۱۸ شهریور ۱۴۰۳ |۴ ربیع‌الاول ۱۴۴۶ | Sep 8, 2024
مولانا سید نجیب الحسن زیدی

حوزہ/ اگر کسی کی ہار جیت کا فیصلہ گلے کے کٹ جانے سے ہوتا تو الگ بات تھی لیکن حسین نے تو شکست و فتح کا معیار ہی بدل دیا کٹے ہوئے گلے سے تلاوت کر کے بتایا کہ گلوں کا کاٹا جانا یزیدیت کی نگاہ میں موت  کا استعارہ ہوگا حسینیت کے  مکتب میں تو یہ شہادت ہے، اور زندگی جاودان کی یہ وہ منزل ہے جہاں کوئی گمان بھی نہ کرے کہ کوئی شہید مردہ ہے۔

تحریر: مولانا سید نجیب الحسن زیدی

حوزہ نیوز ایجنسی | دنیا میں جہاں بھی ننگے بھوکے پابرہنہ لوگوں کے وجود سے انقلاب کے شعلے لپکے ہیں اور انہوں نے شہنشاہوں اور سلطانوں کی دستاروں کو انکے وجود اور انکے تخت و تاج کے ساتھ جلا کر خاک کے ڈھیر میں بدل دیا ہے، جہاں بھی استبداد و بربریت کے آہنی پنجوں کو مظلوموں کے لہو کی حرارت نے پلاسٹک کے کسی کھلونے کی طرح پگھلا کر ناکارہ بنا دیا ہے، جہاں بھی خنجر و تلوار کے پانی نے خون کے اسلحہ کے سامنے بے بس ہو کر پانی مانگا ہے، جہاں بھی مظلوموں کی آہوں نے عالیشان محلوں کو کھنڈرات میں بدل کر اپنی قسمت کا فیصلہ کیا ہے، ہر اس مقام و ہر اس جگہ پر جہاں ظالموں کی تلواریں مظلوموں کے گلوں کے سامنے بے بس ہوئی ہیں ، جہاں پیشانیوں کے سامنے نیزے روئے ہیں، جہاں فولادی سینوں کے سامنے تیر کانپ اٹھے ہیں کہ انہوں نے سینوں میں سوراخ ضرور کیا ہے لیکن عزم و ہمت کے سامنے انہیں شکست سے دوچار ہونا پڑا ہے، جہاں سوکھے گلوں کے سامنے خنجر پیچھے ہٹیں ہیں اور گلوں نے انہیں دبوچ لیا ہے۔

خنجر و نیزہ و تیر و شمشیر، ڈھال و تلوار و گرز آہنیں سے آگے بڑھیں ذرا آج کی کربلا میں آئیں، جہاں سنگینوں کا تعاقب سینوں نے کیا ہے، جہاں گولیاں سینوں میں پیوست ہو کر ناکام ہوئی ہیں، جہاں توپوں اور ٹینکوں نے لاشوں کے ڈھیر کے سامنے اپنی بے بسی کا ماتم کیا ہے جہاں موت برساتے طیاروں نے اپنے چہروں پر طمانچے مارے ہیں وہاں ایک صدا بس ایک صدا سنائی دی ہے حسین زندہ باد، حسین زندہ باد، جی ہاں حسین زندہ باد ہر اس مقام پر ہر اس جگہ جہاں حسینی عزم کے سامنے یزیدیت پسپا ہوئی حسینی حوصلہ کے سامنے یزیدیت رسوا ہوئی، حسین زندہ باد ہرگز کوئی نعرہ نہیں کوئی گمان نہ کرے کہ یہ ایک نعرہ ہے، یہ ایک زندہ حقیقت ہے، فاطمیون، زینبیون، حزب اللہ، حشد الشعبی اور انصار اللہ و مزاحمتی محاذ کے باطل کے خلاف عزم پیہم کی صورت افسوس آج یہی حسین زندہ باد بعض لوگوں کی سمجھ نہیں آتا اگر یزیدی ٹولے کی سمجھ میں نہ آئے تو بات الگ ہے کہ جب یہ نعرہ لگتا ہے تو ہر دور کے یزید کا تخت ہلنے لگتا ہے اور ہر زمانے کا یزید اپنے ڈانواں ڈول تخت کو سنبھالنے کی کوشش کرتے ہوئے ان حسینیوں کی طرف پریشان ہو کر دیکھتا ہے جو 14 سو سال کے بعد بھی اس حسین ع سے زندگی کی حرارت مانگ رہے ہیں جسے کربلا کی جلتی زمیں پر پامال سم اسپاں کر یزید نے بزعم خود ختم کر دیا تھا

سو یزیدیوں اور یزیدی فکر کے حامل اباطیل زمانہ کی سمجھ میں آنا بھی نہیں چاہیئے کہ انکی نگاہ مادی کہاں سے شہادت کی حقیقی حیات کے جلووں کو دیکھ سکتی ہے مگر خیمہ حسین ع میں رہتے ہوئے کسی کو حسین زندہ باد کی حقیقت سمجھ نہ آئے تو فکری بازبینی کی ضرورت ہے کہ یہ تباہ کن فکر کہاں سے آ رہی ہے اور بظاہر خیمہ حسینی میں رہنے کا دعوی کرنے والے خد و خال سے حسینی نظر آنے والے ان افراد کے پیچھے کون لوگ ہیں جو جنہیں حسینیت زندہ باد سے محض تکلیف نہیں حسینیت ہی ابھی تک سمجھ نہیں آئی ہے کہ حسینیت کیا ہے ؟ حسینیت سچائی کی وہ ڈگر ہے جس پر چلنے والا ہر دور میں اپنے وقت کے یزید سے بھڑ جاتا ہے چاہے وہ کہیں چھپا ہو ، کسی حلییے میں ہو وہ عمامہ و جبہ و دستار سے مزین بھی ہو تو حسینیت اس کے چہرے سے نقاب الٹ کر دودھ کا دودھ پانی کا پانی کر دیتی ہے ۔

اسی لئے کچھ لوگوں کو حسین ع زندہ باد اور حسینت زندہ باد سے بیر ہے اور وہ کربلا کو 61 ہجری میں محصور کرنا چاہتے ہیں کہ حسنیت زندہ باد انکے مفادات پر ضرب کاری ہے ۔یزید کی مشکل یہی تھی کہ وہ سمجھ رہا تھا حسین ع شہید ہونے سے مر جائیں گے لیکن شہادت نے تو حسین ع کو امر کر دیا وہ حسین ع کی شہادت میں اپنی جیت دیکھ رہا تھا جبکہ حسین ع نے شہید ہوکر اس کی ابدی ہاری کی سطروں کو ریگزار نینوا پر لکھ دیا

، اگر کسی کی ہار جیت کا فیصلہ گلے کے کٹ جانے سے ہوتا تو الگ بات تھی لیکن حسین نے تو شکست و فتح کا معیار ہی بدل دیا کٹے ہوئے گلے سے تلاوت کر کے بتایا کہ گلوں کا کاٹا جانا یزیدیت کی نگاہ میں موت کا استعارہ ہوگا حسینیت کے مکتب میں تو یہ شہادت ہے، اور زندگی جاودان کی یہ وہ منزل ہے جہاں کوئی گمان بھی نہ کرے کہ کوئی شہید مردہ ہے۔ وَلا تَحسَبَنَّ الَّذينَ قُتِلوا في سَبيلِ اللَّهِ أَمواتًا ۚ بَل أَحياءٌ عِندَ رَبِّهِم يُرزَقونَ۔

یقینا اگر کوئی ظلم کے خلاف ہے، حسینی عزم لیکر میدان میں ہے، چاہے میدان فکر کا ہو، خطابت کا ہو، اقتصاد کا ہو، سیاست کا ہو، فرہنگ کا ہو ثقافت کا ہو، قلم کا ہو، شعر و شاعری کا ہو، سماجیات کا ہو، اگر انسان اپنے وقت کے یزید سے نبرد آزما ہے تو وہ کربلا کا سپاہی ہے جب اسکا تعلق کربلا سے ہو گیا تو جیتے جی بھی زندہ ہے مر کر بھی زندہ ہے کہ یہاں مرنا اور جینا تو خدا کی مشیت پر منحصر ہے معیار یہ ہے کہ جینا اور مرنا کیوں اور کس مقصد کے تحت، جینا اور مرنا کیسے؟ خیمہ حسین (ع) میں یا خیمہ یزید میں، ملاک و معیار جب یہ ہے تو نہ زندگی اہم ہے نہ موت اہم ہے، اہم یہ ہے کہ زندگی ہے تو کیوں، موت ہے تو کس حال میں سو اب ایسی صورت میں اگر کوئی باطل سے مقابلہ کر رہا ہے تو وہ کہیں بھی ہو فرد کی صورت ہو کہ اجتماع کی صورت، کسی بھی علاقے کا ہو، کسی بھی رنگ کا حامل ہو، کوئی زبان رکھتا ہو، کوئی لہجہ رکھتا ہو، کسی بھی، خطے سے اٹھا ہو کسی بھی ملک سے ہو، کسی بھی قبیلہ کا ہو، کسی خاندان سے اسکا تعلق ہو اگر اس نے فیصلہ کیا کہ حق کا ساتھ دے گا باطل کو پسپا کریگا، چاہے باطل کوئی بھی ہو، کسی بھی لباس میں ہو، کسی بھی مقام پر ہو، کسی بھی زبان کا حامل ہو، کسی بھی رنگ سے اسکا تعلق ہو، تو وہ کربلا سے جڑا ہے حقیقت کربلا سے جڑا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ کربلائی مزاج کبھی یزیدی مزاج کو برداشت نہی کرتا کہ اسکی حیات و موت دونوں میں مقصدیت کار فرما ہوتی ہے جبکہ یزیدیت صرف اپنے وجود کو دیکھتی ہے اسکے پیشِ نظر دنیا میں کوئی اعلٰی مقصد نہیں ہوتا ہے آخرت کی تو بات ہی کیا، یزیدیت کا واحد مقصد حصول اقتدار اور حفظ اقتدار اور بس جبکہ حسینیت کا مقصد حصول رضائے الٰہی اور حفظ رضائے الہی، یہی سبب ہے کہ جب اللہ کی رضا کے حصول کے لئے کچھ لوگ اپنے اعز و اقارب اپنا گھر بار چھوڑ کر یزید وقت سے مقابلہ کیلئے نکلتے ہیں، قربانیاں دیتے ہیں، اپنی جانیں گنواتے ہیں، گولیاں کھاتے ہیں، زخم سہتے ہیں تب بھی انکے ماتھے پر شکن نہیں ہوتی بلکہ مسکراتے ہوئے جامِ شہادت نوش کر لیتے ہیں کہ انکے سامنے کربلا کے اس پیاسے کا مسکراتا وجود ہوتا ہے جو عصر عاشور پشت فرس پر ڈگمگا رہا تھا اور اسکا جسم نازنین تیروں سے ڈھکا ہوا تھا لیکن آنے والے کل کو لیکر پرامید تھا، اسکی نظریں کربلائی فکر رکھنے والی ان نسلوں پر تھیں جو صدیاں گزر جانے کے بعد بھی اسے تنہا نہیں چھوڑیں گے، وہ مظلوم کربلا جس نے اپنے ۷۲ جانثاروں کو مسلخ عشق میں قربان کر دیا، جس نے اپنے ننھے مجاہد علی اصغر (ع) کی شکل میں جب اپنی تمام تر قربانیوں پر مہر لگا دی تو عصر عاشور اپنی قربانیوں کی قبولیت کی خاطر سر کو مالک کے سجدے میں رکھ دیا، اور پوری کائنات کا سب سے عظیم سجدہ، نرالے انداز، نرالی شان، نرالی ادا سے کیا۔

''سبحان ربی الاعلی و بحمدہ"، تو سب کہتے ہیں ، لیکن جس انداز سے سید الشہداء نے کہا وہ پوری کائنات میں بے نظیر و یکتائے روزگار ہے، وہ حسین (ع) جو تنہا تھا، اکیلا تھا، پیاسا تھا، غریب تھا، ستایا ہوا تھا، زخمی تھا، جسکا آخری سجدہ رہتی دنیا تک بندگی کو دلیل فراہم کر گیا، کیوں نہ مسکرائے گا ظلم و ستم کو لرزاں دیکھ کر کیوں نہ مسکرائے گا، ظالموں کے خلاف مظلوموں کی جنگ دیکھ کر کیوں نہ مسکرائے گا، حق کا غلبہ دیکھ کر کیوں نہ مسکرائے گا، شہید حججی جیسے جوانوں کو مطمئن و خندہ دیکھ کر کیوں نہ مسکرائے گا، مدافعین حرم کے عزم و ہمت کو دیکھ کر کیوں نہ مسکرائے گا فلسطینیوں کا عزم مصمم دیکھ کر کہ یہ سب کے سب اسی کی شہادت کا فیض عظیم ہے، لبیک ہے اس صدائے ھل من پر جسے اس نے صحرائے کربلا میں ۶۱ ہجری میں بلند کیا تھا لیکن ۶۱ ہجری سے اب تک مسلسل راہ خدا میں گرتی ہوئی شہداء کی لاشیں بغیر کسی وقفے کے لبیک کی عملی تصویر پیش کر رہی ہیں، یہ کربلا کے اس درخت کا ثمر ہیں جسے اس نے اپنے جسم کے لہو کے ساتھ خونِ جگر دیکر پروان چڑھایا تھا۔ غاصب اسرائیل کے خونچکاں پنجوں میں جکڑا ہوا قبلہ اول بیت المقدس ہو کہ استعماری سازشوں کی شکار سرزمین شام و عراق، یا عالمی سامراج سے ٹکرانے کی جرات رکھنے والے مختلف علاقوں اور ملکوں کے اقوام اور اسلامی بیداری کی لہروں کی زد میں زمیں بوس ہونے والے آمروں اور شہنشاہوں کے محل، تیونس ہو کے لیبیا، مصر ہو کے بحرین و یمن، دنیا چاہے سر اٹھاتی ہوئی عوامی تحریکوں کو کچھ بھی نام دے لیکن اتنا طے ہے کہ جہاں بھی استبداد و بربریت کے خلاف محاذ آرائی ہو اسکی پشت پر اپنے خون کی دھار سے خنجر و تلوار کی کاٹ کو ناکارہ بنانے والی کربلا کے آفاقی دروس کے شہ پارے ضرور نظر آئیں گے، جنہوں نے دنیا والوں کو سکھایا کہ کس طرح سر کٹا کر سربلند ہوا جاتا ہے اور کس طرح اپنی جان دے کر بھی باطل کو اس کے ارادوں میں ناکام بنایا جاتا ہے۔

آج دنیا کے ظالم کربلا کا نام سن کر کانپنے لگتے ہیں اور سلاطین ظلم و جور کی دستاروں سے دھواں بلند ہونے لگتا ہے کہ کربلا درحقیقت نام ہے تخت شاہی کو نابود کر دینے والے اس مفہوم کا جو مستضعف اور مقہور انسانیت کے زخموں کا مرہم ہے تو اس کے حقوق کو پامال کرنے والوں کے لئے نقارہ جنگ۔ اسی لئے کسی بھی قوم اور قبیلہ کا انسان ہو کسی بھی ملک سے تعلق رکھتا ہو کسی بھی مذہب کا پرستار ہو اگر اس کا ضمیر بیدار ہے تو اپنی ہر طرح کی جغرافیائی، مذہبی، اور قبائلی حدود کو پار کر کے کربلا کی آغوش میں اپنی پیاسی روح کو سیراب کرتا نظر آئے گا۔ یہ وارفتگی اور کربلا والوں سے اس قدر لگن نتیجہ ہے اس مقدس خون کا جو انسانیت کی قدروں کو بچانے کے لئے دشت نینوا کی گرم ریت پر بہا تو ہر احساس رکھنے والے انسان کے وجود میں ایک ایسی دہکتی آگ روشن کر گیا جو اس وقت تک ٹھنڈی نہیں ہو سکتی جب تک دنیا کے کسی بھی گوشہ میں مظلوموں کا حق مارا جاتا رہے گا، اسی لئے استعمار و استکبار ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کربلا سے حاصل ہونے والے دروس کی روشنی کو تاریکی اور ظلمت میں بدلنے کی راہوں پر ایک ساتھ مل جل کر غور کر رہے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کی حکومتوں کا بھی وہی حال ہو جو کربلا تخت یزید کا ہوا کہ حسین (ع) نے اپنا معیار شہادت اتنا بلند کر لیا کہ یزید کا بیٹا بھی تخت کو ٹھوکر مار کر یہ کہنے پر مجبور ہوا کہ میرا حق نہیں تھا، انہیں اس بات کا بخوبی اندازہ ہے کہ کربلا کی حیات ابھی ختم نہیں ہوئی ہے بلکہ کربلا آج بھی زندہ ہے اور کسی بھی وقت ایک انقلابی تحریک کی صورت ان سے انکا تخت و تاج چھین سکتی ہے، انہیں خوب معلوم ہے کہ چودہ صدیاں گزر جانے کے بعد اگر آج بھی کربلا کے ذرات خون آشام کو نچوڑا جائے گا تو خون شہادت کے مقدس خطرے لپک لپک کر خدا کی کبریائی کا اعلان بھی اسی طرح کریں گے جس طرح کل حق پر مر مٹنے والوں نے اپنی گردنیں کٹا کر کیا تھا۔

یہ خوب جانتے ہیں کہ روئے زمین پر جب تک ایک بھی ذی روح ہستی غلامی کا شکار رہے گی ظلم و تشدد کی زوال پذیر خزاں اس کے جذبات کچل کر اسے ٹھیس پہونچائے گی تب تب کربلا کی صدائے بازگشت سنائی دیتی رہے گی۔ اسی وجہ سے کربلا کی آفاقی جگمگاہٹ کو دیکھ کر مات و مبہوت باطل پرستوں کے ٹولے زہریلے اور منفی پروپیگنڈوں کے ذریعہ جس چیز پر سب سے زیادہ یلغار کر رہے ہیں وہ کربلا ہے اور وہ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ کربلا کے رہتے کربلائیوں کو پسپا کرنا مشکل ہے، کربلا کے رہتے مکتب کربلا کے روشن چراغ کو بجھانا ناممکن ہے لیکن، کیا یہ بھی ممکن نہیں کہ کربلا کے مقابل ایک دوسری کربلا بنائی جائے، ایک ایسی کربلا جو حسین (ع) کی کربلا نہ ہو ؟ ایک ایسی کربلا جسے ظلم سے کوئی لینا دینا نہ ہو؟ ایسی کربلا جہاں اچھائیوں کی طرف دعوت نہ ہو برائیوں سے روکنے کا عزم نہ ہو جہاں یہ دعوی کیا جائے کہ مدینہ سے کربلا تک کوئی ایک ایسا مقام دکھا تو جہاں معمار کربلا نے کسی اچھائی کا حکم دیا ہو کسی برائی سے روکا ہو ایسے لوگوں کی عقلوں کو کیا ہو گیا ہے جو نہیں دیکھتیں تاریخ انسانیت کے سب سے بڑے منکر کا نام سب سے بڑی برائی کا نام ہے یزید اور حسین ع یزید سے مقابلہ کے لئے نکل پڑے اب کوئی اتنا شہرت و مادیت کی دبیز پرتوں میں بینائی گنوا بیٹھے کہ یزید جیسا منکر اسے نظر آئے تو انسان کیا کرے آج سامراج ایسی ہی کربلا کو لانچ کرنا چاہتس ہے جہاں انسانیت کا درد نہ ہو، جسے نہ بحرین سے مطلب ہو، نہ شام، سے نہ لبنان سے نہ، عراق سے نہ یمن سے، نہ فلسطین سے اسے مطلب ہو تو بس اپنی عزاداری سے مطلب ہو تو اپنے جلوس سے مطلب ہو تو اپنے ماتم سے؟ مطلب ہو تو اپنے منبر سے مطلب ہو تو اپنے سامعین سے کیا ایسی کربلا بھی ہو سکتی ہے۔

کیا یہ ممکن ہے؟ کیا مصنوعی کربلا بن سکتی ہے تاکہ کربلا کے تعلیمات کو آگے بڑھنے سے روکا جا سکے، جی ہاں نہ صرف بن سکتی ہے بلکہ اس کے لئے پوری منصوبہ بندی بھی ہے ایسے میں ہمیں خیال رکھنا ہوگا کہ ہم کہاں کھڑے ہیں، حقیقی کربلا میں جہاں حسین ع ہیں، یا مصنوعی کربلا میں جہاں بھولے بھالے حسینیوں کو خاص مقاصد کے تحت استعمال کیا جا رہا ہے اپنی شہرت کی بھوک مٹانے کے لئے اپنے فرسودہ افکار کی سڑاند کو مٹانے کے لئے اپنی انا کا بت چمکانے کے لئے

میں نہیں کہتا کہ مصنوعی کربلا بنانے میں وہ لوگ جان بوجھ کر آگے آ رہے ہیں جنکا تعلق ایک بزرگ و علمی خاندان سے ہے یا جو انکی راہ پر بغیر سوچے سمجھے چل پڑے ہیں انہیں پتہ بھی نہیں اس راہ کی انتہا پر پسر سعد کھڑا انکا استقبال کر رہا ہے کوئی حسین ع نہیں ، نہیں کہتا کہ مصنوعی کربلا کی تشکیل میں سوچ سمجھ کر مرجعیت حصہ بن رہی ہے لیکن اتنا ضرور ہے مصنوعی کربلا میں ایسے خاندان موجود ضرور ہیں جنہوں نے کبھی کربلا کی حقیقی میراث کو ہم تک پہنچانے کے لئے بڑی قربانیاں دیں تھی، کون بھول سکتا ہے میرزائے شیرازی کے تنباکو کی حرمت پر دیئے جانے والے تاریخی فتوٰی کو جس نے برطانوی سلطنت کی چولیں ہلا کر رکھ دی تھیں اور کربلا کے جانباز سپاہی کی صورت سامنے آ کر استعمار کی سازشوں کو بےنقاب کیا تھا، کون سوچ سکتا تھا آج میرزائے شیرازی کے وارث جانے انجانے مصنوعی کربلا کا حصہ بن کر دشمنوں کی خوشحالی کا سبب بن جائیں گے۔ ہم مرجعیت کا احترام کرتے ہیں اور مرجعیت کی توہین کو کسی بھی انداز سے کیوں نہ ہو قوم و ملت اور مکتب تشیع کی توہین سمجھتے ہیں، اور تمام تر نظریاتی اختلافات کے باوجود کسی بھی مرجع کی شان میں گستاخی کو قبول نہیں کرسکتے چاہے وہ ولایت فقیہ کو مانتا ہو یا نہ مانتا ہو لیکن جب بات اصولوں کی ہو تو اصولوں کا سودا بڑے ناموں سے کرنا بھی دین و قوم کے ساتھ خیانت ہے اور کربلائی اصول ہم سے کہتے ہیں، یزیدی لشکر سے تو حسینی لشکر کا حصہ بننے کوئی آ سکتا ہے اور حسین (ع) بڑھ کر اسکا استقبال کریں گے لیکن ۷۲ میں سے کوئی ادھر نہیں جا سکتا بھلے اس پر سے بیعت ہی کیوں نہ اٹھا لی جائے۔

کیا یہ افسوس کا مقام نہیں ہے کہ آج مرجعیت کے عظیم منصب پر فائز کچھ شخصیتوں کو استعمار اپنے آلہ کار کے طور پر دیکھ رہا ہے ؟ کیا ممکن ہے کہ کوئی کربلائی فکر کا حامل ہو اور وقت کے یزید کو نہ پہچانتا ہو ؟ یزیدیت کے لئے نرم گوشہ رکھتا ہو، یا زمانہ کی یزیدیت کا سہارا لے رہا ہو اپنے افکار و نظریات کی ترویج کے لئے؟ آپ خود فیصلہ کریں اس کے بارے میں اگر سید الشہداء (ع) کے ہاتھوں فیصلہ ہونا ہو تو کیا ہوگا؟ کبھی کبھی انسان کو اپنے افکار و نظریات کا محاسبہ یہ سوچ کر کرنا چاہیئے کہ دشمن اسکے بارے میں کیا سوچ رہا ہے؟ ممکن ہے انسان خود کو صادق و حق پرست کہہ رہا ہو لیکن دشمن نے اپنی نیرنگی چالوں سے حق اس پر مشتبہ کر دیا ہو، جیسا کہ وفات پیغمبر (ص) کے بعد آپکے بڑے بڑے صحابہ کرام کے ساتھ ہوا جن میں زبیر جیسے صحابی کی شخصیت بھی ہے۔ یہ کوئی جذباتی گفتگو نہیں کہ قلم جادہ حق بیانی سے ہٹ کر جذبات کا شکار ہو گیا ہو بلکہ ایک ایسی تلخ حقیقت ہے جس پر دل روتا ہے آپ نے ڈاکٹر جفری ہالورسن کا نام سنا ہوگا ڈاکٹر جفری ہالورسن کا ماننا ہے کہ آج کے دور میں امام حسین علیہ السلام کے طرفداروں کا کردار نبھانے کی صلاحیتوں کا مالک، شیرازی طرز فکر ہے جو جعلی یزید یعنی اسلامی جمہوریہ ایران سے مقابلہ کے لئے امام حسین علیہ السلام کا کرادار ادا کر سکتا ہے۔ ہالورسن نے ایزونا یونیورسٹی کے اسٹراٹیجک مطالعہ کی سائٹ پر اپنے ایک مقالے میں اس مصنوعی کربلا کے سلسلہ جو کچھ لکھا ہے اسے پڑھ کر دل کٹ کٹ جاتا ہے اور رونا آتا ہے بعض اپنوں کی سادہ دلی پر اور دشمنوں کی سازشوں سے بے خبری پر۔

مقالے کے کچھ اہم نکات:

1۔ ہالورسن کا ماننا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت کا تختہ پلٹنے اور اس کے نظام کو گرانے کے لئے ہرگز سختی اور تندی کی پالیسی کام نہیں آسکی ہے۔

2۔ ہاولورسن، دیگر سلامتی و تحفظاتی اسٹراٹجیکل پالسییوں کی طرح نرم رویہ کو اپناتے ہوئے کولڈ وار کے ذریعہ ایران کے خلاف اپنی رائے کو نرم انداز میں حکومت کا تختہ الٹنے کی پالیسی کو تجویز کرتے ہیں۔

3۔ وہ کہتے ہیں کہ حکومت ایران کے مقابلہ کے لئے ضروری ہے کہ روایتِ کربلا کو کربلا کے بالکل برعکس و برخلاف ایک دشمن کی صورت میں تبدیل کر دیا جائے۔

4۔ اسکے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے تمام وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے ایران کی حکومت کو یزیدی حکومت کے طور پر پیش کریں اور اسی سلسلہ سے اپنے وسائل کا استفادہ کریں کہ ایرانی حکومت کو یزیدی ثابت کیا جا سکے۔

5۔ روایت کربلا کو منحرف انداز میں ہمیں اس طرح پیش کرنا ہے کہ ہمارا محور، شیرازیت ہو جس سے ہم اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت میں فائدہ اٹھا سکیں۔

وہ آگے لکھتے ہیں:

ایسی چیز جو ایک حقیقی روایت کو اس کے بالکل برخلاف پیش کر سکے، اسکے لئے تین چیزوں کی ضرورت ہے۔

1۔ اصلی و واقعی ماجرا کو توڑ مروڑ کے پیش کیا جائے اور قیاسات کی نئی تشکیل ہو، نیز تشابہات کو نشر کیا جائے اور پھر اسکا نفوذ ہو۔

2۔ اسکی حقانیت کے بارے میں شک پیدا کیا جائے {ظاہرا مراد یہ ہے کہ واقعہ کربلا کو بنیاد بنا کر نظام کی حقانیت پر سوال کھڑے کئے جائیں}۔

3۔ ان تمام چیزوں کی جگہ کو ایک بڑی روایت یا بڑے واقعہ سے بدل دیا جائے۔

انجام کار وہ یہ نتیجہ لیتے ہیں کہ کربلا کی روایت مذکورہ بالا تنیوں نکتوں کے تحقق کی صلاحیت کو اپنے اندر رکھتی ہے جسے ایران کی موجودہ رژیم کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ہالورسن کا ماننا ہے کہ شیرازی طرز فکر امام حسین علیہ السلام کے طرفداروں کا رول پلے کرنے کے لئے ایک بہترین آپشن رہے گا جو جعلی یزید یعنی اسلامی جمہوریہ کے مقابلہ کے لئے اپنا کردار ادا کر سکتا ہے۔ سکیورٹی سے متعلقہ اس صاحب نظر شخصیت نے تجویز کئے گئے اپنے طریقہ کار کے مناسب ہونے کے اثبات میں متعدد دلائل ذکر کئے ہیں:

1۔ اس طرز فکر کی قیادت کا سید ہونا۔

2۔ اس طائفہ کے اکثر طرفداروں کا اہل کربلا ہونا۔

3۔ اسلامی حکومت کا ناقد و مخالف ہونا۔

انجام کار ہالورسن نے ان باتوں کے نشر کرنے کا بہترین موقع اور اپنی تجویز کو عملی کرنے کی بہتر فرصت اور اپنے پیغامات کو پہنچانے کا بہترین وقت ماہ محرم اور عاشور سے نزدیک ایام کو قرار دیا دیتے ہوئے آگے لکھا ہے، یہ وہ وقت ہے کہ جب شیعہ مسلمان، جذبات و معنویت سے سرشار ہوتے ہیں، اور کربلا سے آگاہ بھی اور اس واقعہ سے نزدیک بھی، ایسی صورت میں اس پیغام کو پہچائے جانے کے سلسلہ سے جو بھی رکاوٹ کھڑی کی جائے گی یا اس کے نشر کو روکنے کے سلسلہ سے جو بھی اقدام ہوگا، وہ ہمارے حق میں ہوگا حتی شیرازیوں کو اگر سرکوب کیا جائے گا تو یہ سبب بنے گا کہ روایت کربلا کا یہ عنصر غالب آئے کہ ایرانی رژیم یزید کا کردار ادا کر رہی ہے اور جتنا بھی اسکی جانب سے سیاسی دباو بڑھایا جائے اتنا ہی ہماری جانب سے پیش کئے جانے والے ستم گر یزید کا رنگ و روپ سامنے آئے گا اور یزیدی کردار واضح و آشکار ہوگا جو ہمارا مطلوب ہے۔

ہالورسن نے اپنے مقالہ کے اختتام میں امریکی سینیٹ کو پیش کی گئی ایک تجویز کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرز فکر کی مدد کے لئے ضروری ہے کہ اجتماعی روابط عامہ کے وسائل جیسے سیٹلائٹ چینل، انٹرنیٹ، اور مختلف سائٹس وغیرہ کل ملا کر ہر وہ چیز جو انسانی افکار پر اپنا اثر چھوڑتی ہے سب کے سبکو انکی مدد کیلئے آمادہ ہونا چاہیئے، اور اس کیلئے شیرازی طرز فکر ایک بہترین آپشن ہے۔ گذشتہ چند دنوں میں ایک مخصوص طرز فکر کے منصوبوں کے کھلنے اور انکی جانب سے کربلا کو منحرف انداز میں پیش کرنے کے سلسلہ سے تابا توڑ آنے وائرل ہونے والے بیانات کو دیکھا جائے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ گذشتہ کچھ دنوں میں جو بھی ہوا ہے وہ چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ یہ وہی سب کچھ ہے جسے ہالورسن نے بیان کیا ہے اور اسی منصوبہ کا حصہ ہے جو اوپر بیان کیا گیا ہے، اپنی بات کے ثبوت میں ہم کہہ سکتے ہیں، مثلا یزیدی حکومت، کا اشاریہ وہی ہے جس سے اس طرز فکر کے حامی ایران کے نظام کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔ دوسری طرف مظلومیت کے عنصر پر تاکید کرنا اور اپنی مظلومیت کا اثبات اسی پروجیکٹ کا ایک ایسا حصہ ہے جس سے آگے بڑھ کر اس خبیث منصوبہ کی تکمیل کی جا سکتی ہے، چنانچہ ایک خاص طرز فکر کے عالم کے ہارٹ اٹیک کے چلتے گزر جانے کے بعد ہالورسن کا اشارہ یہ ہے کہ انکی مظلومیت کو پیش کیا جائے اور انکے قتل کی افواہوں کو لوگوں میں پھیلایا جائے، جس پر کچھ سالوں قبل عمل بھی ہوا پہلے یہ کام عربی اور فارسی میں ہوا ادھر اردو اور انگریزی میں مسلسل انہیں افکار کو پھیلانے کی کوشش کی جا رہی ہے جن میں روح کربلا نہ ہو بس کربلا کا نام ہو اسی کے ساتھ تبرائی اسلام پر افراط کی حد تک تاکید وہ مفروضہ ہے جو طولانی مدت اسکتباری منصوبہ میں اسکتبار کی اس علاقہ میں تعاون و مدد کا سبب ہے، اس وقت مرجع عالی قدر جہان تشیع آیت اللہ سیستانی حفظہ اللہ و رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ خامنہ ای کی کوشش ہے کہ برادران اہلسسنت کے اختلافات کو سمجھتے ہوئے انکے ساتھ ایک محترمانہ تعلقات کی داغ بیل ڈالی جائے، چنانچہ اور برادران اہلسنت کے ساتھ مل کر علاقے کے توازن کو اپنے حق میں کرتے ہوئے دشمن سے مقابلہ کے لئے مل جل کر آگے بڑھنے کی خاطر جہاں مرجعیت کوششیں کر رہی ہے، جہاں اسکی کی کوشش ہے کہ برادران اہل سنت کو مشترکہ دشمن سے مقابلہ کی سمت لے جایا جائے وہیں اس کے مقابل کچھ بہروپئیے خاص نہج کی تبرائی فکر کو اختلافات کو بھڑکانے کے ساتھ علاقے میں شیعوں اور اہلسنت کے مابین علاقائی جنگ بھڑکانے کے لئے استعمال کر رہے ہیں

سلطنت عمان کے دارالحکومت مسقط کی بارگاہ امام علی ابن ابی طالب پر ہونے والے تکفیری حملوں کو اسی تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے ۔ ان تمام باتوں کا مقصد کسی خاص گروہ کی توہین اور کسی خاص عقیدے کے حامل افراد کے جذبات کا مشتعل کرنا نہیں ہے بلکہ اپنی ذمہ داری کو ان نازک حالات میں سمجھنا ہے۔

جہاں طول تاریخ میں کربلا کے مقابل ہار سے دوچار ہونے کی بات جدید و مارڈن یزیدیت نے کربلا کو کربلا کے خلاف استعمال کرنے کی سازش سے رچائی ہے ایسے میں ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ سوچیں ہم کہاں کھڑے ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں ہم کسی کا دفاع کر رہے ہوں، کسی کی مظلومیت کا رونا رو رہے ہوں لیکن خیمہ حسین (ع) میں نہ ہو کر مصنوعی کربلا کے اس عالیشان محل میں ہوں جہاں چہرے پر نقاب ڈالے ابن زیاد ہماری بصیرت کا امتحان لے رہا ہو۔ یقینا یہ ایک سخت گھڑی ہے جب اپنے ہی کربلا کا نام لیتے رہیں لیکن اس کی روح کا سودا کر لیں، جب اپنے ہی نام حسین (ع) کا لیں لیکن جانے انجانے دشمن کے بہکاوے میں آکر کام وہ کریں جو یزیدیت کی تقویت کا سبب ہو، جب اپنے ہی اپنی غیرت و حمیت کو بیچ کھائیں تو انہیں ذلتوں کے گڑھے میں جانے سے کوئی نہیں روک سکتا ہے، جب اپنے ہی دشمن کی بساط کے مہرے بن جائیں تو انسان کس سے فریاد کرے، سوائے اسکے کہ ایک بار پھر اپنے خون میں ڈوبے، زخمی و غریب عصر عاشور پشت فرس پر ڈگمگاتے آقا کو آواز دی جائے، شاید ہماری نحیف سی یہ آواز ہمارے درد و کرب کی داستان کو ہمارے آقا تک منتقل کر دے۔

حسین آؤ کہ اب شہادت کا لفظ معنی بدل رہا ہے

حسین آؤ کہ وقت انساں کو اپنے ہاتھوں مسل رہا ہے

حسین آؤ کہ اب

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .