حوزہ نیوز ایجنسی |
اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم۔بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الحمد لاھلہ والصلوٰۃ علی اھلھا۔اما بعد:
اللہ تبارک و تعالیٰ قرآنِ مجید فرقانِ حمید میں ارشاد فرماتا ہے:
یَرْفَعِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ آمَنُوْا مِنْکُمْ وَالَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ(سورۃ المجالۃ آیت ۱۱)
ترجمہ – اللہ ایمان والوں کے اور ان کے جن کو علم دیا گیا درجے بلند فرمائے گا (سورہ مجادلہ آیت ۱۱)
مولائے کائنات حضرت علیؑ ابن ابی طالب علیہ السلام نے فرمایا ہے:
رضیناقسمۃ الجبار فینا
لنا علم و للجہال مال
ترجمہ: ہم اللہ کی اس تقسیم پر راضی ہیں کہ اللہ نے ہمارے لیے علم اور جاہلوں کے لیے مال پسند فرمایا۔
ایک روایت میں حضرت ابن عباس سے منقول ہے کہ:علم انبیاء کی میراث ہے اور مال فرعون کی''۔
’’عالم کی دنیا والوں کے دربار میں آمد ورفت:کہتے ہیں عالم کو کسب معاش تو کرنا چاہئے لیکن جس طرح ایک دنیادار اپنے اوپر دنیا کو طاری کرلیتا ہے اور ہمہ وقت دنیا داری میں مصروف رہتا ہے اور ہر کام میں اس کے پیش نظر یہ بات رہتی ہے کہ جس میں چار پیسہ کا نفع ہو وہ کام کرو۔ اگر عالم بھی اسی دنیا کے پیچھے بھاگے تو یہ چیز اس کے منصب جلیل سے میل نہیں کھاتی ہے، اپنی دنیا بنانے اور دنیوی اشیاء کے حصول کیلئے مالداروں کی طرف رخ کرنا یہ اپنی مٹی خود پلید کرنا ہے اور آج جو علماء کی ذلت و رسوائی کی بنیادی وجوہات ہیں ان میں ایک بہت بڑی وجہ علماء کا مالداروں سے دنیاوی اغراض کی بناء پر رابطہ رکھنا بھی ہے‘‘۔
’’دنیا پرست علماء راہِ خدا کے لٹیرے ہیں‘‘(گناہان کبیرہ جلد اول صفحہ ۱۶۰ شہید محراب آیۃ اللہ دست غیب ؒ)
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ جب کسی عالم کو دیکھو کہ وہ دنیا کی طرف متوجہ ہے تو ہرگز اس کی پیروی نہ کرو۔اس لئے کہ جو شخص جس چیز کو دوست رکھتا ہے اسی چیز کو جمع بھی کرتا ہے پس جس نے دنیا جمع کی ہو وہ اوروں کو سوائے دنیا کے اور کیا دے سکتا ہے۔امام ؑ سے منقول ہے کہ جناب رسول خدا ؐ نے فرمایا کہ میری امت میں دو قسم کے لوگ ایسے ہیں کہ اگر وہ صالح ہیں تو ساری امت صالح ہوگی اور وہ فاسد ہیں تو ساری امت فاسد ہوجائے گی۔لوگوں نے سوال کیا ،یا رسول اللہ ! وہ دو کون ہیں ؟فرمایا علماء اور سلاطین ‘‘(روح الحیات علامہ محمد باقر مجلسی ؒ،صفحہ ۲۵۴)
حفیظ بنارسی کا شعر ہے:
تدبیر کے دست رنگیں سے تقدیر د رخشاں ہوتی ہے
قدرت بھی مدد فرماتی ہے جب کوشش انساں ہوتی ہے
(الحاج مولانا )شیخ ابن حسن املوی کربلائی [صدرالافاضل ،واعظ]
نام : ابن حسن
تاریخ پیدائش : ۱۵؍ اپریل ۱۹۵۴ء
جائے پیدائش:محلہ محمود پورہ۔موضع املو۔مبارکپور۔ضلع اعظم گڑھ۔(یوپی)انڈیا
والد کا نام : حاجی علی حماد صاحب کربلائی مرحوم ابن حاجی عبد المجید صاحب مرحوم۔
والدہ کا نام : مرحومہ عزیز النساء بنت حاجی صفدرحسین صاحب مرحوم۔
زوجہ کا نام : محترمہ یار جہاں بانو بنت حاجی محمد یاسین صاحب مرحوم( محلہ پورہ خواجہ۔مبارکپور۔ضلع اعظم گڑھ۔یوپی)
اولاد : تین بیٹے (۱) ماسٹر ساغر حسینی بی،کام۔گورنمنٹ ٹیچر۔ (۲) مولانا مسرور فیضی ۔حال متعلم حوزہ علمیہ امام خمینیؒ ،قم،جمہوری اسلامی ایران۔(۳)عباس احمد غدیری۔بی،اے،پروپرائٹر ساغر کمپیوٹر سنٹر ،روڈویز،مبارکپور)اور ایک بیٹی۔ڈاکٹر شیخ تنویر ذاکیہ۔پی ایچ ڈی۔ایم،اے فارسی ۔گولڈ میڈلسٹ۔نیٹ ؍جے آر ایف ۔ریسرچ اسکالر لکھنو یونیورسٹی۔اور جامعۃ الزہراٗ قم ایران کی بھی فارغ التحصیل)
مستقل پتہ : حسن منزل۔محلہ محمود پورہ۔موضع و پوسٹ املو۔(مبارکپور)ضلع اعظم گڑہ (یو پی )انڈیا۔پن کوڈنمبر276404
موجودہ پتہ : مکتبۃ الحسن، A/54گلمہر سوسائٹی۔نزد بی بی تالاب۔وٹوا۔احمد آباد۔گجرات ۔پن کوڈ 382440
تعلیم : ابتدائی تعلیم املو ہی میں اہل حدیث کے مدرسہ انوارلعلوم میں پھر شیعہ مدرسہ باب العلم مبارکپور میں حاصل کی ۔اعلی دینی تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے ۱۹۶۶ء میں مدرسہ سلطان المدرس و جامعہ سلطا نیہ لکھنؤ میں داخلہ لیا۔اور وہاں سے صدرالافاضل کی اعلیٰ سند حاصل کی۔اور عربی و فارسی مدرسہ یوپی بورڈ الہ آباد سے مولوی۔عالم۔ منشی۔ فاضل کے امتحانات پاس کٖٖئے۔اور لکھنؤ یونیورسٹی سے عالم ۔فاضل۔دبیر ماہر۔دبیر کامل کے امتحانات پاس کٖئے۔اور جامعہ اردو علی گڑہ سے ادیب۔ادیب ماہر۔ادیب کامل کے امتحانات پاس کئے۔ اور شیعہ عربی کالج لکھنؤ سے عمادالادب کی سند حاصل کی۔
جامعۃ التبلیغ لکھنؤ:حجۃ الاسلام مولانا مرزا محمد عالم صاحب قبلہ لکھنوی صدرالافاضل ،مجتہد( طاب ثراہ) نے جب ادارہ جامعۃ التبلیغ قائم فرمایا اور غفرانمآب ؒ کے امامباڑہ میں اس کا افتتاح کیا تو اس وقت میں ناچیز شیخ ابن حسن املوی واعظ ۔مولانا شیخ محمد داؤد صاحب قبلہ واعظ املوی۔مولانا شیخ تفضل مہدی صاحب قبلہ واعظ معروفی مرحوم۔مولانا شیخ اشفاق حسین صاحب قبلہ جلال پوری مرحوم۔مولانا سید ذوالفقار حیدر اعظمی صدرالافاضل۔مولانا سید ذوالقدر قدرؔ فیض آبادی صدرالافاضل مرحوم وغیرھم دور اول کے طلبہ میں شامل تھے۔اس وقت ہم لوگ سلطان المدارس کے باعتبار درجہ بڑے طلبہ میں شمار کئے جاتے تھے ،لہٰذا مولانا مرزا محمد عالم صاحب قبلہ مرحوم نے ہم لوگوں سے فرداً فرداً ملاقات کر کے بہت اصرار کیا کہ آپ لوگ جامعۃ التبلیغ میں داخلہ لے لیجئے تاکہ مدرسہ جاری ہو جائے۔اور ایک مہینہ کا سب کو پیشگی وظیفہ بھی عنایت فرمایا تھا۔
اور ۱۹۷۴ء میں ادارہ عالیہ مدرستہ الواعظین لکھنؤ میں داخلہ لیا جہاں تین سالہ تعلیمی اور دو سالہ تبلیغی کورس پورا کیا اور واعظ کی سند کے حقدار ہوئے۔
قلمی خدمات : تقریباََ آٹھ سا ل تک ماہنامہ الواعظ لکھنؤ کے مدیر مسؤل کے فرائض انجام دئے۔حجتہ الاسلام مولانا سعادت حسین خان صاحب قبلہ ؒ الواعظ کے نگران اعلیٰ تھے۔میں الواعظ کا کام اس وقت بھی کرتا تھا جبکہ مدرستہ الواعظین میں داخلہ بھی نہیں ہوا تھا۔اس وقت مولانا مسرور حسن صاحب قبلہ واعظ مبارکپوری ؒ کا نام مدیر مسئول کی حیثیت سے چھپتا تھا۔مگر مولانا سعادت حسین صاحب قبلہؒ اور متولی منتظم جناب مہاراجکمار صاحب مرحوم و مغفور کے حکم کے بموجب ساری ذمہ داری میں ہی انجام دیتا تھا۔جب مدرستہ الواعظین میں بحیثیت طالبعلم داخل ہوا تو بھی عرصے تک مولانا مسرور حسن صاحب قبلہ کا نام مدیر مسئول کے طور پر چھپتا تھا۔بعد میں مولانا مسرور صاحب کا نام مدیر اعزازی اور حقیر کانام مدیر مسئول کی حیثیت سے با قاعدہ چھپنے لگا۔
مختلف و متعدد اردو اور گجراتی وغیرہ کے اخبارات و رسائل میں مذہبی مضامین لکھے۔تاج پور مومن جماعت، احمد آباد میں قیام کے دوران ایک سہ ماہی گجراتی رسالہ بنام’’ حسنات‘‘ بھی جاری کیاتھا جس کے ا ڈیٹر،پبلیشر وغیرہ خود میں ہی تھا۔اس میں اکثر مضامین گجراتی رسم الخط میں اردو کے ہوتے تھے۔عوام میں یہ رسالہ بہت مقبول ہو رہا تھا مگر مڈگاسکر (افریقہ) چلے جانے کی وجہ سے سلسلۂ اشاعت جاری نہ رکھ سکا۔ البتہ حسینی پنچانگ کے نام سے دینی مذہبی تبلیغ و ترویج کے مقصد کے تحت ایک گجراتی سالانہ تبلیغی رسالہ جنتری کی شکل میں بھی جاری کیا تھا،اور اس کے لئے ’’ مومن پبلیکیشن‘‘ بھی تشکیل دیا تھا اس لئے یہ جنتری ہر سال شائع ہوتی ہے۔اور بحمد للہ تقریباًپورے گجرات میں بغرض ایصال ثواب مفت تقسیم ہوتی ہے ۔ اور درج ذیل رسالے اور کتابیں تصنیف و تالیف کیں۔جو زیور طبع سے آراستہ ہو کر شایع بھی ہوئیں:۔
۱۔ اللہ (گجراتی،طبع شدہ)
۲ ۔شہید کربلا ً
۳ ۔ تحفہ سلینا ً
۴ ۔ شیعہ دینیات ً
۵ ۔ حسینی پنچانگ ً
۶ ۔ حسنات،سہ ما ہی گجراتی رسالہ ً
۷۔ اقبال دعا ً
۸۔ بارہ امام ٗ ً
۹ ۔ وظائف المومنین ً
۱۰ ۔ غیبت امام ٗ اور ہم ً
۱۱ ۔ گلدستہ اعمال ً
۱۲ ۔ مناسک حج و زیارات ً
۱۳ ۔ اسلام اور عیسائیت (اردو،طبع شدہ)
۱۴ ۔ مسائل حج ،ترجمہ گجراتی ،مطابق فتاویٰ آیۃ اللہ خامنہ ای[غیر مطبوعہ]
۱۵۔ تاریخ مدرسۃ الواعظین لکھنؤ،جلد اول۔ [ اردو،طبع شدہ]
۱۶۔ تاریخ مدرسۃ الواعظین لکھنؤ،جلد دوم ً
۱۷۔ تاریخ مدرسۃ الواعظین لکھنؤ،جلد سوم ً
۱۸۔ تاریخ مدرسہ سلطان المدارس و جامعہ سلطانیہ لکھنؤ۔جلد اول ً
۱۹۔تاریخ مدرسہ سلطان المدارس و جامعہ سلطانیہ لکھنو۔جلد دوم ً
۲۰۔تاریخ مدرسہ سلطان المدارس و جامعہ سلطانیہ لکھنو،جلد سوم ً
۲۱۔ تاریخ مدرسہ باب العلم مبارک پور ً
۲۲۔تاریخ جامعہ جوادیہ ،بنارس ً
۲۳۔ تاریخ جامعہ باب العلم ،بڈگام (کشمیر) ( زیر تالیف)
۲۴۔تاریخ وثیقہ عربی کالج ،فیض آباد ً
۲۵۔ آخرت کی کھیتی[گجراتی رسم الخط] (زیر طبع)
تبلیغی خدمات :بلہرہ اسٹیٹ ضلع بارہ بنکی۔زید پور۔فتح پور ہنسوا۔اسندرہ۔ویلور۔مدراس۔حیدرآباد۔بنگلور۔ناگل پور۔کیرا ،کچھ۔لیمڑی۔وجےپڑی۔اونا،سوراشٹر۔کوڈی نار۔وٹوا۔احمدآباد۔دھولکہ۔داندوپورالہ آباد۔ آگرہ۔بریلی۔سہارنپور۔مٹیا برج کلکتہ۔ ممبئی ،کشمیر وغیرہ
اور بیرون ملک امریکہ۔لندن (انگلینڈ)۔مڈگاسکر۔موریشش۔افریقہ ۔اورعراق۔ایران۔ سعودی عرب بسلسلۂ حج و زیارات وغیرہ کے تبلیغی دورے کئے اور دینی خدمات انجام دیں۔
مڈگاسکر (افریقہ)میں آپ کی ایک ۱۷؍ربیع الاول کی محفل کی تقریر جس میں کثیر تعداد میں ملگاسی حضرات بھی موجود تھے وہاں کے ٹیلی ویژن پر مسلسل دو روز تک نشر ہوئی۔
احمد آباد (گجرات،انڈیا) میں ایک مرتبہ آپ کی عشرۂ محرم کے سلسلہ میں ۴؍ محرم کی مخصوص پروگرام ’’ العطش‘‘ کی مجلس گجرات دور درشن پر دو سال نشر ہوئی۔
تعمیری خدمات: اونا ضلع جونا گڑھ سوراشٹر ،گجرات میں بخاری محلہ میںشیعہ اثنا عشری مدرسہ کے لئے معروف وکیل مسٹر جی،بی، نقوی ایڈوکیٹ اور ان کے چھوٹے بھائی جناب اعظم میا ں صاحب اور ان کی دو
بہنوں(ایک اونا ہی میں رہتی تھیں یعنی جناب محمد جعفر صاحب سلمہ ایڈو کیٹ کی والدہ،اور دوسری بہن کوڈی نار میں رہتی تھیں) نے میری خواہش پر اپنی ایک قطعہ افتادہ آراضی باقاعدہ تحریری طور پر وقف کردی اور مجھ حقیر کو اس کا متولی وقف نامہ میں قرار دیا۔پھر حجۃ الاسلام والمسلمین آقائی سید محمد الموسوی صاحب قبلہ مد ظلہ العالی کے دس ہزار روپئے اور دیگر مومنین کے تعاون سے مدرسہ کی عمارت فقط میری جدو جہد سے تعمیر ہوگئی۔اس زمانہ میں ایران کلچر ہاؤس نئی دہلی میں بھی اعلیٰ ذمہ داران حقیر کی مذہبی و قومی فعالیت سے شناسائی رکھتے تھے۔اور احمد آباد میں ایرانی دانشجویان سے بھی دوستانہ تعلقات تھے مثلاً آقائی لطیف موسوی دام ظلہ اور آقائی حسن دام ظلہ جو کہ گجرات یونیورسٹی سے غالباً پی ایچ ڈی کر رہے تھے۔حقیر کی ترغیب و توجہ کے مطابق وٹوا ،احمد آباد میں ایک شاندا ر دینی مدرسہ اور مسجد کے لئے انجمن امامیہ کے نام پر زمین خریدی،پہلے مسجد کی تعمیر ہونا طے پایا ۔اس کے لئے ایک عظیم الشان پروگرام اس خرید کردہ زمین پر رکھا گیا جو مدرسہ و مسجد کی غرض سے لی گئی تھی۔اس پروگرام کی صدارت حسب اصرار دانشجویان ایرانیان حقیر نے کی تھی۔اس پروگرام میں احمدآ باد شہر و اطراف سے کثیر تعداد میں خوجہ،سادات اور مومن جماعت کے افراد شریک ہوئے تھے۔آخر میں ایرانی طلباء کی استدعا پر میں نے ہی مسجد فاطمۃ الزہرا ؑ کا سنگ بنیاد رکھا تھا۔اس موقع پر وٹوا کے امام جمعہ و جماعت جناب مولانا شیخ علی نقی صاحب قبلہ گھوسوی اور دیگر علماء بھی موجود تھے۔بعد میں مدرسہ کی تعمیر کے سلسلہ میں انجمن امامیہ کے ممبران میں کچھ اختلافات پیدا ہوگئے جس کی بنا پر مدرسہ کے لئے علاحدہ زمیں خریدی گئی ۔اس کے لئے حجۃ الاسلام مولانا سید عابد حسین صاحب قبلہ کراروی طاب ثراہ نے کافی جد و جہد کی اور ایران کلچر ہاؤس کے مکمل تعاون سے حوزۂ علمیہ امام خمینیؒ تعمیر ہوگیا۔ان موقعوں کی تصویروں کا البم ایران کلچر ہاؤس اور سفارت خانہ میں بھی آقائی شیخ رضا عطار سفیر ایران کے وقت میں میں نے وہیںدیکھی تھی ،آج بھی ہونی چاہئے۔ غرض اس کے تعمیر و افتتاح میں حقیر برابر سے مولانا عابد حسین صاحب قبلہ ؒ کے شریک کار رہا تھا کیونکہ دینی مدرسہ کا قیام میرے تبلیغی مشن کا اہم ترین حصہ تھا اور ہے۔ مولانا سید عابد حسین صاحب قبلہ اس کے پرنسپل ہوگئے اور باقاعدہ تعلیم کا سلسلہ ان کی نگرانی میں شروع ہو گیا۔ خدا شکر ہے کہ آج یہ حوزہ مولانا عابد حسین صاحب قبلہ کے داماد اور صاحبزادوں کے ہاتھوں میں جاری و ساری ہے۔
اساتذہ : سرکار نادرۃ الزمن علامہ مولانا سید ابن حسن نونہروی صاحب قبلہ طاب ثراہ۔حجۃ الاسلام مولانا سید علی صاحب قبلہ آل باقر العلومؒ۔حجۃ الاسلام مولاناسید محمد صالح صاحب قبلہ آل فقیہ اعظم ؒؒ۔حجۃ الاسلام مولانا سید کلب عابد صاحب قبلہؒ۔حجۃ الاسلام مولانا سعادت حسین خان صاحب قبلہؒ۔ حجۃ الاسلام مولانا سید محمد صادق صاحب قبلہ آل نجم العلماؒ۔مولانا سید محمد مہدی صاحب قبلہ زیدپوریؒ۔مولانا سید الطاف حیدر صاحب قبلہ محمدآبادیؒ ۔مولانا سید اخلاق مہدی صاحب قبلہ زیدپوریؒ۔مولانا مرزا غلام رضا صاحب قبلہؒ ۔ مولانا شیخ فیاض حسین صاحب قبلہ مبارکپوریؒ۔مولانا عبدالحمیدشاہ صاحب قبلہ ؒ مبارکپوری ۔مولانا شیخ علی ارشاد صاحب قبلہ مبارکپوریؒ۔مولانا شیخ زین العابدین صاحب قبلہ کوپاگنج۔حجۃ الاسلام مولانا سید وصی محمد صاحب قبلہ فیض آبادی ؒ۔حجۃ الاسلام مولانا سید ضیا ء ا لحسن صاحب قبلہ حیدرآبادی۔وغیرھم۔
ہمدرس ساتھی : جناب مولانا شیخ محمد داؤ د صاحب قبلہ املوی واعظ۔جناب مولانا شیخ تفضل مہدی صاحب قبلہ معروفی واعظ مرحوم۔جناب مولانا سید ذوالفقا ر حیدر صاحب قبلہ اعظمی۔
اساتذہ :۔ مولانا عبدالحمید شاہ صاحب ۔مولانا شیخ زین العابدین صاحب قبلہ مد ظلہ۔مولانا سید الطاف حیدر صاحب قبلہ مرحوم۔حجۃ الاسلام مولانا سید کلب عابد صاحب قبلہ مرحوم۔حجۃ الاسلام مولانا سید علی صاحب قبلہ مرحوم آل باقر العلوم ؒ۔حجۃ الاسلام مولانا سید محمد صادق صاحب قبلہ مرحوم آل نجم العلماءؒ۔حجہ الاسلام مولانا سید محمد صالح صاحب قبلہ مرحوم۔حجۃ الاسلام مولانا سعادت حسین خان صاحب قبلہ مرحوم۔حجۃ الاسلام مولانا سید ضیاء الحسن صاحب قبلہ حیدرآبادی۔حجۃ الاسلام مولانا سید وصی محمد صاحب قبلہ مرحوم۔سرکار نادرۃ الزمن مولانا سید ابن حسن صاحب قبلہ نونہروی مرحوم وغیرھم۔
احباب و رفقا ء:رٖٖئیس الواعطین جناب مولانا سید کرار حسین صاحب قبلہ واعظ مرحوم۔حجۃ الاسلا م مولانا شیخ مسرور حسن صاحب قبلہ واعظ مبارکپوری مرحوم۔مولانا شیخ محمد مظہر حسین صاحب قبلہ معروفی واعظ۔مولانا سید محسن رضا صاحب قبلہ واعظ ۔مولانا سید اختیار حسین صاحب قبلہ واعظ مرحوم۔مولانا شیخ قنبر علی صاحب قبلہ مبارکپوری۔مولانا شیخ ناظم علی صاحب قبلہ واعظ خیر آبادی۔حجۃ الاسلام مولانا سید علی قاسم رضوی صاحب قبلہ۔مولانا شیخ حسن مہدی صاحب قبلہ واعظ مصطفیٰ آبادی۔جناب مولانا سید محمد جابر صاحب قبلہ واعظ جوراسی۔ حجۃ الاسلا م مولانا سید حسین مہدی حسینی صاحب قبلہ واعظ غازی پوری۔حجہ الاسلام مولانا شیخ ممتاز علی صاحب قبلہ واعظ غازی پوری۔مولانا مظفر سلطان حسن ترابی صاحب قبلہ مبارکپوری۔مولانا سید محمد عباس صاحب قبلہ واعظ کشمیری۔مولانا سید مرید حسین صا حب قبلہ کشمیری۔حجۃ الاسلام مولانا آغا سید حسن صاحب قبلہ آغاٖے بڈگام کشمیر۔مولانا سید اسد رضا صاحب قبلہ پٹنہ بہار۔حجۃ الاسلام مولانا سید عابد حسین صاحب قبلہ کراروی ؒ۔حجۃ الاسلام مولانا شیخ محمد حسن صاب قبلہ معروفی،لندن۔وغیرہ
خصائص و خصائل:اسلامی تعلیمات میں اصول دین و فروع دین کے بعد یعنی عقائد و اعمال میں قرآن و اہل بیت علیہم السلام کی سیرت و سنت کی روشنی میں جس چیز کو میں نے اپنے استطاعت و استعداد کے مطابق سب سے زیادہ اہم اور لازم قرار دیا وہ ہے توکل علی اللہ ،خودداری انکساری کے ساتھ اور وضع داری بردباری کے ساتھ اور صبر و شکیبائی و شکر الٰہی ۔اور امیروں ، مالداروں کی بے جا خوشامد و قربت سے نفرت۔دنیا طلبی سے بیزاری وغیرہ ۔کسی شاعر نے خوب کہا ہے ؎
کسی کو کیسے بتائیں ضرورتیں اپنی
مدد ملے نہ ملے آبرو تو جاتی ہے
میں نے پیغمبر اسلام ؐ کے اس فرمان واجب الایقان کو اپنے لئے آئیڈیل بنایا ’’ جو شخص ہم سے مدد کا طالب ہوگا ہم یقیناً اس کی مدد کریں گے ،لیکن اگر کوئی شخص کسی مخلوق کے سامنے دست ِ سوال دراز کرنے سے بے نیازی اختیار کرے گا تو خالق کائنات اس کو واقعی بے نیاز کردیا کرتا ہے‘‘۔اس کا مفصل واقعہ علامہ شہید مطہری ؒ کی کتاب سچی کہانیاں جلد اول صفحہ ۲۴پر بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں ۔
اس واقعہ کا میرے دل پر بہت گہرا اثر ہوا اسی لئے میں نے اپنی زندگی میں حتی الامکان کسی کے سامنے دست سوال نہیں پھیلایا۔نہ حسن طلب کا کوئی حیلہ و بہانہ کیا ۔کبھی کہیں کسی سے کوئی مالی مدد نہیں مانگی ، چاہے ہندوستان ہو یا امریکہ ،انگلینڈ ہو یا افریقہ ۔یہاں پر ایک جملہ یاد رکھنے کے قابل ہے کہ روٹی مانگنا عیب ہے نوکری مانگنا عیب نہیں ہے،جس طرح کھانا مانگنا عیب ہے پانی مانگنا عیب نہیں ہے۔
مختصر یہ کہ جب حالات بہت زیادہ تنگدستی اور مشکلات کا شکار ہونے لگے تو احمد آباد گجرات میں جس جماعت میں پیشنمازی کر رہا تھا وہاں پندرہ سو روپئے ماہانہ ہدیہ ملتا تھا۔ بہت اچھے لوگ ہیں مخیر و مومن جماعت ہے وہاں سے نہ چاہتے ہوئے بھی چھوڑ کرمڈگاسکر افریقہ جانا مناسب اور ضروری سمجھا جہاں اس وقت ہندوستانی روپئے کے حساب سے قریب پچیس ہزار روپئے ماہانہ ہدیہ ملتا تھا ۔تب وہاں کی جماعت کی طرف سے مجھے جمالپور میں شہر ہی میں قریب ہی دو اچھی جگہوں پر دو اچھے مکان دینے کی غرض سےجگہیں اور زمینیں بھی دکھائی گئیں ایک پانچ پیپلی محلہ میں پولیس چوکی کے قریب،دوسرےکجھوری کی پول کے نز دیک نوی شیری کے پاس ۔اس بات کے دو گواہ میں سے ایک مومن عابد بھائی وکیل جو اس وقت امریکہ میں رہتے ہیں اس وقت یہ یہاں جماعت کے خود ٹرسٹی تھے،دوسرے گواہ مومن قمر علی چاند بھائی چٹائی والا یہ بھی جماعت کے ٹرسٹی تھے کچھ عرصہ قبل ان کا انتقال ہو چکا ہے۔یہ دونوں جگہیں جماعت کی ملکیت میں تھیں اب شاید ان کو کسی کے ہاتھ فروخت کردیا گیا ہے۔جبکہ گلمہر سوسائٹی وٹوا احمد آباد میں میں نے اپنی کمائی سے اپنا ذ اتی مکان بنوایا ہوا تھا اور اب بھی موجود ہے اور یہ جماعت میں سب کو معلوم بھی تھا ۔اور بچوں کی شادی بیاہ کی ذمہ داری نبھانے کی پیشکش بھی کی گئی تھی ۔ ان کے علاوہ سینیر کانگریسی لیڈر جناب جون بھائی مومن بلڈر جنھوں نے چھیپا واڈ گول لیمڑا کے پاس ایک شاندار کئی منزلہ فلیٹ بنوایا تھا اس میں ایک فلیٹ مجھ کو دے رہے تھے یہاں تک کہ جب میں نے جماعت میں پیشنازی چھوڑ دی تھی تب بھی کئی با ر مجھ سے کہا کہ آپ کا فلیٹ خالی ہے لے لیجئے مگر میں نے یہ بھی لینا گوارا نہیں کیا،افسوس جون بھائی مومن اب اس دنیا میں نہیں رہے اللہ کو پیارے ہو گئے۔ اس بات کی مرحوم جون بھائی کے ساتھی انور بھائی مومن بھی گواہی دے سکتے ہیں جو ماشاء اللہ ابھی باحیات ہیں۔ اقبال بھائی مومن بہت نیک اور مخیر انسان ہیں اٹلانٹا جعفری سینٹر کے بانیوں اور متولیوں میں سے ایک نہایت فعال و ذمہ دار متولی ہیں۔ امریکہ میں کئی ماہ تک میں ان کے دولت کدہ پر ہی قیام پذیر تھا۔ایک فیملی ممبر کی طرح انھوں نے مجھے اپنے گھر پر رکھا تھا ۔قابل قدر مہمان نوازی کی تھی، انھوں نے بھی متعدد بار مجھ سے کہا کہ احمد آباد میں فلاں علاقہ میں میراایک کھیت ہے ،ایسا ہے ویسا ہے۔ یعنی وہ خود کھل کر مجھے دینے کی بات نہیں کر پاتے تھے مگر مطلب صاف ظاہر تھا کہ وہ چاہتے تھے کہ میں کھل کر ان سے مانگوں۔ مگر جب میں نے کھلی ہوئی کئی پیشکش کو قبول نہیں کیا تو یہ کیا تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر میرے ہی لئے اتنی عنایات و نوازشات کیوں ؟ تو اسکا واحد جواب یہ ہوسکتا ہے کہ شاید میں نے جماعت میں جتنی تعلیمی و تبلیغی خدمات زبانی اور تحریری طور پرخاص طور سے گجراتی میں انجام دی ہیں اتنی نہ میرے پہلے کسی نے انجام دیں نہ میرے بعد آج تک کسی نے اتنی گجراتی میں تحریری تبلیغی خدمات انجام دی ہیں۔ خدا مومن جماعت کو مزید طاقت و قوت ، رحمت و برکت اور دولت و ثروت سے نوازے جو احمدآباد سے ہجرت کرکے زیادہ تر امریکہ میں آباد ہو رہے ہیں۔مگر میںنے اپنی خودداری و وضع داری اور اپنے اور اپنے بچوں کی غیرت و حمیت و عزت ِ نفس کی خاطر خداورسول و اہل بیت علیہم السلام کی رضا و خوشنودی کے مد نظر بہت زیادہ بہت بھاری بھرکم مدد کی پیشکش کو بھی قبول کرنا گوارا نہیں کیا اوربقدر ہمت و صلاحیت دنیا طلبی سے اپنے آپ کو محفوظ رکھا۔یہ باتیں میں اس لئے بھی لکھ رہا ہوں کہ جب میں افریقہ میں تھا اور میرے بیوی بچے وٹوا اپنے مکان میں رہتے تھے تو میری عدم موجودگی میں کسی نے میرے خلاف یہ افواہ پھیلائی تھی کہ ’’مولانا ابن حسن نے وٹوا میں خمس کمیٹی کے پیسے سے مکان بنوایا ہے‘‘۔جب کہ یہ سراسر جھوٹ اور بے بنیاد الزام ہے۔جب میں نے یہ سنا تو خدا کا شکر ادا کیا کہ میں نے جماعت کی پیشکش کو قبول نہیں کیا ورنہ پھر نہ جانے کتنے اور کیسے کیسے جھوٹے پروپیگنڈے اور الزامات کانوں سے ٹکراتے۔
الحمد للہ ! اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اپنے وطن میں آزادی و خود مختاری کے ساتھ اپنے اہل و عیال اپنے خاندان و ہمسایہ و اہل محلّہ کے ساتھ عزت و آبرو کے ساتھ اللہ تعالیٰ حضرت امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے صدقہ میں جو رزق و روزی عطا کرتا ہے اس پر بہت خوش اور مطمئن ہوں۔اور ساتھ ہی اپنے طور سے علمی و مذہبی و قلمی خدمات میں بھی مصروف و مشغول رہنا بھی حیات مستعار کے لئے موقع غنیمت سمجھتا ہوں۔خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ یہاں بھی یو پی اور دہلی سے لے کر کشمیر تک میری قلمی خدمات کی کافی حد تک پذیرائی ہو رہی ہے۔ اہل بیت علیہم السلام کے صدقہ میں اللہ ہماری ناچیز دینی و مذہبی خدمات کو شرف قبولیت سے نوازے اور سعادت دارین کا ذریعہ قرار دے ایسی دعا اور تمنا ہے۔
سچ ہے مولائے کائنات حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا ارشاد گرامی ’’ یہ دنیا عقلمندوں کے نزدیک سایہ کی رفتار ایسی ہے جسے تم ابھی پھیلا ہوا دیکھ رہے تھے کہ دفعۃً سمٹ گیا اور ابھی زیادہ تھا کہ کم ہو گیا ‘‘(نہج البلاغہ خطبہ نمر ۶۱)
اور ایک جگہ مولا علی ؑ نے فرمایا ہے:
مثَلُ الدُّنيا كَظِلِّكَ ، إن وَقَفتَ وَقَفَ ، وإن طَلَبتَهُ بَعُدَ . ’’یعنی دنیا تمھارے سایہ کے مثل ہے کہ اگر تم رک گئے تو یہ رک گیا اور اگر تم نے اسے طلب کرنے کی کوشش کی تو دور ہو گیا‘‘( غرر الحكم : ح 9818 ، عيون الحكم والمواعظ : ص 487 ح 9020)
سپاس نا مے : تاج پور مومن جماعت احمد آباد۔جعفری سنٹر آف اٹلانٹا،امریکہ۔ایسوسی ایشن خوجہ شیعہ اثنا عشری جما عت تنناریو،مڈ گاسکر،افریقہ۔خوجہ شیعہ اثنا عشری جما عت آف مرنڈاوا،مڈگاسکر وغیرہ۔
اب آخر میں حجۃ الاسلام مولانا سید عابد حسین صاحب قبلہ کراروی طا ب ثراہ کی ایک تحریر سے کچھ اقتباس حقیر کے تعلق سے پیش خدمت ہے جو مولانا مرحوم نے ناچیز کی کتاب ’’اسلام اور عیسائیت ‘‘ میں بطو ر تقریظ تحریر فرمایا ہے :۔
’’۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے ’’ قیدوا العلم باالکتابہ‘‘ علم کو قید تحریر میں قید کرلو‘‘۔اس مختصر تمہید مذکور کی روشنی میںصاحبان قلم کی فضیلت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔انھیں اہل قلم میں جناب مستطاب گرامی قدر مجاہد قلم و زبان الحاج علامہ ابن حسن املوی دامت برکاتہ صدرالافاضل ،واعظ کا اسم گرامی بھی ہے۔جن کی فعالیت روز روشن کی طرح واضح و ثابت ہے۔ آپ کی گراں قدر و قابل استفادہ افادات عالیہ سے شاید ہی کوئی ناواقف ہوگا۔آپ ان علما میں ہیں جو جمود و گوشہ نشینی و سکوت کو علماے کرام کے لئے جرم سمجھتے ہیں۔آپ کی عمر شریف کی ہر سانس حرکت و تحریک سے عبارت ہے۔
حقیر جس زمانہ میں صوبہ گجرات میںخدمت کے لئے حاضر تھا تو آپ اس زمانہ میں ’’ اونا ‘‘ میں امام جمعہ و جماعت تھے۔اور منصب تبلیغ میں ہمہ تن مشغول و مصرو ف تھے۔اس وقت تک میری بد قسمتی سے کوئی رابطہ نہیں ہو سکا تھا۔جب میں نے ایک ماہنامہ بنام ’’ پرچم اسلام‘‘ گجراتی زبان میں نکالنا شروع کیا تو مولانا کا مکتوب گرامی حقیر کی از حد حوصلہ افزائی کے لئے واصل ہوا۔بس کیا تھا اسی مکتوب کی بدولت ایک حسین و پر اخلاص رابطہ ہوگیا۔اور آپ کے مضامین بھی پرچم اسلام کے لئے آنے لگے۔رسالہ انیقہ الواعظ میںچونکہ ایک عرصہ تک ایڈیٹری کے فرائض نہایت منظم و مرتب
انجام دے چکے تھے لہٰذا اپنے برسوں کے تجربات سے میری رہنمائی فرماتے رہے۔اور روز افزوں قریب سے قریب تر ہوتے گئے۔کیونکہ ذوق و نظر یات مین ہم آہنگی تھی۔
کند جنس باھم جنس پرواز
کبوتر با کبوتر ، باز با باز
مولانا املوی صاحب جمود پسند نہیں ہیں۔کچھ نہ کچھ کرتے ہی رہتے ہیں ۔ایک خاص بات یہ ہے جسے میں نے محسوس کیا ہے کہ آپ برسوں سے گجرات کے ماحول میں رہتے ہوے گجراتی لب و لہجہ اور تلفظ سے بالکل متاثر نہیں ہوئے۔جبکہ ۲۴؍گھنٹے انھیں کے درمیان رہتے ہیں جو ’’ ز ‘‘ کا مثلا تلفظ ’’ ج ‘‘ سے کرتے ہیں۔مگر جب اردو بولنے پر آتے ہیں تو لکھنوی ادیب و نقاد و مبصر یہ محسوس نہیں کر سکتا کہ ان کی زبان پر کسی دوسری زبان کا اثر پڑ چکا ہے۔صحیح تلفظ اردو کے سانچہ میں ڈھلا ہوا ، صاف و شفاف لہجہ بتاتا ہے کہ یہ یو پی کے رہنے والے ہیں‘‘۔ (تقریظ ،السید عابد الرضوی۔مدیر حوزہ علمیہ امام خمینی ؒ ۔وٹوا۔احمدآباد۔ماخوذ از کتاب اسلام اور عیسائیت)
چند یادگار تبلیغی کانامے :۔
ژ ماہنامہ رسالہ البدرؔ کاکوری کے اڈیٹر مولانا عبد العلیم فاروقی اور میں بندہ ناچیز ماہنامہ الواعظ لکھنؤ کے اڈیٹر کے درمیان تحریری مناظرہ ہوتا تھا۔
ژ سابق سفیر عراق فاضل الغراوی کے ساتھ بذریعہ خط و کتابت علمی مباحثہ ہوا تھا ۔جس کی رپورٹ قلمی جہاد کے عنوان سے ماہنامہ الجواد بنارس میں بھی شائع ہوئی تھی اور ریڈیو زاہدان ایران سے با قاعدہ قسطوار نشر ہوئی تھی۔
ژ عیسائی تعلیمی و تبلیغی سنٹر سینٹ زیویرس کالج کے پاس ’’ جیوتی مل‘‘ احمدآباد گجرات میں ’’ اسلام اور عیسائیت‘‘ کے موضوع پر تقریری مباحثہ ہوا تھا جس میں حقیر کو شاندار کامیابی اورمذہب حقہ شیعہ اثنا عشریہ کی فتح و فیروزی اور حق و صداقت کا عظیم الشان مظاہرہ ہوا تھا۔جس کی تفصیلی رپورٹ ــ میر ی ’’ اسلام اور عیسائیت‘‘ نامی کتاب کی شکل میں طبع ہو کر شائع ہوئی ۔
سپاسنامے:
(s.1)
سپاسنامہ منجانب جعفری سنٹر آف اٹلانٹا،امریکہ
(s.2)
سپاسنامہ منجانب خوجہ شیعہ اثنا عشری جماعت تنناریو،مڈگاسکر(افریقہ)
(s.3)
تحریر منجانب تاجپور مومن جماعت ،احمدآباد (گجرات)
(s.4)
قومی ایکتا کی ایک شاندار مثال،انگریزی و گجراتی اخبارات کی رپورٹیں
(ان شاء اللہ باقی آئندہ)