۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
News ID: 400854
23 جولائی 2024 - 09:47
سید رفاقت علی کاظمی

حوزہ/جب قافلہ زینبیہ کوفہ کے قریب پہنچا، روایات میں لکھا ہے کہ کوفہ کی عورتیں تماشہ دیکھنے گھروں کی چھتوں پر آئیں اور لوگ بازاروں میں جمع ہو گئے۔

تحریر و ترتیب: سید رفاقت علی کاظمی

حوزہ نیوز ایجنسی| جب قافلہ زینبیہ کوفہ کے قریب پہنچا، روایات میں لکھا ہے کہ کوفہ کی عورتیں تماشہ دیکھنے گھروں کی چھتوں پر آئیں اور لوگ بازاروں میں جمع ہو گئے۔

راوی کہتا ہے کہ ایک کوفی عورت نے ان اسیر مخدرات سے پوچھا کہ تم کس قبیلے کے قیدی ہو؟خواتینِ عصمت نے جواب دیا:(نحن اساری ال محمدؐ) ہم آل محمد کے قیدی ہیں۔

پس یہ عورت اپنی چھت سے نیچے آئی اور ناموس نبیؐ کو چادریں دے دیں، تاکہ یہ خود کو نامحرموں سے چھپا لیں۔

بعض روایات میں ہے کہ ان چادروں کو بھی شمر لعین نے یہ کہہ کر غصب کیا کہ اب تم کوفہ کی شہزادیاں نہیں، بلکہ ابن زیاد کی قیدی ہو۔

جس کوفہ میں زینبؑ شہزادی تھیں اور ایک زمانے میں کوفہ کی عورتوں کو درس قرآن دیتی تھیں آج وہ زینب حسین و عباس علیہم السّلام جیسے بھائیوں سے مفارقت کے بعد قیدی بن کر یہاں داخل ہوئی ہیں، اس سے بڑی مصیبت اور کیا ہوسکتی ہے؟

راوی بیان کرتا ہے: اہل بیت علیہم السّلام بے کجاوہ اونٹوں پر سوار تھے سب ایک ہی رسی میں جکڑے گئے تھے۔ شدت گرمی سے ان کی حالت ناگفتہ بہ تھی. شہداء کے سروں بالخصوص حسینؑ کا سر دیکھ ہر مخدرہ مصروف گریہ ہوتی تھیں، لیکن ان ظالموں کی جانب سے رونے والیوں پر سختی کی جاتی تھی۔

امام سجادؑ سے روایت ہے: ہم میں سے کوئی رونا چاہتا تو ظالم اپنے نیزوں کی نوک ہمارے جسموں میں چھبو دیتے تھے۔

نبیۖ و علیؑ کی بیٹیاں پابندیوں کے بیچ جب کوفہ میں داخل ہوئیں تو راوی کا بیان ہے کہ اہل کوفہ کی عورتوں نے ان پر گھروں سے کھجور اور روٹیاں پھینکنی شروع کیں تو جناب ام کلثوم سلام اللہ علیہا بولیں " اے اہل کوفہ! ہم اہل بیت مصطفیؑ ہیں اور ہم پر صدقہ حرام ہے۔"

نفس المہموم کی روایت کے مطابق، اہل کوفہ نے جب خانوادہ رسالت کی یہ مظلومیت دیکھی تو رونے لگے اور گریہ کی آوازیں بلند ہو گئیں یہ دیکھا تو امام سجادؑ نے فرمایا:کیا تم میرے والد پر روتے ہو؟ کیا تم ہماری مظلومیت پر روتے ہو؟ اگر تم ہماری خاطر رو رہے ہو تو پھر یہ بتاؤ کہ ہمیں کس نے قتل کیا ہے؟

بحار الانوار میں علامہ مجلسی لکھتے ہیں: جب امیر المومنینؑ کی شہادت کا وقت قریب آیا تو بی بی زینبؑ نے ان سے ام ایمن کی روایت کے متعلق دریافت کیا کہ کیا یہ درست ہے کہ ہم قیدی بناۓ جائیں گے؟

مولا علی۴ نے فرمایا:" بیٹی زینب! حدیث وہی ہے، جو ام ایمن نے بیان کی ہے عنقریب میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہیں اہل بیت کے ساتھ اسیر کر کے اس شہر میں لایا جارہا ہے واللہ اس دن پوری روۓ زمین پر تم اور تمہارے شیعوں سے بڑھ کر اللہ کی نگاہوں میں کوئی محبوب و محترم دوسرا نہ ہو گا۔

یہی وہ مواقع تھے جن کے متعلق امام حسن مجتبیؑ نے وقت آخر گریہ کیا۔

روایت میں ہے کہ حسنؑ سبز قبا شہزادہ جنت الفردوس کے جسم اقدس سے زہر کے سبب خون لب مبارک پر جاری تھا۔ یہ حال دیکھ کر حسینؑ رونے لگے۔ پس حسینؑ کو روتا دیکھ کر حسن مجتبیؑ بھی گریہ کرنے لگے تو حسینؑ نے بھائی کو تسلی دی، بھائی آپ عنقریب اپنے بابا اور جد کے جوار میں ہوں گے یہ کون سی شے آپ کو رلا رہی ہے؟

امام حسن مجتبی علیہ السلام نے جواب دیا حسین! میں خود پر نہیں تم پر رو رہا ہوں اور اے ابا عبد اللہ تمہارے دن جیسا کوئی دن نہ ہوگا ( لایوم کیومک یا ابا عبد اللہ)

علیؑ و حسنؑ بھی وقت آخر قافلہ صبر و تسلیم و رضا پر روۓ بغیر نہ رہ سکے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا جب وقت آخر آیا تو آپ نے بھی حسینؑ پر گریہ کیا اور فرمایا:اے اللہ میں اپنے اہل بیت علیہم السّلام کو تیرے حوالے کرتا ہوں اور ان کے متعلق تجھ پر ہی توکل کرتا ہوں اور تجھ سے ہی ان کے اوپر ڈھائے جانے والے مظالم کی شکایت کرتا ہوں۔

اللہوف کی روایت کے مطابق، اہل کوفہ کے رونے کی آوازین بلند تھیں اتنے میں علیؑ کی بیٹی نے انہیں خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔ واللہ میں نے دیکھا کہ ہر شے تھم گئی اور فصاحت و بلاغت کا ایسا عظیم دریا بہایا جا رہا ہو، آواز نہ نکلتی تھی، یہاں تک لوگوں کی سانسیں تک ان کے سینوں میں اٹک گئیں۔

پس آپ سلام اللہ علیہا نے پہلے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی، پھر پیغمبر اکرم ص پر صلوات بھیجی۔

راوی کہتا ہے: واللہ ایسے خطیب کبھی نہ دیکھے گیے جو رسیوں میں جکڑے ہوں اور ان کے عزیزوں کے سر ان کے سامنے ہوں۔

حوالہ جات:

(1) نفس المہموم -357-358

(2) اللہوف-127-128

(3) کامل الزیارات -262

(4) مصباح المتہجدین -723۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .