۲۱ آذر ۱۴۰۳ |۹ جمادی‌الثانی ۱۴۴۶ | Dec 11, 2024
امام سجاد علیہ السلام

حوزہ/واقعہ کربلا کے پہلے اور واقعات کربلا کے بعد حالات بد سے بدتر اور سنگین ہوتے گئے۔ ان دلخراش اور ناقابل بیان مخالف حالات میں امام زین العابدین علیہ السلام نے کیسے زندگی گزاری، حالات کا مقابلہ کیسے کیا اور معاشرے میں زندگی کو کیسے پیش کی جائے اس کے لیے امام علیؑ ابن الحسینؑ کی 57 سالہ حیات طیبہ کا مطالعہ اور ان پر عمل پیراں ہونا آج کے لئے اشد ضرورت ہے۔

تحریر: ڈاکٹر شجاعت حسین

حوزہ نیوز ایجنسی|

ظلم نے تھک کے ہار مانی ہے

ضبط کا کاروان عابدؑ ہیں

واقعہ کربلا کے پہلے اور واقعات کربلا کے بعد حالات بد سے بدتر اور سنگین ہوتے گئے۔ ان دلخراش اور ناقابل بیان مخالف حالات میں امام زین العابدین علیہ السلام نے کیسے زندگی گزاری، حالات کا مقابلہ کیسے کیا اور معاشرے میں زندگی کو کیسے پیش کی جائے اس کے لیے امام علیؑ ابن الحسینؑ کی 57 سالہ حیات طیبہ کا مطالعہ اور ان پر عمل پیراں ہونا آج کے لئے اشد ضرورت ہے۔

حضرت سید الساجدینؑ کی زندگی 61 ہجری سے لیکر 95 ہجری تک یہ کہہ کر صرف فرش عزا بچھانا، مجلس برپا کرنا اور آنسوؤں کو بہانا اور یہ کہنا کہ وہ بیمار کربلا ہیں، رات بھر عبادت میں رہتے تھے اور انہوں نے ظالم بادشاہوں کے ادوار میں مصائب میں زندگی گزاری۔ ان سب کے باوجود علیؑ ابن الحسینؑ کی عظمت، فضیلت اور کمالات پر ہزاروں کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں۔ ان کتابوں کا مطالعہ اور تحقیق کریں اور اس کو اپنی زندگیوں میں اور واجبات عمل "امر با لمعروف و نہی عن المنکر" کو اپنائیں اور اپنی زندگیوں کو نمونہ عمل بنائیں۔

آج حضرت سید العابدین علیہ السلام کی 1351 ویں یوم شہادت ہے۔ عزاداروں! عزم مصمم کریں کہ آپؑ کے ذاتی کمالات جیسے امین، صابر، سخی، لوگوں پر احسان کرنا، لوگوں کے ساتھ نیکی، فقیروں پر رحم و کرم کرنا، فقیروں کی عزت کرنا، فقیروں پر مہربانی کرنا، سائل کو مخفی طور پر صدقہ و مدد کرنا، آپؑ کی شجاعت، عبادات، زہد، تقوی، آپؑ کی کثرت سے تسبیح کرنا، نماز شب کا واجب قرار دینا، آپؑ کی حکمتیں اور تعلیمات، بلند خصلتیں، اچھی گفتگو اور انداز گفتگو پر زور، آپؑ کے ذریعہ بتائے ہوئے مومنین کو نجات دینے والے مشورے، صحیفہ کاملہ، آپ کے خطبات اور وصیت کا مطالعہ لازمی ہے۔ وہ علم کے بیکراں سمندر ہیں اور آگہی کی آفاقی و ابدی صدائیں فضاؤں میں گونج رہی ہیں۔

مثل جد خود امام اَولیا چوں پدر مشہور در صبر و رضا

درعبادت ایں قدر سر گرم بود انتَ زین العابدین آمدندا

10 محرم الحرام، 61 ہجری (10، اکتوبر 680 عیسوی) کے عصر کا وہ ہنگام جب یک بعد دیگرے بنی ہاشم کے شہزادے و جگر پارے شہادت کا جام نوش فرما رہے تھے، اب امام حسین علیہ السلام کے لشکر میں نہ قاسم، نہ علی اکبر اور نہ ہی عباس رہے، بہن زینب کو نصیحت، وصیت اور رخصت آخر ہو کر، بھائی بہن، زین العابدین جو غش کے عالم میں بستر پر پڑے تھے، آئے اور امامت سپرد کی۔ علی ابن الحسین، زین الصالحین، وارث علم النبیین، وصیت الوصیین، خازن وصایا، متہجد، سجاد، ذوالثفنات، امام الامتہ (مناقب ابن شہرآشوب، جلد ۲، صفحہ ۳۱۰) کو بعد شہادت سیدالشہدا دیں کی بقا اور اسلام کی حفاظت کی خاطر اسیروں، بیواؤں اور یتیموں کے قافلۂ سالار کے منصب کو شکستہ کاندھوں پر کوفہ کے بازاروں میں، بابا کے کٹے سر اقدس آگے آگے نیزے پر تلاوت کر رہا تھا اور پھوپھی، ماں اور بہنیں بے مقنہ و ردا ہمراہ شام، دربار یزید ابن معاویہ لعنت اللہ کی طرف گامزن تھے۔

کربلا سے شام تک سجادؑ کا ہے امتحاں

راہ میں کانٹے پڑے ہیں ساتھ میں ہے کارواں

امام زین العابدین علیہ السلام کی حیات طیبہ کو کئی حصوں میں تقسیم کرنا ہوگا جیسے اپنے وطن، ۲۲ سالہ مدینہ منورہ کی زندگی، دور امامتٍ امام حسنؑ، صلح معاویہ ملعون، شہادت امام حسن اور جنازے پر تیروں کی بارش، 60 ہجری ۲۸ رجب المرجب سے لیکر ۲ محرم الحرام 61 ہجری تک کا حالات سفر اور مختلف مقامات پر قیام، ۲ محرم الحرام سے عاشور تک کی نٍشتر کیفیت و پُر آشوب، زندہ در گور زندگی؛ شب عاشور، روز عاشور، پابندیٔ آب؛ گنج شہیداں میں بے سروں اپنوں کا لاشہ دیکھنا، سجے ہوئے بازار شام جہاں ڈھول، طبل، نقارہ، رقاصہ تھیں، آپؑ پر پتھر، آگ اور گرم پانی پھیکے جارہے تھے، دربار یزید لعنت اللہ کی طرف چھوٹے چھوٹے روتے، بلکتے بچوں اور سیدانیوں کے ساتھ، شام میں قید و بند کی زندگی اور پھر رہائی کے بعد مدینہ کی زندگی ان سب واقعات کا گہرا نقوش عیاں رہا ہوگا،بہر کیف فکری تقاضا اور ان پر عمل کرنا عصر حاضر میں عزاداران کرب و بلا کی اشد ذمہ داری ہے:

کربلا کے بعد بھی آپ سید سجادؑ تھے

دوسرا ہوتا تو کہدیتا خدا کوئی نہیں

امام زین العابدین علیہ السلام کی ذمہ داری کربلا کا حادثہ رونما ہونے، سید الشہداء امام حسین علیہ الصلوۃ و السلام کے شہید کئے جانے کے بعد آپؑ کے سپرد ہوا۔ اب تک کی جو ذمہ داری امام حسنؑ اور پھر امام حسینؑ کے کاندھوں پر تھی وہ امر امام زین العابدینؑ کے سپرد ہوگئی۔آپؑ کی پوری زندگی کا بنیادی مقصد اور اصل موقف الٰہی مقصد کی تکمیل میں اپنے چچاؑ اور باباؑ کی طرح سعی و کوشش فرما رہے تھے۔

امام علیؑ ابن الحسینؑ کی ولادت باسعادت بمقام مدینہ منورہ میں بتاریخ ۱۵ جمادی الثانی ۳۸ ہجری یومٍ جمعہ کو ہوئی(اعلام الوریٰ، صفحہ ۱۵۱ و مناقب، جلد 4، صفحہ ۱۳۱)۔ آپؑ کو عاشور کے دن امامت کی عظیم ذمہ داریاں ملی تب آپؑ کی عمر مبارک ۲۳ سال تھی۔

آج بتاریخ ۲۵ محرم الحرام کو پوری دنیا میں آپؑ کی 1351 ویں یوم شہادت بڑے رنج و غم میں مجالس برپا، سینہ زنی اور شبیہ تابوت برآمد کیا جا رہا ہے۔ 57 سال کی عمر میں 95 ہجری مطابق 714 عیسوی کو آپؑ درجۂ شہادت پر فائز ہوئے۔ آپ کے روحانی اقتدار کی وجہ سے بادشاہ وقت ولید بن عبد الملک ملعون نے آپؑ کو زہر دے دیا۔ (نورالابصار، صفحہ 128، صواعق المحرقہ، صفحہ 120، مناقب، جلد 4، صفحہ 131) آپ کے فرزند امام محمد باقر علیہ السلام نے نماز جنازہ پڑھائی اور مدینہ کے جنت البقیع میں دفن کر دیئے گئے۔ یہ پُردرد، دل خراش داستان لکھ دینا راقم الحروف کے لیے آسان تھا، قارئین کرام کے لیے پڑھنا بھی مشکل نہ تھا لیکن کوئی فاتح میمنا و میسرہ اور فاتح خیبر، خندق، بدر و حنین، اُحد شیرٍ خدا کے پوتا، سید الساجدین کے دل کی کیفیت دریافت کرے۔

یہ عزاداروں کا اہم ترین فریضہ ہے کہ علیؑ ابن الحسینؑ کی جزئیات زنگی کا جائزہ لیں کہ آپ ع کن مراحل سے گزرے، کیا طریقۂ کار اپنائے اور کس حد تک کامیابیاں حاصل ہوئیں۔

وہ تمام ارشادات جو آپ ع کے دہن مبارک سے جاری ہوئے، وہ اعمال جو آپ ع نے انجام دیئے، وہ دعائیں جو آپ ع کے لب مبارک پر آئیں، وہ مناجاتیں اور راز و نیاز کی باتیں جو آج صحیفۂ کاملہ کی شکل میں موجود ہیں ان سب کی امام ع کے اسی بنیادی موقف کی روشنی میں زندگی کی تفسیر و تعبیر کی جانی چاہیے۔

دو اہم اور بنیادی فریضے جو ہمارے تمام آئمہ علیہ السلام کو سپرد کئے گئے تھے ان کو امام سجاد ع نے بڑی خوش اسلوبی سے جامہ عمل پہنایا ہے۔ آپ ع پوری سیاسی بصیرت اور شجاعت و شہامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہایت ہی احتیاط اور باریک بینی سے اپنے فرائض انجام دیتے رہے، یہاں تک کہ 35 سال کی شب و روز و انتھک جد و جہد اور الٰہی نمائندگی کی عظیم ذمہ داریوں کو پورا کیا، اسلام کو سرفراز و سر بلند کیا اور اپنے بعد امامت و ولایت کا عظیم بار اپنے فرزند و جانشین امام محمد باقر علیہ السلام کے سپرد فرما گئے۔

ایک روایت کے مطابق سید سجاد ع نے اپنے فرزندوں کو جمع کیا اور محمد ع بن علی ع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: "یہ صندوق اور یہ اسلحہ سنبھالو یہ تمھارے ہاتھوں میں امانت ہے۔" اور جب صندوق کھولا گیا تو اس میں قرآن اور کتاب تھی۔" مراجع کرام اور علماء کرام کی متفقہ رائے ہے کہ اسلحہ سے انقلابی قیادت و رہبری کی طرف اشارہ اور قرآن و کتاب، اسلامی افکار و نظریات کی علامت ہے۔ یہ صرف آنے والے امام کی تحویل میں دیا بلکہ رہتی دنیا تک انسان کو فکر و عمل کا راستہ دکھا گئے۔

سید سجاد علیہ السّلام نے سخت لب و لہجہ، شجاعت و بہادری سے یزید کی حکومت و طاقت کا مقابلہ کیا۔ یہ تین بڑے اعظم کا حکمراں تھا۔ لشکر و اسلحہ سے لیس تھا۔ امام حسین علیہ السلام کو کربلا میں شہید کر امامت کو ختم کرنا چاہا، مدینہ منورہ پر حملہ کراکر نبوت کو ختم کرنا چاہا اور خانۂ کعبہ پر آگ برسواکر توحید پر حملہ کیا۔ اسلام میں اصول دین توحید، نبوت اور امامت پر حملہ کرنا ہی یزید کا عقیدہ اُجاگر ہو جاتا ہے۔ لہٰذا سید سجاد ع نے مستحکم حکمت عملی اور آہینی دیوار کی مانند اسلام، قرآن، وحی، توحید، نبوت، امامت، اور انسانیت کی حفاظت کی۔

کسی عالم، ذاکر، خطیب، منبر، محراب، مراجع، آیت اللہ، فقیہ، رہبر معظم اور عزاداروں کے خلاف تقریر یا تحریر کرنا طشت سے زیادہ روشن، ایسا ویڈیو یا شائع کردہ مضمون لوگوں تک پہنچا دینا، فیس بُک پر اپلوڈ کرنا، ٹویٹر، انسٹاگرام کو استعمال کرنا یا وہاٹس ایپ پر پوسٹ کر لائیک کروانا شہد سے زیادہ شیریں نظر آتا ہے۔ لیکن جب حجت خدا ذوالفقار کے ساتھ ظہور کرے گا تب گردن کو محفوظ رکھنا بال سے زیادہ باریک ہوگا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یزید لعنت اللہ کے فکر کے ساتھ پڑھے لکھے پروپگندیسٹ تھے۔ قاضی، قاری و حافظ قرآن کا سوال ہے کہ آیت کا معنی آپ جانتے ہیں کہ 'نشانی' ہے۔ لیکن آپ کتنے سورۃ کا حفظ کیا ہے، اُن سورۃ کا ترجمہ، تشریح، تفسیر یا شرح سے واقفیت ہے، اور کیا قرآن کریم کے سبھی سورۃ کا نام بھی جانتے ہیں؟ کتنے لوگوں کا نماز جنازہ پڑھائی ہے اور تلقین بھی؟ کیا کسی کا نکاح بھی۔۔۔۔۔ معاشرے کو تنقید کا نشانہ بنانا طشت سے زیادہ روشن اور شہد سے زیادہ شیریں ہے لیکن معاشرے کی اصلاح کرنا بال سے زیادہ باریک۔

امام زین العابدین علیہ السلام کے ماننے اور چاہنے والوں کے لیے ابن شہاب زہری سے منقول ہے کہ مجھ سے فرمایا کہ تم ہم سے وہ محبت رکھو جو اسلامی قانون کی حدود میں ہو، تمھاری ہم سے محبت ایسی ہونی چاہیے وہ ہمارے لیے عیب کا باعث نہ ہو اور ہماری ناخوشی کا بھی باعث نہ ہو۔ (الارشاد والمفید، صفحہ 271؛ حلیۃ الاولیاء، جلد 3، صفحہ 136)

تبصرہ ارسال

You are replying to: .