۲۵ آذر ۱۴۰۳ |۱۳ جمادی‌الثانی ۱۴۴۶ | Dec 15, 2024
عادل فراز

حوزہ/ہندوستان میں مسلمانوں کی سیاسی اور سماجی پسماندگی عروج پر ہے، ان کے وقار پر چوطرفہ حملے ہو رہے ہیں۔ مذہبی تشخص خطرے میں ہے ۔ان کے اقتصادی بائیکاٹ کی اپیلیں سرکاری سطح پر کی جارہی ہیں ۔ہجومی تشدد کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔حتیٰ کہ حالات اس قدر بدتر کردئیے گئے ہیں جو ناقابل بیان ہیں۔

تحریر: عادل فراز

حوزہ نیوز ایجنسی| ہندوستان میں مسلمانوں کی سیاسی اور سماجی پسماندگی عروج پر ہے، ان کے وقار پر چوطرفہ حملے ہو رہے ہیں۔ مذہبی تشخص خطرے میں ہے ۔ان کے اقتصادی بائیکاٹ کی اپیلیں سرکاری سطح پر کی جارہی ہیں ۔ہجومی تشدد کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔حتیٰ کہ حالات اس قدر بدتر کردئیے گئے ہیں جو ناقابل بیان ہیں، لیکن مسلمان اب بھی شترمرغ کی طرح ریت میں سر ڈال کر خود کو محفوظ سمجھ رہے ہیں ،جب کہ شکاری ان کے سروں پر آپہونچا ہے ۔کیا انہیں نظر نہیں آتا کہ اب ان کی جان مال اور ناموس بھی محفوظ نہیں ہے۔اگر ہاشم پورہ ،گجرات ،مظفر نگر ،دہلی اور نوح میوات میں ہوئے فساد ات سے اب بھی ہم نے سبق نہیں لیاہے تو پھر آنے والی نسلوں کے مستقبل کے بارے میں کون غور وفکر کرےگا؟

بی جے پی سرکار نے پارلیمنٹ میں وقف ترمیمی بل 2024ء پیش کرکے وقف املاک کے لئے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے ۔گوکہ یہ بل جوائنٹ پارلیمنٹ کمیٹی کو بھیج دیاگیاہے لیکن اس بل کے ذریعہ سرکار نے اپنی نیت صاف کردی ہے۔اب اسکی نگاہیں وقف املک پر لگی ہوئی ہیں تاکہ مسلمانوں کو بالکل تباہ وبربادکردیاجائے ۔کیامسلمان اب بھی نوشتۂ دیوار پڑھنے سے قاصر ہیں ؟خاص طورپر وہ مولوی اور دانشور جو زعفرانی رنگ میں رنگے ہوئے ہیں ۔اب وہ دانشور کہاں ہیںجومسلمانوں کومسلسل آرایس ایس سے مکالمے کی دعوت دیتے رہے ہیں ۔کیا ایسی ناگفتہ بہ صورت حال میں مکالمے کی گنجائش باقی رہ جاتی ہے ؟یہ وقت مزاحمت کاہےمکالمےاور مذاکرات کا نہیں !اس ئے یرقانی تنظیموں کے آلۂ کاروں کی منشا کو سمجھئے ۔یہ لوگ مسلمانوں کو مزید پسماندگی کے تحت الثریٰ میں دھکیلنا چاہتے ہیں ۔اس لئے ان کے مشوروں کو مجذوب کی بڑ سے زیادہ اہمیت نہ دی جائے ۔

وقف املاک کے لئے سب سے پہلے ۱۹۲۳؁ء میں انگریزوں نے ایکٹ پاس کیا۔اس قانون سازی کے ذریعہ انگریزوں نے اوقاف کی جائدادکااپنے لحاظ سے استعمال کیا۔اکثر سرکاری ادارے اوقاف کی زمینوں پر قائم کئے گئے ۔آج بھی زیادہ تر سرکاری دفاتر،افسروں کے بنگلے ،قدیم اسکول و کالج حتیٰ کہ بعض شہروں میں عدلیہ کی عمارتیں بھی اوقاف کی زمینوں پر قائم ہیں ۔جو عمارتیں وقف املاک پر نہیں ہیں وہ نزول میں درج ہیں ۔اس طرح وقف املاک کو اپنے قبضے میں لے کر مسلمانوں کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی گئی ۔اس قدر بہیمانہ قبضے کے باوجود وقف جائدادوں میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی جس نے حکومتوں کو پریشان کردیا۔آزادی کے بعد بھی یہ سلسلہ تھما نہیں ۔۱۹۵۴؁ء میں حکومت نے پارلیمنٹ میں وقف ایکٹ پاس کرکے وقف بورڈ کا محکمہ قائم کردیاجس کے بعد تمام وقف املک کی نگرانی ایک بورڈ کے سپرد کردی گئی ۔چونکہ وقف بورڈ حکومت کے زیر نگرانی تھااس لئے اس کےعہدیداران بھی ہمیشہ حکومت کے زیر اثر رہے ۔ان کی آنکھوں کے سامنے اوقاف پرقبضے ہوتے رہے اور وہ خاموش تماشائی بنے رہے ۔بعض عہدیداران تو اس بدعنوانی میں بذات خود ملوث ہوئے اور اوقاف کی جائداد کو نیلام کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔خاص طورپر گذشہ بیس سالوں میں جس قدر اوقاف کو لوٹا اور برباد کیاگیا،اس کی نظیر نہیں ملتی ۔یہ کھیل شیعہ اور سنّی دونوں بورڈز میں مشترکہ طورپر کھیلاگیاجس کے خلاف وقتاًفوقتاًآواز احتجاج بھی بلند ہوتی رہی ۔

اب جب کہ وقف ترمیمی بل 2024ء؁ پارلیمنٹ میں پیش کردیاگیا ہے ،اس لئے اوقاف کی حیثیت اور بقاپر بھی سوال اٹھنے لگے ہیں ۔اس سلسلے میں جو بل پارلیمنٹ میں پیش کیاگیاہے وہ کسی حکومت کا تیارکردہ نہیں بلکہ یرقانی تنظیموں کا مرہون منت ہے ۔و ہ زعفرانی گروہ جو ہندوستان میں مسلمانوں کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہے توپھر یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ مسلمانوں کی املاک کو برداشت کرپائے گا۔ممکن ہے رام مندر کے متنازعہ فیصلے کی طرح وقف ترمیمی بل پر بھی ملّی قیادت کو سرکار اعتماد میں لے کر قانون پاس کردے ،کیونکہ موجودہ ملّی قیادت کا کوئی واضح موقف نہیں ہے ۔اگر ہماری قیادت بروقت اپنی بیداری کا مظاہرہ کرتی تو حالات اس قدر دگرگوں نہیں ہوتے ۔ان کی اکثریت نے تو برسراقتدار طبقے کے سامنے سرتسلیم خم کردیاتھا اور اندریش کمار کے شانہ بہ شانہ نظر آرہےتھے ۔وہی اندریش کمار جو ’مسلم راشٹریہ منچ ‘ کے ذریعہ مسلمانوں میں نفوذ پیداکرکے بی جے پی کی سیاہ کرتوتوں کے لئے رہیں استوار کررہے ہیں ۔پھررہی سہی کسر ’داراشکوہ فائونڈیشن‘ نے پوری کردی ۔وہ دانشور جو خود کو قیادت کا دعویدار سمجھتے تھے وہ بھی آرایس ایس کی گود میں جابیٹھے ۔نتیجہ یہ ہوا کہ بی جے پی کو یہ باور کرایا گیا کہ مسلمانوں میں اس کی مخالفت کی تاب موجود نہیں ہے ،اس لئے اس کے اراکین کی دریدہ دہنی اور جسارت میں مزید اضافہ ہوااور وہ لوگ برسر عام ’دیش کے غداروں کو،گولی مارو سالوں کو جیسے نعرے لگانے لگے ۔مسلمانوں کی عبادت گاہوں اور تعلیمی مراکز پر حملے بڑھ گئے ۔ایسے قانون پارلیمنٹ سے پاس کروائے گئے جن سے مسلمانوں کو اپنی شہریت اور وجود خطرے میں محسوس ہونے لگا۔جس وقت یہ تماشے ہورہے تھے ملّی قیادت مذمتی بیانات دے کر اپنے فرائض کی ادائیگی کررہی تھی اور خواتین کھلے آسمان کے نیچے سڑکوں پر احتجاج کررہی تھیں ۔جب صورت حال یہ ہو تو پھر وقف ترمیمی بل کو پاس ہونے سے کیسے روکا جاسکتا ہے ؟

ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ہندوستان کی تمام سیاسی جماعتوں میں مسلمانوں کی نمائندگی موجود ہے ۔یہ الگ سوال ہےکہ ان کی نمائندگی پہلے سیاسی جماعتوں اور پھر مسلمانوں کے لئے کتنی اہمیت رکھتی ہے ۔لیکن مسلم نمائندگی سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ بی جے پی میں جو مسلمان موجود ہیں انہیں مسلمانوں کا نمائندہ کہنا غلط ہوگا۔کیونکہ انہیں مسلمانوں کی حمایت حاصل نہیں ہے ۔یعنی ریاست اور مرکز میں موجود مسلم نمائندے انتخاب میں کامیاب ہوکر نہیں پہونچے بلکہ انہیں بی جے پی سے وفاداری کا صلہ دیاگیاہے ۔اس طرح دو فائدے بی جے پی کو حاصل ہوئے ۔ایک تویہ کہ مسلمانوں کو ٹکٹ دئیے بغیر انہیں’کہنے کو‘ مسلم نمائندگی مل گئی اور دوسرے بعض عہدوں کےلئے اپنے تیار کردہ افراد ہاتھ آگئے ۔ظاہر ہے ایسے افراد کو نہ مسلمانوں کے مسائل سے کوئی دلچسپی ہوگی اور نہ مسلمانوں کو ان سے کوئی توقع وابستہ رکھنی چاہیے ۔اس کے برعکس دیگر سیاسی جماعتوں میں جو مسلم نمائندگی موجود ہے وہ مسلمانوں کی حمایت یافتہ ہے ۔لیکن افسوس یہ ہے کہ ان تمام لوگوں کی پہلی ترجیح ملّی مفاد نہیں ہے ۔یہ لوگ اپنی جماعتوں کے وفادار ہوتے ہیں ۔عہدے اور منصب کے لئے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں اور کچھ بھی کر گزرنے کو تیار رہتے ہیں ۔اگر ایسا نہیں ہے توپھر چندر بابو نائیڈو اور نتیش کمار ان کی موجودگی میں وقف ترمیمی بل کی حمایت کیسے کرسکتے ہیں؟کیا اس سلسلے میں نتیش کمار اور چندر بابونائیڈو نے اپنے اراکین کی رائے معلوم نہیں کی ؟اگر نہیں تو پھر ان جماعتوں میں ان کی نمائندگی کی حیثیت کی ہے؟ اور اگر ان کی رائے معلوم کی گئی توپھر وہ اس بل کی حمایت کیسے کر سکتے ہیں؟

پارلیمنٹ میں وقف ترمیمی بل پیش کرتے ہوئے کرن رجیجو نے جس طرح متولیوں کے کردار پر سوال اٹھایا وہ بھی قابل غور ہے ۔گویاکہ وہ متولیوں کی بدعنوانیوں کی بنیاد پر یہ بل لے کر آئے ہیں؟اگر متولیوں کی بدعنوا نی کی بنیاد پر یہ بل تیار کیاگیاہے تو پھر ہندوستان کا کون ساسرکاری اور نیم سرکاری ادارہ ایساہے جہاں بدعنوانی نہیں ہے ؟الزامات تو سرکار پر بھی لگتے رہتے ہیں ۔توکیا ان الزامات کی بنیاد پر اس طرح کا بل تیار کیا جا سکتا ہے؟اس طرح تو سرکار کو بھی اقتدار میں رہنے کا حق نہیں ہے ۔متولیوں میں بدعنوانی موجود ہے اس میں کوئی شک نہیں لیکن اس طرح اوقاف پر ہندوایڈمنسٹریٹر مقرر کردیا جائے یہ بھی انصاف نہیں ہے ۔دوسرے سرکار کو ان املاک کی طرف بھی دھیان دینا چاہیے جہاں راتوں رات قبضے کی نیت سے مندر تعمیر کردئیے گئے ہیں ۔ایک طرف منصوبہ بند طریقے سے اوقاف کی املاک پر مندر تعمیر کرکے ان پر قبضہ کیا جارہا ہے ۔دوسری طرف سرکار وقف ترمیمی بل کے ذریعہ تمام وقف جائیدادوں کو ہڑپنے کی تیاری میں ہے ۔ایسی نازک صورت حال میں مسلمان اپنی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے مناسب حکمت عملی اختیار کریں ۔کیونکہ اگر اب بھی بیدار نہیں ہوئے تو خطرے کی گھنٹی ہر بار نہیں بجے گی۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .