حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، یہ کہ کس طرح ایک دہشت گرد گروہ چند دنوں کے اندر شام کے بڑے شہروں پر قبضہ کرکے دمشق کی طرف بڑھ سکتا ہے، ایک حیرت انگیز سوال ہے۔ اس کا جواب صرف وہی لوگ دے سکتے ہیں جو شام کے نظام کے اندرونی ڈھانچے سے واقف ہیں۔
آج کل شام عالمی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے اور سیاسی تبدیلیوں کا محور بن چکا ہے۔ صورتحال اس قدر تیزی سے بدل رہی ہے کہ ماہرین کے لیے اس کا تجزیہ کرنا بھی مشکل ہوگیا ہے۔
چار اہم وجوہات جنہوں نے مخالفین کو اس تیز رفتار کامیابی تک پہنچایا، درج ذیل ہیں:
1. فوج کی کمزوری اور کرپشن
شام کی فوج گزشتہ دہائی میں مسلسل کمزور ہوتی رہی، اس کی تنظیمی ساخت تحلیل ہوچکی ہے۔ فوج کے جوانوں میں عزم کی کمی اور کرپشن میں ملوث ہونے کی وجہ سے یہ ایک چھوٹے سے گروہ کے خلاف بھی مؤثر مزاحمت کرنے سے قاصر ہے۔ غیر رسمی اطلاعات کے مطابق فوج کے کچھ اعلیٰ عہدیداروں نے رشوت کے عوض مخالفین کے ساتھ سازباز کی، جو کہ ایک المناک حقیقت ہے۔
2. عوام کی حکومت اور فوج سے لاتعلقی
شام کے عوام کی طرف سے حکومت اور فوج کی حمایت کا نہ ہونا ایک اور اہم وجہ ہے۔ اس کی بنیاد ملک میں برسوں سے جمع شدہ ساختی اور معاشی مسائل ہیں جن کا کوئی حل نظر نہیں آتا۔ ان حالات میں عوام کے لیے روشن مستقبل کی امید مفقود ہوچکی ہے۔
3. غیر ملکی وعدوں پر اعتماد
شامی حکومت نے کچھ علاقائی طاقتوں کے وعدوں پر بھروسہ کیا، جنہوں نے اسے مزاحمت ترک کرنے کے بدلے مدد کی پیشکش کی۔ ان وعدوں نے شام کو مزاحمتی محور سے دور کرکے اندرونی سازشوں کے لیے راستہ ہموار کیا۔
4. غیر ملکی مداخلت اور دہشت گردوں کی حمایت
مغربی ممالک اور علاقائی طاقتوں کی شام کے وسائل پر نظریں اور دہشت گرد گروہوں جیسے داعش، جبھۃ النصرہ اور تحریر الشام کو مدد فراہم کرنا، ملک میں امن اور اتحاد کی راہ میں بڑی رکاوٹیں بنے۔
ان تمام عوامل نے مل کر شام کے عوام میں وسیع پیمانے پر عدم اطمینان پیدا کیا، جس کی وجہ سے وہ موجودہ نظام کی بھرپور حمایت سے باز رہے۔