کی بنیاد عموماً دو بڑے ستونوں پر قائم رہی ہے، تصادم ، اور قوت کے توازن کا نظریہ۔ ہنری کسنجر (Henry Kissinger) جیسے حقیقت پسند انسان ہمیشہ طاقت کا توازن قائم رکھنے پر زور دیتے تھے۔ لیکن ایران نے امام خامنہ ای کے مزاحمت اور داخلی قوت پر انحصار کے نظریے کے تحت ثابت کیا کہ حقیقی توازن وہ نہیں جو غیر کی طاقت سے ڈر کر قائم کیا جائے، بلکہ حقیقی توازن تب قائم ہوتا ہے جب ایک قوم اپنی داخلی، روحانی اور علمی طاقت سے بیرونی طاقت کے خوف کو شکست دے دیتی ہے۔ امام خامنہ ای نے مغرب کے ساتھ طاقت کے توازن کو تسلیم کرنے کے بجائے، طاقت کا ایک نیا مرکز قائم کرنے پر زور دیا جو مغرب سے بے نیاز ہو۔

برطانوی مؤرخ آرنلڈ ٹوائنبی (Arnold Toynbee) کا ماننا تھا کہ تہذیبیں اس وقت مر جاتی ہیں جب وہ اپنے دور کے چیلنجز کا تخلیقی جواب دینے میں ناکام ہو جاتی ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ پچھلی چار دہائیوں سے ایران کو تاریخ کے سخت ترین چیلنجز کا سامنا رہا: معاشی پابندیاں، فوجی دھمکیاں، سائنس دانوں کی شہادت ،نفسیاتی جنگ اور سب سے بڑھ کر مغربی ثقافتی یلغار۔ مگر یہاں امام خامنہ ای کا فولادی ارادہ اور فکری گہرائی سیسہ پلائی دیوار بن گئی ، کیونکہ انہوں نے ان چیلنجز کو خطرہ سمجھنے کے بجائے مواقع میں تبدیل کر دیا۔

شاید اس پوری جنگ کا سب سے بڑا اعتراف دشمن کے ایک بڑے دماغ، یووال نوح ہراری (Yuval Noah Harare) کی زبان سے اقرار کی صورت میں سامنے آیا، جس نے بے بسی سے کہا: وہ 85 سالہ ایرانی شخص (امام خامنہ ای) کبھی شکست تسلیم نہیں کرے گا۔ یہ جملہ محض ایک فوجی تجزیہ نہیں، بلکہ ایک تہذیب کی روح کے سامنے نظریاتی شکست کا اعتراف ہے۔ ہراری بخوبی سمجھ گیا تھا کہ اس کا مقابلہ کسی فوج سے نہیں، بلکہ ایک ایسی اجتماعی خرد و دانش سے ہے جو ہزاروں سال کی تاریخ، فلسفے اور روحانیت کا نچوڑ ہے اور جو اس 85 سالہ مردِ مجاہد کے وجود میں مجسم ہو چکی ہے۔

امام خامنہ ای کی قیادت کا سب سے نمایاں پہلو یہ ہے کہ انہوں نے دشمن کی حکمت عملی کو اس کی گہرائی میں جا کر سمجھا اور اس کا توڑ پیش کیا۔ ان کا حالیہ خطاب (۲۰ آذر ۱۴۰۴) اس جنگ کی نوعیت کو مزید واضح کرتا ہے۔

(الف) دشمن کا اصل ہدف

رہبرِ معظم نے واضح کیا کہ دشمن کا دباؤ صرف زمینی توسیع، قدرتی وسائل پر قبضے یا طرزِ زندگی بدلنے تک محدود نہیں، بلکہ اہم ترین ہدف، ملت کی شناخت کو تبدیل کرنا ہے۔ انہوں نے فرمایا: سو سال سے مغربی طاقتوں کی کوشش ہے کہ وہ ایران کی شناخت کو بدل دیں۔ اس قوم کی دینی، تاریخی اور ثقافتی شناخت کو تبدیل کر دیں۔ رضا خان نے اس کے لیے پہلا قدم اٹھایا، لیکن کامیاب نہ ہوا۔ اس کے بعد آنے والوں نے زیادہ چالاکی سے کام کیا، مگر وہ بھی ناکام رہے۔ پھر اسلامی انقلاب آیا اور اس نے ان تمام سازشوں کو دھو کر باہر پھینک دیا۔

یہ بیان اس حقیقت کو عیاں کرتا ہے کہ امام خامنہ ای کی نگاہ میں اصل جنگ شناختی اور نظریاتی ہے۔ وہ اس جنگ کو ایک سو سالہ تاریخی تسلسل میں دیکھتے ہیں، جس میں اسلامی انقلاب ایک فیصلہ کن موڑ تھا، اور ولایتِ فقیہ کا نظام اس شناخت کا مستحکم اور فولادی قلعہ ہے۔

(ب) دفاع پر اکتفاء نہ کرو

امام خامنہ ای کا یہ فرمان کہ دفاع پر اکتفا نہ کرو، بلکہ دشمن کے کمزور مقامات پر حملہ کرو تہذیبی جنگ کے میدان میں ایک انقلابی تبدیلی کا اعلان ہے۔ اس حکمت عملی کے کئی بنیادی ستون ہیں:

(1 ) نفسیاتی برتری کا حصول

ایک قوم جو ہمیشہ دفاعی حالت میں رہتی ہے، وہ لاشعوری طور پر دشمن کے فریم ورک اور اس کے بیانیے کو تسلیم کر لیتی ہے۔ وہ ہر وقت خود کو بے گناہ ثابت کرنے کی کوشش میں رہتی ہے، جس سے اس کی توانائی ضائع ہوتی ہے اور اس کے نوجوانوں میں مرعوبیت اور احساسِ کمتری پیدا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، جب آپ جارحانہ حکمتِ عملی اپناتے ہیں تو آپ: اب آپ صفائی نہیں دیتے، بلکہ سوال پوچھتے ہیں۔ جس سے نہ صرف دشمن کو دفاع پر مجبور کرتے ہیں بلکہ دشمن کو اپنی دو غلی پالیسیوں پر جواب دینا پڑتا ہے۔

اس کے ساتھ آپ اپنی قوم کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ ہمارا نظریہ اتنا مضبوط ہے کہ ہمیں کسی سے مرعوب ہونے کی ضرورت نہیں، بلکہ دنیا کو ہمارے نظریات کی ضرورت ہے۔یہ واضح سی بات ہے کہ نظریاتی جنگ میں صرف شبہات کا جواب دینا ایسا ہی ہے جیسے کسی قلعے کا محاصرہ کر لیا گیا ہو اور آپ صرف دیواروں کی مرمت کر رہے ہوں۔ جلد یا بدیر قلعہ کمزور پڑ جائے گا اور اسے شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس کے بر خلاف حقیقی فتح تب ہوتی ہے جب آپ قلعے سے باہر نکل کر دشمن کی حیاتی شریانوں کو کاٹ دیں جس سے دشمن کو طاقت ملتی ہے ۔ امام خامنہ ای کی حکمت عملی یہی ہے کہ مغرب کے انسانی حقوق، جمہوریت ، اور آزادی جیسے نعروں کی قلعی کھولی جائے اور دنیا کو دکھایا جائے کہ یہ نعرے کس طرح استعماری مقاصد کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔اس سے مغرب کا اخلاقی قد، جو اس کی سب سے بڑی طاقت ہے، ختم ہو جائے گا اور وہ نظریاتی طور پر تنہا رہ جائے گا۔

(2) دشمن کی حقیقی کمزوری؟

رہبرِ معظم نے اپنے آخری خطاب میں اشا ره فرمایا کہ دشمن کے کمزور مقامات بہت زیادہ ہیں۔ ان میں سے چند اہم ترین یہ ہیں:

مادیت پرستی نے ایک ایسا معاشرہ پیدا کیا ہے جو بظاہر خوشحال لیکن اندر سے بے چین، ڈپریشن کا شکار اور بامقصد زندگی سے خالی ہے، جس کی وجہ سے خاندانی نظام منہدم ہوچکا ہے ، طلاق کی بلند شرح، تنہائی، اور نسلوں کے درمیان بڑھتا ہوا فاصلہ مغربی معاشرے کا سب سے بڑا بحران ہے۔ اسی طرح ایک طرف انسانی حقوق کا درس دینا اور دوسری طرف غزہ اور لبنان ، یمن میں ہونے والی نسل کشی کی حمایت کرنا یا دنیا بھر میں ظالم حکومتوں کو اسلحہ فراہم کرنا۔ یہ منافقت مغرب کا سب سے کمزور اور قابل حملہ نکتہ ہے۔

(3) منبروں کو قوت کے مراکز بنانا

یہ حکمت عملی صرف منفی یا تخریبی نہیں ہے۔ اس کا دوسرا اور زیادہ اہم حصہ مثبت تعمیر ہے۔ منبر کو قرآنی مفاہیم سے بھر دو کا مطلب ہے: دنیا کو یہ نہ بتایا جائے کہ اسلام کیا ہے اور کیا نہیں یعنی تعریف وتوصیف و تقسیم میں وقت ضائع کرنے کے بجائے، یہ بتایا جائے کہ اسلام آج کے انسان کے لیے کیا پیش کرتا ہے۔ مثال کے طور پر، تنہائی کے بحران کا حل کیا دیتا ہے ، اسلامی معاشرت، طرز زندگی اور پڑوسیوں کے حقوق کیا ہیں اور دیگر ہزاروں مسائل۔ ۔ جب نوجوان نسل قرآنی تعلیمات کے گہرے اور منطقی مفاہیم سے لیس ہوگی، تو وہ نہ صرف مغربی اور الحادی شبہات کا مقابلہ کر سکے گی، بلکہ فخر کے ساتھ اپنے نظریے کو دنیا کے سامنے پیش کرے گی۔

مغرب اپنی تمام تر مادی اور فوجی طاقت کے باوجود یہ بھول گیا تھا کہ ایران صرف ایک ملک نہیں، بلکہ ایک اسلام ناب محمدی کی تہذیب و تمدن کی زندہ روح ہے۔ یہ وہ روح ہے جو طوفانوں میں بکھیرتی ہے نہ مرتی ہے ، بلکہ ہر لہر کے ساتھ مزید نکھر کر سامنے آتی ہے۔ جب تک اس کی باگ ڈور ایسے حکیم اور فولادی عزم والے قائد کے ہاتھ میں ہے، یہ تہذیب کبھی نہیں جھکے گی، کیونکہ اس کا ہاتھ ماشے پر ہے، لیکن جنگ کے لیے نہیں، بلکہ آزادی کے لیے، جارحیت کے لیے نہیں، بلکہ اپنی تہذیب وتمدن اور تاریخ کے دفاع کے لیے، کیونکہ تاریخ ہمیشہ یہ سکھاتی ہے کہ فتح بالآخر حق اور حکیمانہ مزاحمت کرنے والوں کی ہی ہوتی ہے۔

آلا إن نصر الله قریب...

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha