۱۸ شهریور ۱۴۰۳ |۴ ربیع‌الاول ۱۴۴۶ | Sep 8, 2024
علامہ مجتبیٰ حسن کامونپوری

حوزہ/ پیشکش: دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمائکروفلم سینٹر دہلی کاوش: مولانا سید غافر رضوی چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی

حوزہ نیوز ایجنسی | علامہ سید مجتبی حسن کامونپوری سن 1331ہجری بمطابق سن 1913عیسوی میں سرزمین کامونپور ضلع غازی پور پر پیدا ہوۓ۔ آپ کے والد جناب محمد نذیر صاحب اپنے قبیلہ کے معزز و مکرّم انسان تھے۔

علامہ نے ابتدائی تعلیم مئو اور بنارس میں تجربہ کار اساتذہ کے زیرسایہ حاصل کی، اس کے بعد جامعہ ناظمیہ اور پھر جامعہ سلطانیہ میں کسب فیض کیا۔ آپ سال بھر میں دو امتحان دیتے تھے، الہ آباد اور لکھنؤ بورڈ سے عربی، فارسی اور اردو کی اسناد بھی حاصل کیں۔ سن 1931عیسوی میں جامعہ سلطانیہ سے صدرالافاضل کی سند دریافت کی۔ موصوف کے اساتذہ میں سے مفتی محمد علی جزائری، ہادی الملت مولانا سید محمد ہادی، مولانا محمد رضا فلسفی، مولانا عالم حسین اور مولانا سبط حسن وغیرہ کے اسمائے گرامی نہایت اہم ہیں۔

علامہ کو بچپن سے ادبیات اور شعروشاعری کی طرف رغبت تھی۔ موصوف کی دلی آرزو تھی کہ الازہر یونیورسٹی مصر اور حوزہ علمیہ نجف اشرف میں بھی تعلیم حاصل کریں؛ یہی وجہ تھی کہ سن 1935عیسوی میں مصر کی جانب عازمِ سفر ہوئے۔ ان سے پہلے الازہر نے کسی بھی ہندوستانی طالب علم کو ایڈمیشن نہیں دیا تھا ، یونیورسٹی میں ان کا تحقیقی موضوع "امّ المؤمنین حضرت امّ سلمہ" قرار پایا۔ موصوف نے اس موضوع پر بہت زحمت اٹھائی اور دوہزار صفحات سے زیادہ پر مشتمل تحقیقی مسودہ اساتذہ کی خدمت میں پیش کیا۔مولانا پانچ سال تک جامعہ الازہر میں کسب فیض کرتے رہے۔

مولانا کے مسودہ پر اساتذہ میں مباحثہ ہوا اور فلسفہ، تاریخ، تربیت و اخلاق میں ڈاکٹریٹ (پی ایچ ڈی) کی سند عطا کی گئی۔ سند حاصل کرنے کے بعد نجف و کربلا ہوتے ہوئے لکھنؤ واپس آگئے۔

موصوف کا تاریخی مطالعہ مغربی محققین سے کم نہیں تھا، آپ کی عربی ادبیات بھی بہت قوی تھیں یہاں تک کہ عربی بالکل عربوں جیسی بولتے تھے ، ان کے مضامین اورمنظوم شاہکاربھی دیکھنے میں آئے ہیں۔

علامہ کامونپوری نے جوان نسل کو جدید علوم سے آشنا کیا اور قدیم و جدید فکر کے امتزاج میں قدم اٹھایا۔ موصوف مدارس میں قدیمی طرز پر تدریس کرنے کے قائل نہیں تھے، اسی طرح شیعہ سنی پیچیدگیوں کو بھی پسند نہیں فرماتے تھے۔

آپ نے مدرسہ¬ دینی پٹنہ "بہار"، مدرسۃ الواعظین، مدرسہ ناظمیہ، لکھنؤ یونیورسٹی اور علیگڑھ مسلم یونیورسٹی میں تدریس کے فرائض انجام دیئے اور ہزاروں شاگردوں کی تربیت کی، مسلم یونیورسٹی میں پروفیسر کے عنوان سے پہچانا جاتا تھا۔

موصوف ہمیشہ مذہب حق کی دعوت دیتے تھے، ان کی دعوت کا یہ اثر ہوا کہ محمد عبدََُہ نے نہج البلاغہ کی نشر و اشاعت میں زندہ دلی کا ثبوت دیا، مولانا نے چاہا کہ صحیفہ سجادیہ کا مطالعہ کرایا جائے تو آپ نے مسابقہ رکھا جس میں بڑے بڑے متفکرین نے صحیفہ سجادیہ کے متعلق مضامین قلمبند کئے۔

مولانا موصوف میدان خطابت کے وہ سورما تھے کہ ان کی زبان سے نکلی ہوئی بات جوانوں کے دلوں میں اترجاتی تھی اور شیعہ سنی کا ہر فرقہ آپ کی تقریر کو پسند کرتا تھا۔ مولانا رفاہی امور کی صف اوّل میں دکھائی دیتے تھے مثلاً جامعہ ناظمیہ کی ہیئت علمی میں رکن، شیعہ کانفرنس کے رکن، تعلیم اسلامی ہندکے رکن،اسی طرح مدرسہ عالیہ رامپور کی ہیئت علمی ، کانگریس مشرقی ہند ، مجلّہ الواعظ ، مجلّہ سرفراز اورمجلّہ الرضوان کے رکن تھے، ان کے علاوہ دیگر اہم اداروں میں بھی اہم رکن کی حیثیت سے پہچانے جاتے تھے۔ آپ 23سال تک علیگڑھ مسلم یونیورسٹی میں شعبہ دینیات کے مدیر رہے، مطالعہ کا بہت زیادہ شوق تھا اسی لئے کتابخانہ بھی بنایا۔

باوجود اس کے کہ مسودہ کو قید تحریر میں لانے کے لئے وقت کی بہت قلت تھی لیکن پھر بھی آپ نے بہت سی کتابیں تالیف کیں جن میں سے کربلا، مقتل عقبہ بن سمعان، مقتل ضحاک مشرقی، مقتل السیوطی، مقتل ابن واضح یعقوبی، مقتل ابوالفدا، مقتل ناسخ، مقتل حسین، مقتل دیار بکری، کائنات قبل و بعد اسلام، اوّلین فیلسوف اسلام، حکیم الٰہی علی بن ابی¬طالب، نگاہی بر احادیث فضایل اہلبیت، نگاہی بر نامہ¬ہای حضرت علی، افضلیت حضرت علی، از فتح مکہ تا کربلا، جنگ و اسلام، اوّلین قدم حسین مظلوم، وغیرہ سرِفہرست ہیں۔

مولاناموصوف کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے چھ رحمتوں اور چھ نعمتوں سے نوازا؛ آپ کے بیٹے قاسم مجتبیٰ، فیض مجتبیٰ، حسن مجتبیٰ، اقبال مجتبیٰ، شمیم کاظم اور شبیر کاظم کے ناموں سے معروف ہوئے۔

آخرکار یہ عالم و دانشور دینی خدمات انجام دینے کے بعد 27 جمادی الثانی سن 1394ہجری بمطابق 5 جولائی سن 1974عیسوی کو شہر علیگڑھ میں رحلت فرما گئے اور نماز جنازہ کے بعد سپردِ خاک کردیئے گئے۔

ماخوذ از : نجوم الہدایہ تحقیق و تالیف: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج2، ص399، دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی، 2021ء۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .