تحریر: مزمل حسین علیمی آسامی
حوزہ نیوز ایجنسی | اسلام کی بقا کے لیے مدارس اسلامیہ کا وجود نہایت ہی ضروری ہے،چونکہ مدارس دین کی نشرواشاعت کا اعلیٰ ترین پلیٹ فارم ہے،جہاں سے دینِ اسلام کی پہچان ہوتی ہے، اور مسلمان اسلامی تعلیمات سے آشنا ہوتے ہیں، یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہےکہ جن ممالک میں اسلام کو ختم کیا گیا،وہاں پہلے مدارس اسلامیہ کو نشانہ بنایا گیا ہے، چونکہ فرقہ پرست عناصر جانتے ہیں کہ مسلمانوں کا دینی قلعہ مدارس ہیں،اگر ہم انہیں تباہ کریں گے تو مسلمان خود بخود تباہ ہوتے چلے جائیں گے۔
ہندوستان کی سب سے بڑی مسلم آبادی والی ریاست اترپردیش ہے، یہ ریاست برصغیر کا علمی مرکز ہے،جو برصغیر میں دینی تعلیمات و تربیت کے فروغ میں اپنی ایک الگ ہی پہچان رکھتی ہے، جہاں کے فضلا دنیا کے مختلف ممالک میں خدمات دین انجام دے رہے ہیں ، اترپردیش میں ملک کے مختلف حصوں سے طلباحصولِ تعلیم کی خاطر سفر کرتے ہیں، اور تعلیم یافتہ ہوکر اپنا مسکن لوٹ کر دینِ اسلام کی تبلیغ کرتے ہیں، اترپردیش کے موجودہ صورت حال دیکھ کر ہمیں علامہ اقبال کے دردمندانہ کلمات یاد آرہے ہیں، اگر خدانخواستہ یہاں بھی آسام جیسا حشر ہوا،تو یقین جانیں ہندی مسلمانوں کا وجود ختم ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگے گا۔
علامہ اقبال نے کہا تھا "ان مکتبوں کو اسی حالت میں رہنے دو، غریب مسلمانوں کے بچوں کو انہیں مدارس میں پڑھنے دو، اگر یہ ملا اور درویش نہ رہے تو جانتے ہو کیا ہو گا؟ جو کچھ ہو گا میں انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھ آیا ہوں، اگر ہندوستانی مسلمان ان مدرسوں کے اثر سے محروم ہو گئے تو بالکل اسی طرح ہو گا جس طرح اندلس میں مسلمانوں کی آٹھ سو برس کی حکومت کے باوجود ہوا آج غرناطہ اور قرطبہ کے کھنڈرات اور الحمراء کے نشانات کے سوا اسلام کے پیروؤں اور اسلامی تہذیب کے آثار کا کوئی نقش نہیں ملتا، ہندوستان میں بھی آگرہ کے تاج محل،دلی کے لال قلعے کے سوا مسلمانوں کے آٹھ سو سالہ حکومت اور ان کی تہذیب کا کوئی نشان نہیں ملےگا۔
علامہ اقبال نے کہا کہ اگر ہندوستانی مسلمان ان مدرسوں کے اثر سے محروم ہو گئے، تو بالکل اسی طرح ہو گا جس طرح اندلس میں ہوا، اقبال کی بات سو فیصد درست ہے اسے سمجھنے کے لیے زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں، ریاست آسام کی موجودہ صورتِ حال دیکھی جا سکتی ہے ۔
میں نے اپنی اس مختصر سی زندگی میں دنیا کا سفر تو نہیں کیا، اور نہ ہی اتنا علم حاصل کیا جسکے بدولت آپ کو بہتر بتا سکوں،ہاں البتہ میں نے اپنی ریاست آسام کا مشاہدہ کیا ہے، اس کی صورتحال ملاحظہ ہو ۔
آسام ہندوستان ہی کی ایک سرحدی ریاست ہے، جہاں مسلمان تو ہیں مگر اسلام نہیں ہے، جہاں کے مسلمانوں کو دیکھ کر زمانہ جاہلیت یاد آتا ہے ، مسلمانوں کی اکثریت اعمال کفریہ میں ملوث ہیں -بازاروں اوردکانوں میں مسلمان تو نظر آتے ہیں، مگر اسلام کی خوبصورتی نظر نہیں آتی، یہاں کے مسلمان دینی تعلیمات و تربیت سے نا آشنا ہیں، جس کے نتائج میں اکثر وبیشتر مسلمان شعار اسلام کو فراموش کر بیٹھیں ہیں، حالات ایسے ہیں کہ مسلمان عبادات مثلاً صلوة ،صوم، زکوۃ وغیرہ کو ترک کرتے نظر آتے ہیں صلہ رحمی ، باہمی تعاون، اعمال صالحہ کی بجائے حسد بغض سود کی حرام کمائی، ایک دوسرے کو نقصان پہچانا ان کا وطیرہ بن گیا ہے، دولت، عزت، طاقت وقوت وغیرہ کے حصول کو ہی عافیت سمجھتے ہیں، ان سب کے اسباب صرف اور صرف دینی تعلیمات سے ناآشنائی ہے۔
مسلمانانِ آسام کے حالات بہت بدتر ہیں، وجہ دینی تعلیمات سے محرومی،غیروں میں اور ہم میں صرف نام میں فرق رہ گیا باقی اعمال وہی ہیں جو غیروں کے ہیں ۔
مدارس اسلامیہ کی ضرورت کیوں ؟
آج کے دور میں دینی تعلیم کے بغیر ایمان و عقیدت کی حفاظت و صیانت تقریبانا ممکن ہے، دینی تعلیم کی اہمیت کے پیش نظر علامہ قمر الزماں اعظمی کا یہ اقتباس پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے ملاحظہ ہو۔
" یہ ایک حقیقت بات ہے کہ جن ملکوں میں مدارس کو ختم کر دیا گیا ہو وہاں اسلام مٹ گیا، امام بخاری اور بہت سے ائمہ حدیث وفقہ کی سر زمینوں میں صحیح سے کلمہ پڑھنے والے نایاب ہیں، وسط ایشیا کی وہ تمام ریاستیں جو اشتراکیت کی زد میں آئیں وہاں مدارس کو مٹا کر اسلام کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی کچھ اور ملکوں میں اس طرح کی کوشش جاری ہے اس صورت میں علمائے کرام کو تمام مساجد کو جز وقتی درسگاہوں میں تبدیل کرنا ہو گا مساجد کے تمام ائمہ اپنے اردگرد کا جائزہ لیں اور کوشش کریں کہ متعلقہ آبادی، یا محلہ میں کوئی بچہ دینی تعلیم سے محروم نہ رہ پائے اور سن بلوغ کو پہنچنے سے قبل دینی تعلیم سے اس قدر آگاہ ہو جائے کہ وہ در پیش چیلنجوں کا مقابلہ کر سکے، علماء وائمہ مساجد کے لیے تدریس و تبلیغ دین اب فرض کفایہ نہیں بلکہ فرض عین ہے۔