۲۶ شهریور ۱۴۰۳ |۱۲ ربیع‌الاول ۱۴۴۶ | Sep 16, 2024
ماه محرم

حوزہ/اسلامی کیلنڈر کے پہلے ماہ یعنی ماہِ خون و قیام محرم الحرام کی آمد کے ساتھ پوری دنیا میں لوگ امام بارگاہوں، مساجد اور دیگر مقامات میں قافلۂ حسینی کی عزاداری منعقد کرتے ہیں۔ ماہ محرم و صفر میں لوگ کسی نہ کسی طرح امام حسین اور اہل بیت سے اپنے عشق و محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ ہرکوئی اپنے طور پر اس راہ میں کوئی نہ کوئی قدم اٹھاتا ہے۔اس دوران عزاداری امام حسین علیہ السلام کے انعقاد کے سلسلے میں مختلف موضوعات زیر بحث آتے ہیں جن میں سے ایک اہل بیت کی تاریخ وسیرت کی شناخت ہے۔

تحریر: حجۃ الاسلام عباس جعفری فراہانی

حوزہ نیوز ایجنسی | اسلامی کیلنڈر کے پہلے ماہ یعنی ماہِ خون و قیام محرم الحرام کی آمد کے ساتھ پوری دنیا میں لوگ امام بارگاہوں، مساجد اور دیگر مقامات میں قافلۂ حسینی کی عزاداری منعقد کرتے ہیں۔ ماہ محرم و صفر میں لوگ کسی نہ کسی طرح امام حسین اور اہل بیت سے اپنے عشق و محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ ہرکوئی اپنے طور پر اس راہ میں کوئی نہ کوئی قدم اٹھاتا ہے۔اس دوران عزاداری امام حسین علیہ السلام کے انعقاد کے سلسلے میں مختلف موضوعات زیر بحث آتے ہیں جن میں سے ایک اہل بیت کی تاریخ وسیرت کی شناخت ہے۔

خطباء، اہل منبر اور ذاکرین اہل بیت کو اس طرف خصوصی توجہ دینے کی سخت ضرورت ہے، اسی طرح عالمِ اسلام اور عصر حاضر کے مسائل نیز عاشورا کے سبق آموز زاویے، حسینی تعلیمات اور شعائر حسینی کی حفاظت ماہ محرم و صفر کے اہم ابحاث میں شامل ہیں جن پر سب کی توجہ ہونی چاہیے۔

صدر اسلام سے آج تک کے محققین، محدثین، مورخین اور مفسرین کی یہ کوشش رہی ہے کہ ائمہ معصومین کی تاریخ وسیرت سے لوگوں کو آگاہ کریں۔ ائمہ اہل بیت کی تاریخ کے بارے میں جو بنیادی منابع ہمارے پاس موجود ہیں وہ غیبت کبری کے آغاز اور شیخ مفید کے زمانے میں مدون ہوئی ہیں۔

خطباء اور مبلغین صرف معتبر مآخذ سے استفادہ کریں

شیخ مفید چوتھی صدی ہجری کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک ہیں جو بغداد میں ساکن تھے۔ وہ اپنی تصنیفات اور کتب کی بہت کثیر تعداد چھوڑ گئے ہیں جن میں سے ایک بہترین تاریخی کتاب"الارشاد"ہے جو اہل بیت کی تاریخ کا ایک جامع وکامل ذخیرہ ہے۔اسی طرح دیگر علما مثلاً مرحوم شیخ کلینی اور مرحوم شیخ صدوق وغیرہ نے قرآنی علوم،امامت اور تاریخ وسیرت سے مربوط ابحاث کو اپنی کتب اصول کافی،عیون اخبار الرضا اور التوحید وغیرہ میں جمع کیا ہے۔

علمائے اہل سنت نے بھی اہل بیت کی تاریخ سپردِ قلم کرنے میں کافی کوشش کی ہے۔ بطورِ مثال اہلِ سنت کے عظیم مورخ طبری نے "تاریخ طبری "میں اہل بیت سے مربوط بہت سے مباحث کو جمع کیا ہے۔اسی طرح ابن جوزی(متوفی:454ھ) نے "تذکرۃ الخواص"میں ،ابو الفرج اصفہانی(356ھ) نے" مقاتل الطالبین" میں اور ابن سعد(متوفی 230ھ) نے " الطبقات الکبری "میں اہل بیت اطہار سے مربوط مباحث کو نقل کیا ہے ۔یہ اہل سنت کی بعض نمایاں شخصیات ہیں ۔

عصر حاضر میں بھی علما اور دانشوروں نے اہل بیت اور عاشورا کے بارے گرانقدر آثار تالیف کیے ہیں۔چنانچہ شیخ عباس قمی نے "منتہی الآمال"اور "نفس المہموم" اور دوسری کتابیں لکھی ہیں۔ اربابِ قلم،خطباء، مبلغین اور مقررین پر لازم ہے کہ تاریخ حسینی ، سیرت امام حسین علیہ السلام اور کربلا سے مربوط مسائل میں ان معتبر مآخذ و منابع کی جانب توجہ دیں اور اپنے بیانات میں ضعیف روایات اور کتب سے استفادہ نہ کریں۔ بطورِ نمونہ کتاب" تاریخ و مقتل جامع سید الشہداء" کانام لیا جاسکتا ہے جو استادِ محقق مہدی پیشوائی کے زیر نظر محققین کی ایک جماعت نے مرتب کی ہے اور دو جلدوں میں شائع بھی ہوئی ہے۔(اس کا خلاصہ بھی ایک جلد میں شائع ہوا ہے۔) یہ کتاب بھی خطباء اور ذاکرینِ کرام کے لئے ایک قابل ِاعتماد مأخذ ہے۔

"وقعۃ الطف" مقتل کی ایک نہایت کامل اور معتبر کتاب واقعہ کربلا سے مربوط ایک اور کتاب جو دور حاضر میں مدون ہوئی ہے وہ ابو مخنف ازدی کوفی(157ھ)کی کتاب مقتل الحسین ہے۔ یہ واقعۂ عاشورا سے مربوط صحیح ترین اور کرانقدر کتاب ہے۔ یہ کتاب سالہا سال بغیر کسی تحقیق کے شائع ہوتی رہی،یہاں تک کہ تاریخ ِاسلام وتشیع کے گرانقدر محقق استاد شیخ محمد ہادی یوسفی غروی نے اس کتاب کی تصحیح کی اور اسے "وقعۃ الطف لابی مخنف"کے نام سے ادارہ : انتشارات اسلامی کے زیر اہتما م شائع کیا۔یوں یہ کتاب دینی علوم کے مراکز اور یونیورسٹیوں کے اربابِ علم و دانش کی توجہ کا مرکز بنی۔ مجمع جہانی اہل بیت ایران ولبنان کی طرف سے بھی یہ کتاب چھپ گئی ہے ۔اس کتاب کا بعض زبانوں مثلاً فارسی، انگریزی، اردو، فرانچ، کردی، ترکمانی اور ترکی استنبولی میں ترجمہ ہوا ہے اور یہ تراجم شائع بھی ہوئے ہیں۔

آج یہ کتاب (وقعۃ الطف) ایک کامل اور معتبر ترین تحقیقی کتاب ہے۔ اس کتاب میں جو واقعات اور حقائق نقل ہوئے ہیں وہ خرافات،جھوٹ اور جعلی مطالب سے دور ہے۔ اس بنا پر یہ درخواست کی جاتی ہے کہ خطبا اور مقررین و مبلغین عوام کے ہاں اس گراں قدر کے کتاب مطالب بیان کریں اور غیر معتبر منابع سے نقل نہ کریں۔

حسینی تعلیمات اور شعائر کی حفاظت کی اہمیت

سانحۂ عاشورا اور کربلا کی داستانِ شجاعت و قربانی کی تعظیم و تکریم پر ائمہ اہل بیت، علما اور مراجع نے ہمیشہ زور دیا ہے۔ ان کی نگاہ میں واقعہ کربلا خاص اہمیت کا حامل ہے۔ اس لیے اگر ہم چاہتے ہیں کہ اس واقعے کی عظمت باقی رہے تو لازم ہے کہ محرم و ٖصفر میں حسینی پیغام اور شعائر حسینی کی حفاظت کریں۔

خطابت، مجالس عزا،ذکر مصائب، دستہ عزا، سینہ زنی، گھروں اور عمومی جگہوں کو سیاہ پوش کرنا اور نذورات و تبرکات کا اہتمام شعائر حسینی ہیں۔ سب کو ان کی جانب توجہ دینی چاہیے۔اس بارے میں خطبا، ذاکرین،مرثیہ خواں،نوحہ خواں، ماتمی انجمنوں کے ذمہ داران، امام بارگاہوں کی انتظامیہ اور عوام سب ذمہ دار ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم محرم کی حرمت کا لحاظ نہ کریں اور ثواب کے بجائے گناہ کے مرتکب ہو جائیں۔

امام بارگاہوں اور پبلک مقامات پر احادیث اور معتبر اقوال نصب کئے جائیں

اگر ہم امام حسین اور عاشورا کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں چاہیے کہ ان اشتباہات کے مرتکب نہ ہوں جو آج معاشرے میں نظر آتے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ جن احادیث اور اقوال سے مساجد،امام بارگاہوں اور دیگر عمومی مقامات کو مزین کیا جاتا ہے ان میں ضعیف اقوال نقل نہ کئے جائیں۔ علم اور عزاداری سے مربوط دیگر چیزوں پر جو اقوال نقل کئے جاتے ہیں ان میں معتبر اور صحیح مطالب نقل کئے جائیں تاکہ لوگوں کی توجہ حقائق کی جانب مرکوز ہوسکیں۔

ممکن ہے کہ عزاداری کے مراسم میں سینہ زنی، شیپور اور طبل وغیرہ بعض اوقات لوگوں کے لئے تکلیف کا باعث بن جائیں۔ اس صورت میں ان سے اجتناب برتنا چاہیے۔ اگر ان کی آواز مریضوں اور ہمسایوں کے لئے اذیت و تکلیف کا باعث بنے تو یہ شعائر خدا کے تقرب اور ثواب کی بجائے گناہ کا سبب بنیں گے ۔ اسی طرح قمہ زنی اور زنجیر زنی کے ذریعے خود کو زخمی کرنا اور خون نکالنا شعائر حسینی کی ترویج کا سبب نہیں ہے۔ ایسے افعال سے اجتناب کیجیے اور تبرکات کے سلسلے میں صفائی اور پاکیزگی کی رعایت کیجیے۔

کیا واقعہ کربلا کا تذکرہ اتحادِ امت کے لئے نقصان دہ ہے؟

ایک نکتہ جس کی طرف محرم میں توجہ دینا ضروری ہے اور اسے عمومی سطح پر بھی بیان ہونا چاہیے وہ عالم اسلام کے مسائل ہیں۔ ہر سال دنیا خصوصاً عالم اسلام میں جو واقعات پیش آتے ہیں ان سے مسلمانوں کو لاتعلق نہیں رہنا چاہیے۔بطورِ مثال آج عالم اسلام میں شیعہ وسنی اختلاف کو ہوا دی جارہی ہے۔ اگر ہم تاریخ اور سیرت ائمہ کی جانب توجہ دیں تو ہم دیکھیں گے کہ شیعہ وسنی کے درمیان اتحاد کا مسئلہ آئمہ علیہم السّلام کے زمانے میں بھی موجود تھا ۔ ائمہ ؑ کی اس پر توجہ تھی۔ آج بھی رہبر انقلاب اور دیگر فقہا اس مسئلے اور اتحادِ امت کو زبردست اہمیت دیتے ہیں۔پس خطبا اور ذاکرین کو کوئی ایسا مطلب بیان نہیں کرنا چاہیے جو مسلمانوں کے درمیان اختلاف کا باعث ہو۔

آج دنیا میں میڈیا اور الیکٹرانک روابط کی وجہ معمولی منفی گفتگو بعض اسلامی مذاہب کے پیروکاروں کی جانب سے ردّ عمل کا سبب بنتا ہے جو ممکن ہے کہ اتحادِ امت کے لئے نقصان دہ ثابت ہو۔ ممکن ہے بعض لوگ یہ کہیں کہ مذاہب اسلامی کے درمیان اتحاد کی خاطر واقعۂ عاشورا کو بیان ہی نہیں کرنا چاہیے جبکہ اکثر اہل سنت معاویہ اور یزید کو قبول ہی نہیں کرتے کیونکہ ان دونوں نے شرعی حدود سے تجاوز کیا اور دونوں ایسے اعمال کے مرتکب ہوئے جو پیغمبر اکرم ﷺکی سیرت کے مخالف تھے ۔ امام حسین علیہ السلام نے نہ صرف یہ کہ یزید کی بیعت نہیں کہ بلکہ اس کی فاسد حکومت کے خلاف قیام کیا۔

فلسطین کے حوالے سے عزاداروں کی ذمہ داری

آج عالم اسلام کے لئے فلسطین سب سے اہم مسئلہ ہے۔ اس سرزمین پر استعماری طاقتوں کی پشت پناہی سے صیہونیوں نے ناجائز قبضہ کیا ہوا ہے اور فلسطین کے مظلوم مسلمان صیہونیوں کی طرف سے ظلم وستم کے شکار ہیں۔اس لئے محرم کے ایام میں منبروں سے مسئلہ فلسطین کا تذکرہ ہونا چاہیے ۔ عوام بھی اس سلسلے میں اپنی ذمہ داریاں نبھائیں۔

دنیا کے مسلمانوں کو چاہیے کہ امام حسین علیہ السلام کے اہداف ومقاصد کی پیروی میں ظلم اور ناانصافی کا مقابلہ کریں۔ اگر امام حسین علیہ السلام آزادی بشریت کے علمبردار تھے تو ان کے پیروکاروں کو بھی چاہیے کہ ظلم وستم کے خلاف آواز بلند کریں۔

اسرائیل، فلسطینی عوام پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہا ہے۔ اس لئے عزاداروں کو فلسطین کے سلسلے میں اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا چاہیے۔ کسی بھی آزادی پسند انسان کو اسرائیل کی طرف سے فلسطینی عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم پر خاموش نہیں رہنا چاہیے۔

تکفیر اور مسئلۂ یمن

بد قسمتی سے آج عالم اسلام کو تکفیری دہشت گردوں کا سامنا ہے۔یہ تکفیری اپنے آپ کو اسلام کے نام سے متعارف کراتے ہیں۔ وہ لا الہ الا اللہ، محمد رسول اللہ کے نعرے کے ساتھ بہت سے مظالم کے مرتکب ہورہے ہیں۔ ان تکفیری دہشت گرد وں نے اپنے وحشیانہ افعال کے ذریعے بنی امیہ اور بنی عباس کے ظلم و ستم کو دوبارہ زندہ کیا ہے۔

تکفیری گروہ عالم اسلام میں ایک انحرافی ناسور اور انتہائی خطرناک گروہ ہے۔ خطبا اور اہل قلم کی ذمہ داری ہے کہ محرم میں اس مسئلے کو بیان کریں اور شام،عراق،افغانستان اور دیگر ممالکِ اسلامی میں انجام پانے والے مظالم سے لوگوں کو آگاہ کریں۔ اسی طرح لوگ بھی ان تکفیریوں مثلاً داعش اور دیگر دہشت گردوں کے مقابلے میں اپنا موقف بیان کرنے کے ساتھ ان کے مظالم کی مذمت کریں۔

سعودی عرب نے مظلوم یمنیوں پر تجاوز کیا ہے۔وہ یہاں کے عوام پر ( جن کی اکثریت زیدی ہے)ظلم وستم کر رہے ہیں۔ اب تک ہزاروں یمنی بچے، خواتین یا زخمی ہوئے ہیں یا ان کو شہید ہوئے ہیں ۔ خطباء اور عزاداروں کو اس پر بھی توجہ دینا چاہیے۔

لندنی تشیع کا سب بڑا ہدف اختلاف انگیزی ہے

عالم اسلام کے اہم مسائل میں سے ایک مہدویت کے جھوٹے دعویدار ہیں۔ آج بعض منحرف عناصر مہدویت اور امام زمان کا فرزند ہونے کے جھوٹے دعویدار ہیں ۔ احمد الحسن نامی مفسد یمانی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے ۔ سید سرخی عراق میں مہدویت کا مدعی ہے۔ اہل منبر اور مبلغین ان مسائل کو بیان کریں۔کہیں لوگ ان کی طرف مائل نہ ہوں ۔ لوگوں کو بھی معلوم ہونا چاہیے کہ استعماری طاقتیں ان مفسدین کی پشت پناہی اور حمایت کر رہی ہیں۔

ایک اہم مسئلہ جسے رہبر انقلاب نے بیان کیا ہے وہ لندنی تشیع کا مسئلہ ہے۔بد قسمتی سے بعض افراد خود دینی علوم کے مراکز میں پڑھنے کا دعویٰ کرتے ہیں ایسے گرہوں سے وابستہ ہیں اور ایسے مسائل کو تشیع کی طرف نسبت دیتے ہیں جو مراجع و علماء کے لئے قابل قبول نہیں ہیں۔

لندنی تشیع کا سب سے بڑا ہدف اتحادِ امت کی مخالفت ہے ۔ یہ مسلمانوں کے درمیان اتحاد کے قائل نہیں ۔ ان کی ساری سرگرمیاں اتحا د کو ختم کرنے اور تفرقہ پھیلانے کے لیے ہیں.

آج قمہ زنی تشیع اور معارفِ حسینی کی توہین کا سبب ہے

تشیعِ لندنی کے طرفدار قمہ زنی کی حمایت کرتے ہیں جبکہ مراجع کی جانب سے اس کی تائید نہیں کی جاتی۔ گزشتہ زمانے میں قمہ زنی محدود سطح پر خاص جگہوں پر انجام پاتے تھے۔ آج فقہاء ومراجع اس سے منع کرتے ہیں کیونکہ یہ مذہب حقہ اور حسینی تعلیمات کی توہین کا سبب ہے۔ اس موضوع پر کتابیں بھی لکی گئی ہیں مثلاً کتاب" قمہ زنی آبرو داری یا آبرو ریزی؟" مولف: محمود یزدانی۔ اسی طرح کتاب "قمہ زنی سنت یا بدعت؟" تالیف: مہدی مسائلی۔

خطباء اور مقررین عوام کو ان کا تعارف کرا سکتے ہیں۔

عاشورائی اسباق اور تعلیمات

رہبر انقلاب حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اپنے بیانات میں عاشورا کے دروس اور سبق آموز موضوعات کی جانب توجہ دلائی ہے کہ عاشورائی مجالس میں شرکت کا مقصد کیا ہے اور ہم ہرسال کیوں عزاداری کرتے ہیں؟

کربلا کے اسباق میں سے ایک اہم سبق عزت وسربلندی کا سبق ہے۔ امام حسین کی عظمت کا راز بھی یہی ہے کہ آپ نے ظلم کے سامنے سر نہیں جھکایا۔ اس بنا پر مسلمانوں کو بھی ہمیشہ عزت نفس کا محافظ ہونا چاہیے۔جو مشکلات شیعوں کے لئے پیش آتی ہیں ان میں اگر عزت وذلت میں سے ایک کا انتخاب کرنا پڑے تو با ایمان مسلمانوں کو عزت کا راستہ چننا ہو گا۔ امام حسین علیہ السلام نے یزید کے مقابلے میں قیام کیا اور فرمایا:" مجھے دو راستوں میں سے ایک کے انتخاب پر مجبور کیا گیا ہے۔وہ یہ کہ یا ذلت (بیعتِ یزید) کا راستہ اختیار کروں یا ننگی تلوار(موت ) کا سامنا کروں؟یاد رکھو کہ میں کبھی ذلت قبول نہیں کروں گا۔"

ایک اور درس جو کربلا سے حاصل ہوتا ہے وہ آزادی اور حریت کا سبق ہے۔ امام حسین کے دور میں لوگ آزاد اور آزاد منش نہیں تھے۔ اسی لیے امام نے فرمایا:

" اے اہلِ کوفہ! اگر تمہار کوئی دین نہیں ہے تو کم ازکم دنیا میں آزاد منش بن کر رہو۔"

آج ہمارے لوگوں نے آزادی کا درس امام حسین اور آپ کے اصحابِ با وفا خصوصا حر بن یزید ریاحی سے سیکھا ہے۔

شجاعت اور غیرت عاشورا کا ایک اور درس ہے۔ لوگ شجاعت اور غیرت کو حسین سے سیکھیں اور اس صفت کے سہارے معاشرے میں پیش آنے والے مسائل میں اپنی ذمہ داریوں پر عمل پیرا ہوں۔باغیرت مسلمانوں کو چاہیے کہ دورِ حاضر کے عادل،باغیرت اور شجاع فقہا خصوصاً رہبر مکرم آیت اللہ خامنہ ای کی سیرت کی طرف رجوع کرکے حسینی اقدار کو زندہ رکھیں۔

قرآن پر عمل، عبرت کا حصول اور دینی تعلیمات پر عمل بھی کربلا کے دروس میں شامل ہیں۔

امر بالمعروف، نہی از منکر: قیام حسینی کا ایک اہم ترین ہدف

امام حسین علیہ السلام نے ظلم وستم کا مقابلہ کیا۔ اس کے ساتھ قرآنی تعالیم ،نماز، روزہ،جہاد،امر بالمعروف اور نہی از منکر پر بھی خاص طور سے توجہ دی۔ امر بالمعروف عاشورا کے اہم ترین اہداف میں سے ایک شمار ہوتا ہے۔

امام حسین امر بالمعروف کے عنوان سے کربلا کے میدان میں داخل ہوئے ۔ آپ نے اپنے مخالفین کو ان منکرات سے روکا جن کے وہ مرتکب تھے۔ آپ نے قرآن وسنت کی صحیح تعلیمات پر عمل کرنے کی دعوت دی۔

ادھر ایثار،صبر اور استقامت بھی عاشورائی اقدار و اسباق میں شامل ہیں۔ عاشورا ایک عظیم حادثہ ہے۔ایک اہم دلیل جس کی بنا پر ائمہ اطہار علیہم السلام نے اس سانحے کو زندہ رکھنے کی تلقین کی ہے وہ اس کے نہفتہ دروس اور عبرتیں ہیں۔

انقلابِ اسلامی اور اسلامی نظام بھی عاشورا کے ثمرات میں شامل ہیں

عظیم اسلامی انقلاب امام خمینی کی قیادت میں ایران اور دنیا کے اندر رونما ہوا اور آج رہبر معظم حضرت آیت اللہ خامنہ ای کی بے مثال قیادت میں جاری وساری ہے۔یہ انقلاب بھی عاشورا کے اہم ترین نتائج میں سے ایک ہے۔

امام خمینی نے شاہ کے فاسد اور ظلم وستم پر مبنی حکومت کے خلاف قیام کیا ۔ اس حکومت کو امریکہ اور استکباری طاقتوں کی حمایت حاصل تھی ۔ عوام وعلما سب نے امام کی حمایت کی اور انقلابِ اسلامی خدا کی لایزال قوت پر اعتماد اور ایران کے مسلمانوں کی ہمت، شہامت و شہادت، استقامت اور عاشورائی اہداف کے نتیجے میں کامیابی سے ہم کنار ہوا۔ حقیقت میں انقلابِ اسلامی ایران امام حسین علیہ السلام کے اس عظیم انقلاب کا تسلسل ہے، جو سنہ 61 ہجری میں واقع ہوا۔

ایران کے انقلابی عوام آج بھی میدان عمل میں حاضر ہیں، وہ امام خمینی کے نظریات اور رہبر انقلاب امام خامنہ ای کے قائدانہ فرامین پر کاربند ہیں۔ امید ہے کہ یہ انقلاب امام زمانہ کے عالمی قیام اور ظہور تک جاری وساری رہے گا ۔ان شاء اللہ

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .