تحریر: محمد حسین حافظی
حوزہ نیوز ایجنسی کے مطابق، محرم الحرام کی آمد پر محمد حسین حافظی نے " عزاداری اور ہماری ذمہ داریاں" کے عنوان پر ایک تحریر پیش کی ہے۔ جسے حوزہ نیوز کے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے:
تمہید
عزاداری امام حسینؑ دنیا میں بسنے والے تمام مسلمان بلکہ تمام بشریت کی ہدایت کے لئے بہترین ذریعہ ہے اور خدا کی طرف سے ملنے والا ایک عظیم تحفہ ہے، لہذا ہمیں اس کی قدر کرنی چاہئے۔ اس کے ذریعے انسانوں کی مختلف قسم کی دنیاوی اور اخروی مشکلات حل ہوتی ہیں ۔ اخروی لحاظ سے عزاداری اور مجالس اباعبداللہ الحسینؑ کا ثواب اتنا زیادہ ہےکہ کسی اور عمل سے قابل مقایسہ نہیں ہے اور ظاہری دنیا میں بھی اگر کوئی شخص صحیح معنوں میں امام حسینؑ سے متوسل ہو جائے تو اس کی تمام شرعی حوائج پوری ہو جاتی ہیں جس کی گواہی دنیا میں بسنے والے سینکڑوں مکاتب فکر کے ماننے والے حتی غیر مسلم بھی دیتے ہیں۔ان ایام میں بہت سے لوگوں کی اقتصادی اور مالی مشکلات بھی ان مجلسوں کی برکت سے حل ہوجاتی ہیں۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہےکہ مجلس اور عزاداری کے ذریعے لاکھوں بے روزگاروں کو روزگاری میسر ہوتی ہے اور سینکڑوں ضرورت مند لوگ اسی کے توسط سے اپنی پیاس اور بھوک مٹاتے ہیں۔ ماہ محرم الحرام میں خرچ ہونے والی رقم کا اندازہ کوئی نہیں لگا سکتا۔ عزاداری کے حوالے سے دوسرا اہم نکتہ کہ جس کی طرف توجہ کرنا ہم سب کے لئے ضروری ہے وہ یہ ہے کہ مورخین کے مطابق سنہ ۶۱ ہجری میں یہ تلخ واقعہ سر زمین کربلا پر رونما ہوا اور اتنا عرصہ گزرجانے کے باوجود ہر سال پوری دنیا میں لوگ عزاداری کو بڑی شان و شوکت سے مناتےآرہے ہیں اور امام حسینؑ کی یاد ، کربلا میں رونما ہونے والے واقعات، شہیدوں اور اسیروں کا تذکرہ، ان پر ہونے والے مظالم اور مصائب ہر سال عشرہ محرم الحرام میں خطباء دہراتے ہیں اس کے باوجود یہ واقعہ ہمیں پرانا نہیں لگتا ہے ۔ کبھی ہمیں اکیلے میں بیٹھ کر غور کرنا چاہئے کہ آخر ایسا کیوں ہے۔
جب ہم اس موضوع پر تحقیق کرنے والے محققین، قلم نگاروں اور کتابیں لکھنے والے مؤلفین اور مفکرین کے تجزیاتی تحلیلوں کا مطالعہ کرتے ہیں اور قرآن حکیم لا ریب کتاب کی طرف مراجعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید کی متعدد آیتوں میں خدا نے اپنے بندوں سےمختلف قسم کے وعدے و وعید کئے ہیں جیسے سورہ بقرہ میں اللہ تعالی کا وعدہ ہے: فَاذْكُرُونی أَذْكُرْكُمْ(بقرہ: ۱۵۲)؛ تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا۔حسین ابن علی ؑنے کربلا کی تپتی ہوئی ریت پر خدا کو اس طرح یاد کیا: الہی رضا بقضائک و تسلیما لامرک لا معبود لی سواک یا غیاث المستغیثین؛ تو خدا نے بھی اپنے وعدے پر عمل کرتے ہوئے حسین ابن علیؑ کا نام تمام بشریت کے لئے اکسیر بنا دیا اور اس جہاں میں رہتی دنیا تک تمام بنی نوع انسان کے لئے آپ کا روضہ مبارک دعاؤں کی شرف قبولیت اور حاجت مندوں کی حاجت روائی کا ذریعہ بنا دیا، خواہ انسان جس مسلک اور فرقے سے تعلق رکھتا ہو کربلا میں اس کی مشکل حل ہوجاتی ہے۔ اسی وجہ سے آج کل اتنی مہنگائی کے باوجود لوگ یہ آرزو اور تمنا کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ اے کاش ہمیں بھی کربلا کی زیارت نصیب ہوجائے۔
عزاداری اور ہماری ذمہ داریاں
مجالس اور عزاداری سید الشہداؑ کے تین اہم اراکین کو ہم اختصار کے ساتھ یہاں بیان کریں گے:
۱۔ بانیان مجلس
۲۔ خطباء یا مقررین
۳۔ سامعین یا مخاطبین
ان میں سے ہر ایک کی اپنی کچھ خاص ذمہ داریاں اور وظائف ہوتے ہیں جن کی طرف توجہ کرنا تمام مومنین اور ذمہ دار اشخاص کے لئے ضروری ہے۔
بانیان مجلس کی ذمہ داریاں
بانیان مجلس کے لئے ضروری ہے کہ خطیب کا انتخاب کرنے میں دقت کریں۔انہیں چاہئےکہ ایسے خطباء کا انتخاب کریں جو علم و دانش اور معارف اسلامی سے مکمل طور پر آشنائی رکھتے ہوں تاکہ وہ سننے والے سینکڑوں مومنین و مومنات کو معارف اسلامی اور علوم آل محمد سے سیراب کرا سکیں اور اسلامی تعلیمات، زندگی گزارنے کے اسلامی طور و طریقے اور دینی احکام لوگوں تک پہنچانے میں کامیاب ہوں ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ برصغیر میں بانیاں ایسے خطیبوں کو لانے کی کوشش کرتے ہیں جو واہ واہ کرانے میں شہرت رکھتے ہوں، نکتہ مار کر حسینیؑ ممبر سےزیادہ سے زیادہ اچھلنے کی مہارت رکھتے ہوں اورپیسوں کی زیادہ سے زیادہ ڈیمانڈ کرنے والے ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ ذاکرین جو اپنے آپ کو بہت بڑا خطیب سمجھتے ہیں اور عجیب و غریب القابات سے اپنے آپ کو نوازتے ہیں جیسے وکیل آل محمد و ۔۔۔ جب کہ حقیقت میں انہیں قرآنی آیات اور عربی عبارات صحیح طریقے سے پڑھنا بھی نہیں آتی، بس کچھ آیات جو سالوں سال رٹنے کی وجہ سے حفظ کی ہوئی ہوتی ہیں انہی آیتوں سے استفادہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، نہ وہ قرآن کی تفسیر سے واقف ہیں اور نہ دینی علوم سے نہ ہی عربی احادیث کی فہم رکھتے ہیں ۔ صرف وہ اپنی زبان چلا کر لوگوں سے خوب داد وصول کرکے چلے جاتے ہیں ایسے لوگوں کی ڈیمانڈ بھی دوسروں کی نسبت زیادہ ہوتی ہے ،جب کہ مکمل طور پر وہ جاہل ہوتے ہیں اور جہالت کی وجہ سے کچھ ذاکرین حسینی ممبر سے نادانستہ طور پر لوگوں کو شرک کی طرف دے رہے ہوتے ہیں اور کچھ ذاکرین دانستہ طور پر غلو کا شکار ہوجاتے ہیں اور جان بوجھ کر اپنی بے بنیاد اور شرک آمیز عقیدوں کا تذکرہ ممبر سے کرتے ہیں اسی طرح کچھ ذاکرین لوگوں سے داد وصول کرنے کی غرض سے مسلمانوں کے مقدسات کی توہین کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے جب کہ ہمارے مجتہدین عظام کا فتوی موجود ہے کہ مسلمانوں کے مقدسات کی توہین کرنا حرام ہے۔ دوسری طرف دینی درسگاہ میں سالوں سال علوم آل محمد کو حاصل کرنے میں پوری زندگی صرف کرنے والے حقیقی علمائے کرام جو قرآن کی تفسیر، تجزیہ و تحلیل دینی احکامات اور معارف سے مکمل طور پر آشنائی رکھنےوالے بھی موجود ہوتے ہیں اس کے باوجود بانیان مجلس انہیں صرف اس لئےدعوت نہیں دیتے کیونکہ انہیں نکتہ مارنا نہیں آتا واو واہ کرانے کی عادت نہیں ہوتی۔جب کہ آج کے اس پر آشوب دور میں ہماری نسلوں کو تباہ و بربادہونے سےصرف وہ خطباء بچاسکتے ہیں جو خود مکمل طور پر علم سے مالا مال ہوں اور آج کے مسائل کو جاننے والے ہوں ساتھ ہی اسلامی تعلیمات سے ان مشکلات کا حل نکالنے کے ماہر ہوں گرچہ نکتہ مار کر سامعین سے داد وصول کرنے کے گر سے واقف نہ ہوں۔ اس میں اصل قصور وار بانیاں ہیں انہیں چاہئے خطیب انتخاب کرنے میں دقت کریں ایسے خطیبوں کو موقع دیں جو لوگوں کو دین کی طرف لانے اوران میں شعور پیدا کرنے کے گر سے واقف ہوں۔ اگر بانیاں مجلس، خطیب کو انتخاب کرنے میں دقت نہ کریں اور اس بے دقتی کے نتیجے میں سینکڑوں لوگوں کا جو قیمتی وقت ضائع ہوگا اس کا ذمہ دار یہی بانیان مجلس ہوں گے اور قیامت کے دن ان سے ضرور باز پرس ہوگی۔
خطباء اور مقررین کی ذمہ داریاں
محترم خطیب کو ممبرحسینی پر جانے سے پہلے اپنی ذمہ داریوں کا سمجھنا بہت ضروری ہے اور ہر خطیب کا ممبراستعمال کرنےسے پہلے اس کے آداب سے واقف ہونا بھی ضروری ہے اور یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ ممبر حسینی سے خدا کے احکامات ، رسول گرامی اسلام اور اہلبیت اطہار ؑ کی پاک و پاکیزہ سیرت کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ سید الشہدا حضرت ابا عبد اللہ الحسینؑ کے مقدس قیام کے مقصد کو بیان کیا جاتا ہے ۔ اسی طرح ہر خطیب کو چاہئے ممبر حسینی پر جانے سے پہلے اپنے گریبان میں جھانک کر اپنے آپ سے پوچھے کہ کیا میں ممبر حسینی کا حق ادا کر پاؤں گا یا نہیں ،لہذا ممبر حسینی پر جانے سے پہلے اپنے آپ کو اسلامی معارف سے مکمل لیس کرنا نہایت ضروری ہے۔ اسی طرح عقائد اسلامی سے مکمل طور پر واقفیت حاصل کرنا، دور جدید میں الحاد کی طرف سے پیدا ہونے والے ہر قسم کے شبہات کا جواب دینا اور کربلا کے سارے واقعات کی تحقیق مستند کتابوں اور ذرائع سے حاصل کرنا ضروری ہے۔ جس کے لئے محرم آنے سے پہلے مختلف مفکرین اور مقتل کی کتابوں کو گہری نظر اور عمیق فکر کے ساتھ مطالعہ کرنا ضروری ہے تاکہ مجلس میں آنے والے لوگوں کے شبہات کے جواب دے سکیں اور معاشرے میں پیدا ہونے والے نت نئے مسائل، برائیاں اور اسلامی تعلیمات پر پیدا ہونے والے اشکالات و شبہات کے جواب میں اسلامی نقطہ نظر بیان کرسکیں۔
اسی طرح خطباء کی اہم ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری یہ بھی ہے کہ معاشرے میں موجود مسائل اور مشکلات کے حل کے لئے امام حسینؑ نے اپنے خطبوں میں جو کچھ بیان کیا ہے ان سے لوگوں کو آگاہ کریں۔ آج ہماری نسلیں تباہی و بربادی کی طرف جارہی ہیں۔ عصر حاضر میں مغرب کے دلداہ آلہ کار افراد ہماری تعلیمی درسگاہوں میں مغربی افکار کو عام کرنے میں کوشاں ہیں ۔ وہ پوری منصوبہ بندی کے تحت غیر محسوس طریقے سے اپنے مسموم افکار کو بچوں کی نصابی کتب کا حصہ بنا کر پیش کرنے میں اپنی پوری توانائیاں صرف کررہے ہیں ۔جس کا واضح نتیجہ یہ نظر آتا ہے کہ ان درسگاہوں میں زیر تعلیم بچوں کا ذہن ان غلیظ خیالات سے متاثر ہورہا ہے یہی وجہ ہے کہ آج ان بچوں کے سامنے دینی اقدارٹھوس مجہولات کی دیوار بن کرنمایاں ہورہی ہیں ۔توجہ رہے کہ صراط مستقیم سے گمراہی یہ ہے کہ انسان اپنے انتخاب کو دین کے معیار پر ترجیح دے، حیوانی غرائز کی تکمیل میں حد و حدود کا لحاظ نہ رکھے، دین و شریعت اور خدا و ایمان کا صریح انکار کر دے یا بظاہر دین داری کا لبادہ اوڑھ کر اپنی بے راہ روی کی توجیہات تراشے اور خدا و قیامت کے بارے میں شبہات ایجاد کرے۔یہ وہ یلغار ہے جس کا ہر نسل شکار ہے ۔اسی طرح دینی پلورلزم کے عنوان سے بچوں کے افکار میں طرح طرح کے شبہات پیدا کرتے ہیں اور اسی طرح سائنس اور دین میں جدائی کا بے ہودہ نعرہ لگا کر ہمارے بچوں کو دین سے دور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ان تمام بے بنیاد شبہات کا جواب دے کرہماری نسلوں کو دور حاضر کی الحادی سوچ کی بعض من گھڑت دلیلوں سے پردہ کشائی کرتے ہوئے حقیقت نمائی کرنا خطباء اورذاکرین کی ذمہ داری ہے۔ خطیب کی ذمہ داریوں میں سے ایک اور اہم ذمہ داری مخاطب شناسی ہے، ہر خطیب کو اپنے سامعین کی شناخت ہونی چاہئے۔ ہر خطیب محترم کو یہ علم ہونا چاہئے کہ میرے سامنے کونسے لوگ بیٹھے ہیں اور زندگی کے کس شعبے سے ان کاتعلق ہے تاکہ اپنا موضوع اسی حساب سے منتخب کرسکے۔
سامعین کی ذمہ داریاں
ایک اہم نکتے کی طرف توجہ کرنا بہت ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ عام طور پر ہمارے اذہان میں عزاداری کا نام سنتے ہی گریہ و زاری، اشک اور کربلا میں اہلبیتؑ کے پاک گھرانوں پر ڈھائے ہوئے مظالم آتے ہیں اور اگر کسی کے پاس زیادہ معرفت ہو تو سمجھتے ہیں آخرت کے دن ثواب کا مستحق بھی ٹھرائیں گے جب کہ بقول استاد شہید مطہری عاشورا کی تاریخ کے دو رخ ہیں ایک سیاہ اور دوسرا سفید ۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ نام نہاد مسلمانوں نے اہلبیت ؑ کے اس پاک گھرانے کو بہت اذیت دی اور سرزمین کربلا میں وہ سارے مصائب ڈھائے گئے جن کی تفصیلات مقتل لکھنے والے مورخین نے تاریخ میں ضبط کی ہیں، لیکن اس بات کی طرف بھی توجہ کرنی چاہئے کہ امام حسینؑ اور آپ کے انصار و اصحاب کے مقدس و مطہر لہو نے اسلام کی کیسے آبیاری کی اور امت مسلمہ پر کیسا احسان کیا ، لہذا سامعین اور ہر عزادار سید الشہداء ؑ پر کچھ اہم ذمہ داریاں لاگو ہوتی ہیں۔
سب سے پہلے سامعین کو چاہئے کہ امام حسینؑ اور کربلا کی معرفت حاصل کرنے کی کوشش کریں خصوصی طور پر اپنی نسلوں کو حسینی کردار اور یزیدی کردار سے واقف کرانا ان کے لئےضروری ہے۔ ایام عزاء آتے ہی اپنے گھروں کو کالے کپڑوں سے مختلف علم اور ایسے کپڑوں سے جن پر امام کے قیام کا مقصد درج ہو اویزان کریں تاکہ بچوں کے ذہن میں نقش ہوجائے۔ اسی طرح اپنی بیٹیوں اور بیویوں کو زینبی کردار سے آشنا کرانا ضروری ہے۔ ایام عزاء میں اپنے گھر والوں کوکربلا، امام حسینؑ اور اصحاب یا یاران امام حسینؑ ، امام سجادؑ اور حضرت زینبؑ کی سیرت طیبہ کے مطالعہ کا خاص اہتمام کرنا ضروری ہے۔ خاص طور پر اپنے بچوں کو عزاداری منانے کے مقاصد سے آگاہ کرنا ضروری ہے۔ عام طور پر یہی ہوتا ہے کہ باپ عام دنوں کی طرح ڈیوٹی پر ہوتا ہے اور ایام عزاء میں بھی یہی نظام ہوتا ہے اور بچوں پر کم توجہ دی جاتی ہے جب کہ ایام عزاء اور کربلا ایک دینی مدرسہ ہے ایک پورا مکتب ہے اس مکتب حسینی سے درس لینا ضروری ہے ۔ اس مکتب سے عبرت کا، شعور کا، بصیرت کا، انسانیت کا اور دشمن شناسی کا بہترین سبق ملتا ہے ۔ عاشورا مکمل طور پر ایک تربیت گاہ ہے ۔ یہ تربیت گاہ بتاتی ہے کہ نماز کی کیا اہمیت ہے، حق اور باطل کا معیار کیا ہے، امر بالمعرف اور نہی عن المنکر کی معاشرے میں کیا اہمیت ہے، منکرات اور فساد سے کیسے مقابلہ کرنا ہے، امام وقت کے ساتھ وفاداری کی حد کیا ہے اور اسلام کی راہ میں مال اور جان کی قربانی کیسے کرنی ہے و۔۔۔، لہذا اپنے بچوں کے ساتھ مجلسوں میں شرکت کریں اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کو مجلس کے آداب سکھانا بھی ماں باپ کی ذمہ داری ہے۔
سید الشہدا حضرت ابا عبد اللہ الحسینؑ کی مجلس کے آداب
اسلامی تعلیمات میں مجلس امام حسینؑ کے مختلف آداب بیان ہوچکے ہیں ۔ ان میں سے کچھ اہم آداب یہ ہیں:
۱۔ مجلس ابا عبد اللہ الحسینؑ کے لیے جانے والے ہر عزادار کو چاہئےمجلس شروع ہونے سے پہلے وضو کا خاص اہتمام کیا کرے ، پاک و پاکیزہ لباس زیب تن ہو تاکہ ثواب میں اضافہ ہوجائے۔
۲۔ ہمیں چاہئے ان ایام میں حتی الامکان مغموم رہنے کی کوشش کریں ، ہماری مجلسوں پر رنج و الم اور سوگواری کی فضا طاری ہو تاکہ مجلس کے اجتماعات اور رسومات دیکھنے والا بھی غم و اندوہ کی فضا سے متاثر ہو۔ اسی طرح غم و اندوہ کی فضا کے ذریعے اسلام کی خاطر اٹھائی جانے والی اہل بیت ؑ کی مصیبت اجاگر ہو اور دوسری طرف اس فضا میں بیان کیا جانے والا پیغام سننے والوں کے دل کی گہرائی میں اترے۔ ہر عزادار امام حسینؑ کو یہ جاننا چاہئے کہ یہ ایام معمولی ایام نہیں ہیں اور ان ایام میں جو غم و اندوہ ائمہ ؑ پر پڑے تھے وہ قیامت تک جاری و ساری رہنے والے غم تھے جیسے امام رضاؑ فرماتے ہیں : إِنَّ يوْمَ الْحُسَينِ أَقْرَحَ جُفُونَنَا وَ أَسْبَلَ دُمُوعَنَا(ابن شہر آشوب، ج۴، ص ۸۶) ؛یوم الحسین نے ہمارے سینوں کو زخمی اور ہمارے آنسوؤں کو جاری کیا ہے۔وَأَذَلَّ عَزِيزَنَا بِأَرْضِ کَرْبٍ وَ بَلَاءٍ وَ أَوْرَثَتْنَا الْکَرْبَ وَ الْبَلَاءَ إِلَى يوْمِ الاِنقِض(ایضا) امام ہشتم حقیقت میں یہ فرما رہے ہیں کہ ہم قیامت تک عزادار ہیں اورہم قیامت تک اپنے جد بزرگوار امام حسین ؑ کے لئے آنسو بہاتے رہیں گے۔ ان ایام میں ہمیں چاہئے کہ ایسا تصور کریں کہ ہمارا اپنا کوئی عزیز دنیا سے چلا گیا ہے اور ہم اس کے غم میں سوگوار بیٹھے ہیں۔
۳۔ امام حسینؑ کی مجلس کے آداب میں سے ایک یہ ہے کہ ہم ان مجلسوں کو صرف ایک رسمی طور و طریقے میں محدود نہ کریں، بلکہ جتنا ممکن ہو ان مجالس سے وعظ و نصیحت اور درس عبرت حاصل کرنے کی بھر پور کوشش کریں، کیونکہ ان مجالس میں انسان کے لئے درس ہی درس موجود ہے۔ یہی مجالس ہیں جن سے بہت سارے انسان اپنا تذکیہ کرکے اعلی منازل طے کر چکے ہیں۔ یہ مجالس مسلمانوں کے متحد ہونے کا بہترین مرکز ہیں، چونکہ حسینؑ اور کربلا صرف شیعوں کے ساتھ مخصوص نہیں اور نہ ہی مسلمانوں کے ساتھ مختص ہے ،بلکہ امام حسینؑ ساری بشریت کے امام ہیں اور آپ کا یہ عظیم کارنامہ پوری انسانیت کو غلامی کی زنجیروں سے آزاد کرنے کی مسلسل جدوجہد کا نام ہے۔ آپؑ نے راہ ضلالت اور گمراہی میں بھٹکی ہوئی انسانیت کو راہ حق کی جانب ہدایت کرنے کی خاطر اپنے خون کا آخری قطرہ بھی نچھاور کرنے سے گریز نہیں کیا۔
۴۔آداب مجلس میں سے ایک یہ ہے کہ ہر عزادار جو امام حسینؑ کی مجلس میں شرکت کرنا چاہتا ہے مجلس میں جانے سے پہلے اس کے اہداف و مقاصدکو مد نظر رکھے ۔ مجلس کے آداب میں سے ایک اہم یہ ہےکہ مجلس میں خدا سے امام حسینؑ کی مظلومیت کا واسطہ دے کر تمام مومنین ومومنات کے حوائج شرعیہ کی حاجت روائی اور اپنی عاقبت بخیری کی دعا کرے، کیونکہ عاقبت بخیری وہ چیز ہے جس کو حاصل کرنے کے لئے تمام اولیائے الہی اور خدا کے صالح اور نیک بندوں نے اپنی پوری زندگی صرف کر دی ہے اور عاقبت بخیری کی دعا کرتے کرتے اس دنیا سے چلے گئے ہیں۔
۵۔ مجلس کے آداب میں سے ایک یہ ہے کہ ان ایام میں انسان اپنی ان تمام سرگرمیوں کو کم کرے جو مسرت اور خوشی کا باعث بنتی ہیں۔ بہتر ہے شادی بیاہ جیسے امور کو محرم میں انجام نہ دیں البتہ یہ حرام نہیں ہے۔
۶۔ مجلس سید الشہداء ؑ کے آداب میں سے ایک، کالےکپڑوں کو زیب تن کرنا ہے۔ جس سے انسان کو امام حسینؑ کی مظلومیت یاد آجائے۔ یہی وجہ ہے کہ عام دنوں میں کالے کپڑوں میں نماز پڑھنا مکروہ ہے اور سفید کپڑوں کے ساتھ نماز پڑھنے کی تاکید ہوئی ہے، لیکن مجالس ابا عبد اللہ الحسینؑ میں اس لباس کو کراہت سے مستثنی قرار دیا گیا ہے، کیونکہ یہ لباس حزن و اندوہ اور غم و الم کی نشانی اور عظیم شعائر میں سے ہے۔ اسی وجہ سے علماء فرماتے ہیں کہ ان ایام میں انسان کالے کپڑوں کے ساتھ بھی نماز پڑھے تو کوئی اشکال نہیں ہے اور اس کی کراہت بھی ختم ہوجاتی ہے ۔
۷۔ عزادار کو ہمیشہ یہ کوشش کرنی چاہئے کہ ان مجالس سے زیادہ سے زیادہ اخروی فوائد حاصل کرے اور یہ اس وقت ممکن ہے جب عزادار ،ابا عبد اللہ الحسینؑ کی حقیقی مجالس کو پالے۔ جس طرح شب قدر، عید مبعث، عید غدیر اور اسی طرح سال کے کچھ مخصوص ایام کوغنیمت سمجھ کر ان سےزیادہ سے زیادہ استفادہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جس کی تاکید ہمارے ائمہ معصومینؑ بھی کرتے ہیں،بالکل اسی طرح ایام عشرہ ماہ محرم الحرام سے بھی استفادہ کرنا چاہئے۔ عزادار یہ سوچے کہ یہ ایام بار بار آنے والے نہیں ہیں، لہذا جتنا ممکن ہو ان سے استفادہ کرنے کی تلاش اور کوشش کرے۔ اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو امام حسینؑ کے با وفا اصحاب کرام کی جگہ تصورکریں اور امام کی اطاعت میں پیش پیش رہنے کی کوشش کریں۔ جیسے امام ؑکے با وفا اصحاب کی اطاعت اور فرمانبرداری کے بارے میں کتابوں میں نقل ہوا ہے کہ جب امام حسینؑ نے رات کو چراغ بجھا کر فرمایا: جاؤ میں اپنی بیعت تم سے اٹھا رہا ہوں تم سب آزاد ہو، رات کی تاریکی سے فائدہ اٹھاؤ اور اپنے گھروں کو لوٹ جاؤ، تو ان باوفا اصحاب نے یک زبان ہوکر فرمایا کہ اگر ہمیں ستر مرتبہ مارا جائے اور زندہ کیا جائے تب بھی ہم اپنی جان آپ پر فدا کرنے سے گریز نہیں کریں گے ۔
۸۔مجلس امام حسینؑ کے آداب میں سے ایک یہ ہے کہ ہم ان مجلسوں میں شرعی مسائل کا خاص خیال رکھیں۔ جب ہم کربلا کی تاریخ اٹھا کر دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ امام حسینؑ جب کربلاپہنچے تو سب سے پہلے فقہی مسئلے کو مدنظر رکھتے ہوئے کربلا کی زمین کو خریدلیا، کیونکہ امام حسین ؑنہیں چاہتے تھے کہ غصبی زمین پر شہید ہوں اور امام حسینؑ چاہتے تھے کہ ان کا مقدس خون غصبی زمین پر نہ گرے۔ آپؑ کی پاک سیرت سے درس لیتے ہوئے ہمیں بھی عزاداری میں شرعی مسائل کاخاص خیال رکھنا چاہیے۔ خصوصاً خواتین کو پردے کا خیال رکھنا چاہیے اور تمام عزاداروں کو عزاداری کی مجالس میں جھوٹ ، تہمت ، بد اخلاقی اور دیگر غیر اخلاقی کاموں سے دوری اور اجتناب کرنا چاہیے۔
۹۔ امام حسینؑ کی مجلس کا ایک ادب یہ ہے کہ عزادارانِ امام حسینؑ جب بھی ایک دوسرے سے ملاقات کریں تو ایک دوسرے کو تعزیت پیش کریں۔ مصیبت کے وقت تعزیت پیش کرنا اسلام میں مستحب ہے۔ پیغمبر اکرم ﷺفرماتے ہیں:ہر شخص مصیبت میں مبتلا انسان کو تعزیت پیش کرے تو اس کا اجر و ثواب اس مصیبت میں مبتلاانسان کے برابر ہو گا۔ اسی طرح پانچویں آفتاب امامت و ولایت حضرت امام محمد باقرؑ سے بھی روایت نقل ہوئی ہے کہ جب شیعہ ایک دوسرے سے ملاقات کریں تو ابا عبد اللہ الحسینؑ کی مصیبت میں یوں تسلیت عرض کریں:اعظم اللہ اجورنا بمصابنا الحسین و جعلنا و ایاکم من الطالبین بثارہ مع ولیہ الامام المہدی من آل محمد علیہم السلام۔( طوسی ، مصباح المتہجد، ج ۳، ص ۷۷۲)
اللھم صلی علی محمد و آل محمد