۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۸ شوال ۱۴۴۵ | Apr 27, 2024
کانفرنس تنظیم

حوزہ/ حجۃ الاسلام والمسلمین صفی حیدر زیدی نے کہا: کربلا کے اسی دردناک واقعے کے مختلف نکات پر روشنی ڈالنے اور معاشرے میں کسی بھی قیمت پر امن وانصاف کے قیام کی کوشش ہے یہ سہ روزہ کانفرنس۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، سکریٹری تنظیم المکاتب گولہ گنج لکھنؤ مولانا سید صفی حیدر زیدی نے ’’کربلا مظلوم کی حمایت اور امن و انصاف کی سرمدی تحریک‘‘ کے موضوع پر سہ روزہ بین الادیان کانفرنس میں شرکت کی، انہوں نے کہا: انصاف، ظالم و جابر، مجرم، دہشت گرد اور برائیوں کے مجسمہ تاناشاہ یزید نے آج سے تقریباً ساڑھے چودہ سو سال پہلے10 ؍ محرم 61 ہجری کو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نواسے امام حسین علیہ السلام ، انکے گھر والوں اور ساتھیوں کہ جن میں ۸۰ برس کے بوڑھے سے لیکر 6 ماہ کا شیرخوار معصوم بچہ بھی شامل تھا ، کربلا کے میدان میں بے جرم و خطا تین دن کا بھوکا پیاسا صرف اس بات پر شہید کروا دیا تھا کیوں کہ امام حسین علیہ السلام نے یزید جیسے ظالم حاکم کو ماننے اور اس کے راستے پر چلنے سے صاف انکار کر دیا تھا۔ چونکہ امام حسین علیہ السلام اچھی طرح جانتے تھے کہ یزید انہیں برائیوں کا مجسمہ ہے جن برائیوں کو ختم کرنے کے لئے ان کے نانا حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ؐ اور بابا امیرالمومنین امام علیؑ نے ہر طرح کی قربانی دی تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ جیسے ہی ان پر یزید کو خلیفہ مان کر بیعت کرنے کا دباؤ بنایا گیا انہوں نے اپنا گھر اور وطن یہ کہہ کر چھوڑ دیا ۔
" بس میں اپنے نانا کی امت کی اصلاح کے لئے نکلا ہوں، میرا ارادہ یہ ہے کہ لوگوں کو نیکیوں کا حکم دوں اور برائیوں سے روکوں اور اپنے نانا اور بابا علی ؑبن ابی طالبؑ کی سیرت پر چلوں" ۔
انھوں نے واضح کر دیا کہ وہ یزید کی بات نہیں مانیں گے اور اب وہ اپنے نانا اور والد حضرت علیؑ کی طرح ہر قسم کی قربانی دینے کے لئے نکلے ہیں، آپ نے جو عہد کیا تھا اپنی اور اپنی اولاد اور اپنے ساتھیوں کی جانیں دے کر اس کو پورا کر دکھایا۔ کربلا کے اسی دردناک واقعہ کی یاد ہر سال محرم کے مہینے میں عزاداری اور تعزیہ داری کی شکل میں منائی جاتی ہے۔اور سڑکوں پر جلوس نکال کر دنیا بھر کے لوگوں کو اس دردناک واقعہ سے آگاہ کیا جاتا ہے۔ کربلا کے اسی دردناک واقعہ کے مختلف نکات پر روشنی ڈالنے کے لیے ہندوستان کے سب سے بڑے شیعہ دینی ادارہ تنظیم المکاتب نے 22، 23اور 24جولائی کو بعنوان ’’کربلا مظلوم کی حمایت اور امن و انصاف کی سرمدی تحریک‘‘ لکھنؤ میں پہلی بار سہ روزہ انٹرفیتھ کانفرنس کا انعقاد کیا ہے۔ جس میں مذکورہ عنوان کے ذیل میں کئی عناوین دئیے گئے ہیں جن پر پورے ملک سے مختلف مذاہب کے مذہبی رہنما اور دانشوران اپنے خیالات کا اظہار کریں گے۔’’ کربلا امن و انصاف کی سرمدی تحریک‘‘ کا عنوان اس لئے چنا گیا ہے کہ امن اور انصاف انسانیت اور سماج کی اہم ترین ضرورت ہے۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ اسلام کا مطلب ہی امن اور سکون کے ہیں اور یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ عدل و انصاف کے بغیر امن و سکون قائم نہیں رہ سکتا، یہی بنیادی وجہ ہے کہ امن اور سکون سے محبت کرنے والوں کی حالات چاہے کتنے ہی خراب کیوں نہ ہوں وہ اپنے اپنے طریقے سے امن و سکون قائم کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور حالات کی پرواہ نہیں کرتے۔ نیکی پھیلانے اور برائیوں کو ختم کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اس راہ میں ہر طرح کی قربانیاں دیتے ہیں تاکہ معاشرے میں امن و انصاف قائم ہو۔حضرت محمدؐ کے نواسے امام حسین علیہ السلام نے اپنے نانا اور بابا امام علیؑ کی امن و انصاف کی تحریک کو آگے بڑھانے کے لئے اسلام کے بھیس میں چھپے برائیوں کے مجسمے یزید جیسے ظالم اور دہشت گرد حاکم کے سامنے کہ جس کے سامنے سب خاموش تھے اپنے اہل و عیال اور ساتھیوں کے ساتھ کھڑے ہوئے جن کی تعداد صرف 72 تھی، ان کے ساتھ گھر کی خواتین اور چھوٹے چھوٹے بچے بھی تھے۔ امام حسین علیہ السلام نے امن و انصاف قائم کرنے کے لئے جس وقت قیام کیا اس وقت انہیں نہ مدینہ میں پناہ ملی اور نہ ہی مکہ میں۔ کوفہ والوں نے ساتھ دینے کے لئے خط لکھ کر بلایا۔18000 لوگوں نے وعدہ بھی کیا لیکن یزید کے گورنر ابن زیاد نے ایسا دباؤ بنایاکہ اہل کوفہ نے امام حسینؑ کے قاصد کو جن کا نام مسلم بن عقیل تھا ۔ جنہیں امام حسینؑ نےان کے پاس بھیجا تھا۔ یزید کے لشکر کے خوف اور دہشت کے سبب انہیں تنہا چھوڑ دیا اور خود اپنے گھروں میں ڈر کر بیٹھ گئے۔ امام حسینؑ کے قاصد جناب مسلمؑ اور ان کے دو معصوم بچوں کو کوفہ میں یزیدی فوج نے بے دردی سے شہید کر دیا۔ امام حسین جو مکہ مکرمہ سے کوفہ آرہے تھے، کوفہ پہنچنے سے پہلے ہی کربلا کے میدان میں یزیدی فوج نے گھیر لیا اور تین دن تک بھوکا پیاسا رکھ کر شہید کر دیا۔ شہداء کے سر قلم کرنے کے بعد انکی لاشوں پر گھوڑے دوڑائے اور زندہ بچ جانے والی عورتوں، بچوں اور بیمار بیٹے کو قید کیا اور شہداء کے کٹے ہوئے سروں کے ساتھ دہشت گرد حاکم یزید کے دربار میں پیش کیا۔جہاں اس نے اپنی اس کامیابی پر جشن منایا اور یہ شعر پڑھا جس کا مفہوم یہ ہے کہ ’’کاش بدر و احد میں مارے جانے والے ہمارے باپ دادا اور خاندان والے زندہ ہوتے تو بہت خوش ہوتے کہ میں نے محمدؐ کے خاندان سے کیسا انتقام لیا ہے۔۰" یزید نے دین اسلام کا مذاق اڑاتے ہوئے یہاں تک کہہ ڈالا کہ ’’نہ کوئی وحی آئی اور نہ ہی کوئی کتاب نازل ہوئی بلکہ محمدؐ نے حکومت حاصل کرنے کے لئے صرف ایک ڈھونگ رچا تھا تھا۔‘‘ یزید نے اپنے ان اشعار سے یہ ثابت کر دیا کہ وہ اور اس کا خاندان اسلام کے بھیس میں چھپے ہوئے اسلام کے دشمن ہیں جنہوں نے حکومت کےحصول کی خاطر اسلام کا لبادہ اوڑھ لیا تھا۔
مدینہ سے نکلنے سے پہلے امام حسینؑ نے اپنے پیغام میں واضح کر دیا تھا کہ وہ جنگ کے لیے نہیں بلکہ امن اور عدل و انصاف کے لئے نکل رہے ہیں۔ آپؑ نے اپنے آخری وقت میں یزیدی فوج سے پوچھا کہ تم مجھے کیوں قتل کرنا چاہتے ہو؟ میں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے؟ میرا قصور کیا ہے؟ ان لوگوں نے جواب دیا ’’آپ کے والد علی ؑ کے بغض میں‘‘ کیونکہ امام حسین ؑ کے والد حضرت علی ؑکو بھی امن و انصاف قائم کرنے کے جرم میں ایک دہشت گردانہ حملے کے ذریعہ مسجد کوفہ میں نماز صبح کی ادائیگی کے دوران شہید کر دیا گیا تھا۔ کیونکہ وہ برے لوگوں کے سامنے امن وانصاف پر قائم رہتے تھے۔امام حسینؑ اپنے نانا اور والد گرامی کے راستے پر گامزن تھے جو ان کے والد حضرت علیؑ کے دشمنوں کو پسند نہیں تھا کیونکہ یزید اور یزیدی بھی عدل و انصاف کے بدترین دشمن ہونے کے ناطے حضرت علیؑ اور امام حسینؑ کے سخت ترین دشمن تھے۔ اس کے لئے تخت خلافت پر بیٹھے ہوئے یزید نے یہ شرط رکھی کہ ہر شخص یزید کو خلیفہ سمجھ کر اس کے راستے پر چلے۔ اس شرط کو رد کرتے ہوئے امام حسینؑ نے اعلان کیا کہ ایسا کرنا ذلت کی زندگی ہے اس سے بہتر عزت کی موت ہے۔ آپ نے جو کہا تھا اسے کر دکھایا۔
کربلا کے اسی دردناک واقعے کے مختلف نکات پر روشنی ڈالنے اور معاشرے میں کسی بھی قیمت پر امن وانصاف کے قیام کی کوشش ہے یہ سہ روزہ کانفرنس۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .