حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، جلوس عاشوراء سے خطاب کرتے ہوئے مولانا شیخ جواد حبیب نے کہا کہ مقصد تحریکِ کربلا، دراصل بقائے دین و احیائے اسلام ہے۔ ہر منصف اور باشعور، حق پرست، عدالت پسند دانشوران و مفکرین ملت ہند اور یونیورسٹیز کے طلباء و طالبات تحریک کربلا کے مختلف پہلوؤں پر غور کریں اور تدبر، تفکر اور گہری نگاہ کے ساتھ نہضت کربلا کو دیکھیے اور تجزیہ و تحلیل کریں اور عوام تک پہنچائیے۔ کیوں؟ اس لیے کہ امت مسلمہ ظالم حکومتوں کے خلاف اور مخالفین اسلام کے ساتھ نبرد آزما ہونے کا سلیقہ سیکھ سکے۔ نواسۂ رسولؐؐ ظلم و استبداد کے خلاف تاابد ایک مثالی اور کامل کردار ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ امام حسین علیہ السلام کے قیام کا مقصد و ہدف کسی اور سے سننے کے بہ جائے خود امام حسینؑ کے فرمودات کی روشنی میں ملاحظہ کیجیے اور غور فرمائیے۔ وصیت نامہ تحریر کرنے کے بعد اب فلسفہ و ہدف قیام بیان فرماتے ہیں: ’’ مدینہ سے میرا نکلنا نہ خود پسندی اور تفریح کی غرض سے ہے اور نہ فساد اور ظلم و ستم میرا مقصد ہے۔ میں تو صرف اس لیے نکلا ہوں اپنے ناناؐ کی امت کی اصلاح کروں۔ میں چاہتا ہوں کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو انجام دوں اور یوں اپنے ناناؐ اور اپنے والد گرامیؑ کی سیرت کی پیروی کروں۔ اب اگر کوئی میری دعوت کو حق سمجھ کے قبول کرے تو اس نے ﷲ کا راستہ اختیار کیا ہے اور اگر میری دعوت کو مسترد کردے تو میں صبر کروں گا، یہاں تک کہ ﷲ میرے اور ان افراد کے درمیان فیصلہ کرے اور ﷲ ہی بہترین فیصلہ کرنے والا ہے‘‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ آج کی دنیا کو ظلم و ستم، فتنہ و فساد، بی عدالتی و نا انصافی سے نجات دینے کے لئے پھر کردار حسین ابن علیؑ کی ضرورت ہے۔ آج پھر سے لشکر کفر، اسلام کے مقابلے میں ہے، ہمیں وقت کے امام حسین ؑ کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور ساتھ ساتھ وقت کے یزید، شمر، ابن زیاد اور وقت کے عمر سعد کو سمجھنے کی بھی ضرورت ہے ۔ فلسطین کی مقدس سرزمین آج پھر لہو لہو ہے، وہاں بسنے والے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جارہی ہے، ان پر انہی کی زمین تنگ کردی گئی ہے اور اسرائیلی وزیراعظم نے فلسطینیوں کو انہی کی سرزمین چھوڑنے کا الٹی میٹم دےدیا ہے جسے فلسطینیوں نے مسترد کردیا ہے۔
مولانا جواد حبیب نے کہا کہ غزہ پر اسرائیل کی بے رحمانہ بمباری کا سلسلہ ۹ مہینے سے جاری ہے، صورتحال سنگین سے سنگین تر ہوتی جارہی ہے۔ اسرائیل نے غزہ پر اتنے بم گرائے ہیں کہ اتنے بم امریکہ نے افغانستان پر نہیں گرائے تھے۔ اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں شہید فلسطینیوں کی تعداد۴ہزار سے تجاوز کرگئی ہے اور ایک ہزار سے زائد افراد ملبے تلے دبے ہیں جبکہ 10لاکھ افراد بے گھر ہوچکے ہیں۔ دنیا میں جنگوں کے بھی آداب ہوتے ہیں جس میں بچوں، عورتوں، بوڑھوں اور اسپتالوں کو نشانہ نہیں بنایا جاتا مگر اسرائیل کسی بھی بین الاقوامی قانون کو خاطر میں نہیں لارہا۔
انہوں نے مزید کہا کہ سوشل میڈیا پر بچوں کی لاشیں اور مائوں کی آہ و بکا دیکھ کر آنکھیں نم ہو جاتی ہیں اور کلیجہ پھٹنے لگتا ہے۔ اقوام متحدہ کے انتباہ کے باوجود اسرائیل نے غزہ کا مکمل محاصرہ کرکے خوراک، پانی، ادویات اور ایندھن کی فراہمی بند کردی ہے۔ اس دور میں ہر حسینی کی ذمہ داری ہے کہ اپنی مجلسوں میں فلسطین کے مظلموں کی حق میں دعا اور ظالمین اور ستمگروں کے خلاف آواز حق کو بلند کرے ۔تاکہ دنیا سے ظلم کا خاتمہ ہوا اور یہ دنیا امن و امان کا گہوارہ بن جائے۔