حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مجلس کا آغاز مرحوم سید علی احسن صاحب نے سن 1923 عیسوی میں کیا۔ آپ شعبۂ اردو، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں لیکچرار کے عہدے پر فائز تھے۔ آپ داغ دہلوی کے شاگرد اور شاعر مشرق علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کے ہم عصر تھے۔ ان کے انتقال کے بعد آپ کے فرزند، مرحوم سید محمد احسن (ڈپٹی رجسٹرار، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی) نے اس قدیمی مجلس کا سلسلہ جاری رکھا۔ مجلس کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے مرحوم سید عزیز احسن طاب ثراہ (معروف مولانا عزیز) نے حُسن و خوبی، جذبہ و عقیدت سے منعقد کرتے رہے۔ اب مذکورہ نسلوں کی چوتھی پیڑھی، مرحوم مولانا عزیز احسن کے پسر، سید ممتاز احسن کئی برسوں سے مجلس کا انعقاد و اہتمام کر رہے ہیں۔
اس قدیمی مجلس کا مختصر تعرف نہایت ضروری ہے کہ آپ کے امام بارگاہ میں نشان پائے مبارک، حضرت محمد مصطفٰی ﷺ موجود ہے جو ایک صدی قبل کربلائے معلٰی سے لایا گیا تھا جس کی زیارت کرنے کی غرض سے کثیر تعداد میں عزاداران سید الشہداء کی شرکت ہوتی ہے۔
مجلس کا آغاز جناب میر کاظم حسین صاحب و ہمنوا کی مرثیہ خوانی سے ہوا۔
مجلس سے خطاب حجت الاسلام والمسلمین پروفیسر (ڈاکٹر) اعجاز قائمی صاحب قبلہ (شعبۂ شیعہ دنیات، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی) نے فرمایا۔
آپ کا عنوان کلام معروف آیت تطہیر، سورۃ احزاب، آیت نمبر 33، پارہ 22، شان نزول پنجتن پاکؑ، محل نزول مدینہ، موضوع عقائد، مضمون آئمہ کی عصمت جس میں اللہ تعالٰی نے اہل بیت علیہم السلام کو ہر قسم کی نجاست سے پاک رکھنے کے تکوینی ارادے کا اظہار فرمایا ہے۔ مولانا موصوف نے الفاظ "اٍنَّمَا، تطہیر، رجس، رفع، دفع، بدن، جسم اور جسد وغیرہ" کے مختلف زاویے اور پہلوؤں سے معنی و مفہوم کی فصاحت و بلاغت سے وضاحت و تشریح کیا۔ آیت تطہیر میں "اٍنَّمَا" کے لفظ کے معنی ہے 'ہی، بس، صرف' جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ آیت پنجتن پاکؑ کے لئے نازل ہوئی۔ لفظ 'اہل' سے صرف آپ ہی کے گھر والے "چادر" میں ہیں۔ لفظ 'الرجس' کے لئے دفعہ کا استعمال کیا جس کی وضاحت یہ ہے کہ نجاست کو دور رکھا یعنی رجس نزدیک آنے کا مطلب ہی نہیں ہوتا۔
مولانا ڈاکٹر اعجاز قائمی صاحب عزاداران سید الشہداء کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ فاطمتہ الزہؑرا کی چادر کی وسعت یہ تھی کہ سر چھپاتے تو پیر کھلتا اور اگر پیر چھپاتے تو سر کھلتا۔ دوسری جانب غور کریں کہ جبرائیلؑ کے ایک پنکھ مشرق تو دوسرا پنکھ مغرب رہتا لیکن وہ بھی چادر یمانی میں داخل ہو گئے اور پنجتن پاک علیہم السلام بھی۔
مولانا ڈاکٹر اعجاز قائمی صاحب نے شہداء کربلا کے مصائب بیان کیے تو مومنین نے گریہ بلند کیا اور اشکبار ہوئے۔
مجلس میں شرکت کرنے والوں میں پروفیسر سید علی کاظم صاحب، پروفیسر سید پرویز قمر صاحب، پروفیسر سید نواز زیدی صاحب، ڈاکٹر مہتاب احمد صاحب اور ڈاکٹر شجاعت حسین صاحب وغیرہ تھے۔
مجلس کے انتظامات و اہتمام کرنے میں سید ممتاز احسن صاحب نے اہم کردار ادا کیا۔