تحریر: مولانا صادق الوعد سکردو بلتستان
حوزہ نیوز ایجنسی| حسینیت محض ایک نظریہ نہیں، بلکہ مسلسل حرکت اور عمل کا نام ہے؛ جیسا کہ امام خمینی (رح) نے فرمایا: "یہ محرم و صفر ہی ہیں جس نے اسلام کو زندہ رکھا ہوا ہے۔" یہ جملہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ حسینیت استکبار اور ظلم کے خلاف جہد مسلسل کا ایک عملی مکتب ہے۔ حسینی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ انسان باطل کے سامنے خاموش نہ رہے، عدل کے قیام کے لیے کوشش کرے، چاہے اس کی قیمت اپنی جان ہی کیوں نہ ہو، یہی وجہ ہے کہ تاریخ میں بہت سی حریت پسند اور عدل پرور حتیٰ غیر مسلم تحریکوں نے بھی عاشوراء سے الہام حاصل کیا ہے اور اسے کامیابی کا رول ماڈل بنایا۔
امام حسین (ع) کے لیے عزاداری ایک مقدس اور انتہائی اہم روایت ضرور ہے، لیکن یہی ہدف اور مقصد نہیں ۔ عزاداری کو ایک ایسے پل کی مانند بنانا چاہیے جو ہمیں واقعۂ کربلا کے جذباتی اور احساساتی پہلو سے اس کے معرفتی، عقلی، اخلاقی اور عملی پہلو تک پہنچائے۔ اگر عزاداری صرف آنسوؤں اور آہوں تک محدود رہے اور امام کے اہداف کی معرفت، ان کی سیرت پر عمل، اور اپنے زمانے کے ظلم و فساد کے خلاف جدوجہد کا باعث نہ بنے، تو یہ اپنے بنیادی مقصد کا ایک حصہ کھو دیتی ہے۔ کربلا اور عاشوراء ایک پیغام ہے، ایک لائحہ عمل ہے، اور عزاداری اس پیغام اور لائحہ عمل کو پہنچانے اور زندہ رکھنے کا ایک ذریعہ ہے۔
عزاداری کو محض ایک تاریخی واقعہ تصور کرنے اور پیغام کربلا کی منتقلی کا ذریعہ سمجھنے میں فرق ہے۔
امام حسین (ع) کی عزاداری کو دو مختلف پہلوؤں میں تقسیم کرسکتے ہیں، جن میں سے ایک سطحی اور دوسرا عمیق اور گہرا ہے۔
1. عزاداری محض ایک تاریخی حادثہ
اگر عزاداری کو صرف ایک تاریخی واقعے کے طور پر دیکھے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ صرف گریہ، غم کا اظہار، اور اہل بیت (ع) کی مصیبتوں پر ہمدردی پر مرکوز ہوگی جس کی وجہ سے اس قیام کے اسباب اور فلسفہ پر کوئی توجہ ہی نہیں ہوگی ۔ اس قسم کی عزاداری کا عزادار کے انفرادی یا سماجی زندگی پر گہرا اثر پڑتا ہے نہ ہی اسے حسینی آرمانوں کے مطابق اصلاح یا عمل کی طرف راغب کرتی ہے۔ بلکہ اس قسم کی عزاداری کربلا کی معرفتی اور عقلی پہلو کو نظر انداز کرنے کا سبب بن جاتی ہے، جس کی وجہ سے عزاداری جیسی مقدس عبادت بھی خرافات، تحریفات اور غیر منطقی اعمال کے داخل ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے جو دین کی جڑوں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
عزاداری کو اس نظر سے دیکھنے کا ایک اور نتیجہ یہ نکل آتا ہے کہ ہماری پوری توجہ ماضی پر مرکوز ہوگی ، اسے حال و مستقبل سے الگ تصور کیا جانے لگے گا، جبکہ ہر دن عاشورا اور ہر سر زمین کربلا ہے جس کا مطلب ہے ہر زمانے اور ہر جگہ حق و باطل کی کشمکش کا تسلسل رہتا ہے۔یہ معرکہ ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا۔ اس صورت میں، عزاداری صرف بے روح مذہبی تقریب بن جاتی ہے جو ہر سال دہرائی جاتی ہے۔
2. عزاداری "پیغام کربلا کی منتقلی کا وسیلہ"یہ عزاداری کا وہی اہم پہلو ہے جو اسے محض ایک تاریخی حادثے سے ممتاز کرتا ہے:
حقیقی عزادار وه ہے جس کی سوچ گہری اور بصیرت کے اعلیٰ درجے پر فائز ہو ۔ اس لیے ایسے عزادار حسینی منبروں اور مجالس کو نہ صرف مصیبت بیان کرنے پر اکتفاء کرتے ہیں ، بلکہ تحریک کا فلسفہ، امام حسین (ع) کے اصل اہداف اور عاشورا کے مقاصد (جیسے عدل طلبی، آزادی، عزت نفس، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر) کو بھی بیان کرنے کے خواہاں ہوتے ہیں ۔جن مجالس میں ایسے مواد بیان نہیں کئے جاتے خود مطالبہ گر کرنے ہوتے ہیں تاکہ روح اور فطرت کی پیاس کو سیراب کرسکیں، کیونکہ ایسی عزاداری انسان میں ظلم و فساد کے خلاف جدو جہد کی روح کو زندہ کرنے کا سبب بنتی ہے ۔ ایک عزادار کو یہ سمجھنا چاہیے کہ حسین (ع) اپنے زمانے کے یزید سے لڑنے کے لیے کھڑے ہوئے اور یہ جدوجہد ہر عصر اور زمانے میں جاری ہے۔ اس لئے یہ نقطۂ نظر عزاداری کو موجودہ دور کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک عملی مکتب میں بدل دیتا ہے۔
یقیناً اس قسم کی مجالس لوگوں کے اکٹھے ہونے، سماجی روابط کو مضبوط کرنے اور مشترکہ احساس پیدا کرنے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔ جس کے نتیجے میں یہ اجتماعات معاشرتی مسائل کو اٹھانے، اجتماعی روح کو مضبوط کرنے، اور اصلاحی تحریکوں کے لیے ایک پلیٹ فارم بن سکتے ہیں۔
ایسا عزادار ہمیشہ اس بات کی طرف ضرور متوجہ رہتا ہے کہ عاشورا کا پیغام نہ صرف سیاسی اور سماجی ہیں بلکہ اخلاقی بھی ہے۔ اس لئے امام حسین (ع) کے باوفا اصحاب کی وفاداری، صبر، شجاعت، ایثار، جوانمردی، اور قربانی کو عزاداری کے ذریعے آنے والی نسلوں تک پہنچانا اور افراد کی روزمرہ زندگی میں اس کو حقیقت میں تبدیل کرنا اہم اہداف میں سے ہے۔
ہر نسل کو کربلا کے پیغام کو دو بارہ تخلیق کرنے اور انہیں اپنے زمانے کی ضروریات اور چیلنجز کے مطابق ڈھالنے کا موقع فراہم کرنا اہم مقاصد میں سے ہے جس سے عاشورا ہمیشہ زندہ اور متحرک رہتا ہے۔
کربلا و عاشوراء کے فلسفے کو ہرگز فراموش نہیں کرنا چاہیے
کربلا اور عاشورا اصل و بنیاد ہیں، جبکہ عزاداری فرع اور شاخ ہے۔ اگر کربلا کا واقعہ اور امام حسین علیہ السلام کا قیام رونما نہ ہوتا تو سرے سے کوئی عزاداری ہوتی ہی نہیں۔ اس عظیم تحریک کی اصالت اور عظمت ہی عزاداری کی رسومات کو معنی اور مفہوم بخشتی ہے۔ یہ واقعہ تاریخ اسلام میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے جس نے اس کی سمت بدل دی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کربلا اور عاشورا خود عزاداری سے زیادہ اہم ہے۔ البتہ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ عزاداری کو نظر انداز کیا جائے یا اسے کم اہمیت دی جائے، بلکہ یہ کربلا اور عاشورا کے واقعے کے بنیادی فلسفے اور اہداف پر زور دیتا ہے، اور عزاداری اس فلسفے کو محفوظ رکھنے اور منتقل کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ اگر عزاداری اس فلسفے سے خالی ہو جائے تو یہ محض ایک عادت یا حتیٰ کہ ایک انحراف میں تبدیل ہو سکتی ہے۔
قیامِ عاشوراء کے اسباب کو سمجھنے کے لیے ہمیں اس کے زمانی و مکانی حالات اور امام حسین علیہ السلام کے اہداف پر غور کرنا ہوگا ، گرچہ اس تحریک کے بہت سارے علل و اسباب بیان ہوئے ہیں، لیکن اہم ترین یہ ہیں:
1. حقیقی اسلام سے انحراف:
پیغمبر اکرم (ص)کی رحلت کے بعد، اسلامی معاشرے میں بتدریج انحرافات رونما ہوئے۔ یہ انحرافات خاص طور پر بنو امیہ کے دور حکومت میں عروج پر پہنچ گئے، اور یزید بن معاویہ بحیثیت ایک فاسد اور نااہل حکمران کے کھلم کھلا اسلامی احکام کی پامالی کرتا تھا اور اخلاقی و انسانی اقدار کی کوئی پرواہ نہیں کرتا تھا۔ امام حسین علیہ السلام نے خود فرمایا کہ ان کا مقصد "اپنے نانا کی امت کی اصلاح" اور "امر بالمعروف و نہی عن المنکر" تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی معاشرہ اپنے اصلی راستے سے ہٹ چکا تھا اور اسے ایک سنجیدہ اصلاحی تحریک کی اشد ضرورت تھی۔
بنو امیہ کی حکومت نے فساد، ظلم، اور ناانصافی کو فروغ دے کر معاشرے کی اسلامی شناخت کو خطرے میں ڈال دیا تھا۔ امام حسین علیہ السلام نے اپنے قیام کے ذریعے عدل و انصاف، آزادی، انسانی کرامت، ایثار، اور خالص توحید جیسی فراموش شده اقدار کو زندہ کرنے کا ارادہ کیا۔ آپ نے ذلت آمیز زندگی کو ان اقدار کی قربانی کی قیمت پر قبول نہیں کیا۔ "ہیهَاتَ مِنَّا الذِّلَّۃ" (ذلت ہم سے دور ہے) کا نعرہ اس عزت طلب روح کی بہترین عکاسی کرتا ہے۔
2. اتمام حجت اور معاشرے کو بیدار کرنا
امام حسین علیہ السلام کے اہم اہداف میں سے ایک یزید اور بنو امیہ کی حکومت کے ناپاک چہرے کو بے نقاب کرنا اور لوگوں کو غفلت سے بیدار کرنا تھا۔ بنو امیہ کی وسیع پیمانے پر پھیلائی گئی غلط پروپیگنڈے اور حقائق کو مسخ کرنے کی وجہ سے بہت سے لوگ جہالت اور بے خبری میں زندگی بسر کر رہے تھے۔ قیام عاشورا ایک عظیم طوفان کی طرح عمل میں آیا اور حکمرانوں کے نفاق اور ظلم کا پردہ چاک کر دیا۔ اس تحریک نے سوئے ہوئے ضمیروں کو بیدار کیا اور آئندہ کے انقلابات کے لیے راہ ہموار کی۔
امام حسین علیہ السلام بحیثیتِ امام معصوم اور انبیاء الٰہی کے وارث ہونے کے ناطے، خود کو دین کی احیاء اور معاشرے کی ہدایت کا ذمہ دار سمجھتے تھے۔ آپ ظلم و فساد کے سامنے خاموش نہیں رہ سکتے تھے، کیونکہ آپ(ع) سکوت کو ظلم کی قبولیت اور رضا مندی سمجھتے تھے۔









آپ کا تبصرہ