۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
ڈاکٹر شجاعت حسین

حوزہ/حضرت امام علی رضا علیہ السلام ابن حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام مالک علم لدّنی، وارث علم نبیؐ، دین کی بقا، اسلام کی حیات، توحید کی روح، امامت کی چاندنی، عصمت کی روشنی، نام خدا و رسولؐ کا خون و پوست، نفس خدا، وارث انبیاء، گلشن رسالت کی جلا، علم و عمل کی صبا، رحمت خدا کا ابر، امراض روح و قلب کی دوا، فکر و احساس کی اکثیر، مالک جود و سخا، اللہ و رسولؐ کی رضا، عدل و انصاف کا میزان، زہد و تقویٰ کا زین، حق کی صدا، تشریح قرآن، کلامٍ الٰہی و حدیثٍ رسول کے ترجمان، فکر کا وجدان، ذات خدا کی پہچان، نفس کل ایمان، اور وحدت کی دلیلٍ ایقان ہیں۔

تحریر: ڈاکٹر شجاعت حسین

حوزہ نیوز ایجنسی|

موجٍ یقین، جعفرٍ عظمت علی رضاؑ

طوفانٍ علم، باقر حکمت علی رضاؑ

عرفانٍ صبر، عابدٍ جرآت علی رضاؑ

خُلقٍ عظیم، شبرٍ خلت علی رضاؑ

یوسف ہے فاطمہؑ کا، یہ کاظمؑ کا لال ہے

علمٍ رسولٍؐ پاک کا اوجٍ کمال ہے

حضرت امام علی رضا علیہ السلام ابن حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام مالک علم لدّنی، وارث علم نبیؐ، دین کی بقا، اسلام کی حیات، توحید کی روح، امامت کی چاندنی، عصمت کی روشنی، نام خدا و رسولؐ کا خون و پوست، نفس خدا، وارث انبیاء، گلشن رسالت کی جلا، علم و عمل کی صبا، رحمت خدا کا ابر، امراض روح و قلب کی دوا، فکر و احساس کی اکثیر، مالک جود و سخا، اللہ و رسولؐ کی رضا، عدل و انصاف کا میزان، زہد و تقویٰ کا زین، حق کی صدا، تشریح قرآن، کلامٍ الٰہی و حدیثٍ رسول کے ترجمان، فکر کا وجدان، ذات خدا کی پہچان، نفس کل ایمان، اور وحدت کی دلیلٍ ایقان ہیں۔

حضرت امام علی رضا علیہ السلام رسول کریم حضرت محمد مصطفٰی ﷺ کے آٹھویں جانشین، مسلمانوں کے آٹھویں امام اور سلسلہ عصمت کی دسویں کڑی تھے۔ آپ کے والد ماجد حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام ہیں۔ عام طور پر تقریر ہو یا تحریر، آئمہ اطہار علیہم السلام کی عظمت، فضیلت، کمالات و خصوصیت پر تفصیل سے بیان و گفتگو ہوتی ہے لیکن مادر گرامی یا آئمہ طاہرین کی زوجہ پر تبصرہ اختصار سے بھی نہیں ہوتا، لہٰذا قارئین کرام یا شیعان اہلبیت علیہم السلام سوائے جناب فاطمتہ الزہؑرا اور جناب زینب سلام اللہ علیہا کے بارے میں جانتے ہیں لیکن باقی زوجہ اور مادر کے بارے میں ان کی خوبیوں کو بہت کم لوگ آشنائی رکھتے ہیں۔ راقم کی خواہش ہے کہ امام علی رضاؑ کی والدہ ماجدہ کے بارے میں تحریر کریں۔ آپ کی والدہ گرامی جناب اُم البنین عرف نجمہ تھیں۔ جناب نجمہ کے متعلق علماء کرام کا بیان ہے کہ آپ کا شمار اشرافٍ عجم میں تھا اور آپ عقل و دیانت کے لحاظ سے افضل النساء تھیں۔ حمیدہ خاتون یعنی امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی والدہ کا کہنا ہے کہ میں نے اُم البنین سے بہتر کسی عورت کو نہیں پایا۔ یہ بھی تحقیقی امر تصدیق کے ساتھ تحریر کر دیا جائے کہ علی بن میثم کہتے ہیں کہ حمیدہ خاتون کو تاجدار انبیاء، رحمت العالمین حضرت محمد مصطفٰی ﷺ نے خواب میں حکم دیا تھا کہ اُم البنین کی شادی امام موسیٰ کاظمؑ سے کر دو کیونکہ ان کے بطن مبارک سے جو بچہ پیدا ہونے والا ہے وہ مادر کی آغوش میں پلنے والوں میں سب سے بہتر ہوگا۔ (اعلام الوریٰ، صفحہ 182) علامہ محمد رضا لکھتے ہیں کہ جناب اُم البنین، حُسن و جمال، زہد و تقویٰ میں اپنی آپ میں نظیر تھیں۔ (جنات الخلود، صفحہ 31)۔

علماء و مورخّین کا اتفاق ہے کہ امام علی رضا علیہ السلام بتاریخ 11 ذی قعدہ 153 ہجری یوم پنجشنبہ بمقام مدینہ منورّہ متولد ہوئے۔ (اعلام الوریٰ، صفحہ 182؛ جلا العیون، صفحہ 280؛ روضتہ الصفا، جلد 3، صفحہ 13؛ انوار نعمانیہ، 127)

آپ کی ولادت باسعادت کے متعلق علامہ مجلسی اور علامہ محمد پارسا تحریر فرماتے ہیں کہ جناب ام البنین سلام اللہ علیہا کا کہنا ہے کہ جب امام علی رضا میرے بطن میں رہے مجھے حمل کی گرانباری قطعی محسوس نہیں ہوئی۔ میں اکثر خواب میں تسبیح و تہلیل اور تمجید و تحمید کی آوازیں سنا کرتی تھی۔ جب امام علی رضا علیہ السلام پیدا ہوئے تو آپ نے زمین پر تشریف لاتے ہی اپنے دونوں ہاتھوں کو زمین پر ٹیک دیئے اور اپنا فرق مبارک آسمان کی طرف بلند کر دیا۔ آپ کے لبھائے مبارک جنبش کرنے لگے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے آپ خدا سے باتیں کر رہے ہیں۔

سر تا قدم یہ سورہ رحمان کی بہار

والشّمس ان کے چہرہ اقدس کا ہے سنگھار

زلفوں کا ان کی سورہ الیل میں نکھار

قرآں فدا ہے ان پہ یہ قرآن نثار

وسعت ملی ہے عرش کو ان کی جبین سے

تخلیق ان کی نورٍ شہٍ مر سلین سے

حضرت امام علی رضا علیہ السلام 183 ہجری میں 29 برس کو پہنچے تھے کہ آپ کہ پدر بزرگوار حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کو ہارون رشید نے قید خانہ میں شہید کر دیا۔ مرزا دبیر کہتے ہیں:

مولا! یہ انتہائے اسیری گزر گئی

زندان میں جوانی و پیری گزر گئ

امامؑ کی نعش مبارک بغداد کے پُل پر رکھ دی گئی تاکہ دور و نزدیک والے سب دیکھ لیں جب گزرنے والوں کی بھیڑ ہٹی تو امامؑ روئے مبارک ظاہر ہوا۔ آپؑ جنازہ اس عالم میں اٹھایا گیا کے پیروں میں لوہے کی بیڑیاں پڑی تھیں۔

حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے شیعوں کو آپؑ کی حیات طیبہ سے درس حاصل کرنے کی ضرورت ہے کہ آپؑ نے اپنے دور کے ظالم حکمران، مامون رشید کی سیاسی چال کو کس طرح نا کامیاب بنایا۔ آج کے حالات بھی کچھ ملتےجلتے ہیں، لیکن موجود علماء کرام حکومت کی چال میں پھنستے نظر آ رہے ہیں اور سیاسی منصب اور دولت و ثروت کے حرص میں مبتلا ہیں۔ حالانکہ ایسے علماء کرام کو سوشل میڈیا اور اخبارات میں سخت تنقید کا سامنا ہے۔ اگر قارئین کرام و عزاداران امام علی رضا علیہ السلام تاریخ کا مطالعہ کریں تو دیکھیں گے کہ مامون رشید نے خاندانٍ رسولؐ کی سب سے معظم شخصیت امام علی رضا علیہ السلام کو پہلے خلیفہ بنانے پر اصرار کیا۔ آپؑ نے بے خوف ہو کر انکار کر کے مامون رشید کو کامیابی کی امیدوں میں غرق کر دیا۔

حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی طرز زندگی سے شیعان اہلبیت کی تربیت یہ ہوتی ہے کہ ظالم حکمران سے کس طرح اپنے علم سے حفاظت کی جائے۔ ظالم کی تدبیر مکڑی کے جالے سے بھی زیادہ کمزور ہے۔ ملاحظہ فرمائیں: مامون رشید نے امام علی رضاؑ کے خلاف ایک اور سازش رچی جس کے ذریعہ آپ کو گرفتار کرنے اور قتل کرنے کی دھمکی دے کر ولی عہد ہونے پر اصرار کیا۔ آپؑ نے اس شرط پر کہ حکومت کے انتظامیہ داخلی امور میں حصہ نہ لیں گے یہ عہدہ قبول کر لیا۔ امامؑ کا کہنا تھا کہ اگر تیرا عہدہ خلیفہ خدا کی طرف سے ہے تو اس کو کسی دوسرے کو دینے کا مجاز نہیں اور اگر یہ عہدہ بندوں سے ملا ہے تو میرے لئے جواز نہیں۔ مامون رشید کا یہ سیاسی قدم آپؑ پر حکومت کی کڑی نظر رکھنے اور آپ کے عوامی رابطہ پر قد غن لگانے کے لئے تھا تاکہ آپؑ عوام میں علم، تعلیمات اور نظریات سے ہر فل عزیز نہ بن جائیں اور حکومت کے لئے خطرہ نہ بنیں اور علویوں سے حکومت اور عباسیوں کے مظالم کے بدلے سے عباسیوں کے جان و مال محفوظ رہیں۔ اس مقام پر یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ آپؑ کے ولی عہد کو قبول کرنے کا ایک اہم فائدہ یہ ہوا کہ آپؑ کے علم و کمالات کی نشر و اشاعت حکومتی سطح پر ہوگئی اور آپؑ کے شکست خوردہ مخالفین ہی آپؑ کے کمالات کی ترویج کا باعث بنے۔ آپؑ نے علم خدا اور رسولؐ، تعلیمات قرآنی و محمدؐ و آل محمدؐ کو ہر ہر قدم و موقع پر ظاہر کیا اور عملی ثبوت دیئے۔

حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی شہادت انگریزی کیلنڈر کے اعداد و شمار کے مطابق 818 عیسوی اور اردو کیلنڈر کے مطابق 201 ہجری میں ہوئی یعنی 1206 (بارہ سو چھ) سال پہلے اور 1245 (بارہ سو پینتالیس) سال قبل (اردو کیلنڈر کے مطابق)۔ اس وقت امام علی رضاؑ کے علمی کمال کس افق پر تھے یہ تحریر کرنا اپنوں کو آشنا کرانا مفید ممکنہ لوگوں میں علم کے نظریے دلچسپی پیدا کرے فروغ پائے۔ حالانکہ علم کے سلسلے میں ہر فرد بخوبی واقف ہے کہ آل محمدؐ کو بلند تر علم درجہ پر قرار دیا گیا تھا۔ ایسا صرف دوست ہی نہیں بلکہ دشمن بھی اقرار کرتے ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ سبھی آل محمدؐ کو علمی فیوض پھیلانے کا زمانے نے قلیل موقع فراہم کیا۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے بعد اگر کسی کو موقع حاصل ہوا ہے، وہ آپؑ کے نوہ پسر، امام علی رضا علیہ السلام ہیں۔

قارئین کرام کے لیے ضروری ہے کہ یہ معلومات تحریر کی جائے جب امام علی رضا علیہ السلام ابھی امامت کے منصب پر فائز بھی نہیں ہوئے تھے اس وقت آپؑ کے پدر بزرگوار، امام موسیٰ کاظمؑ اپنے تمام فرزندوں اور خاندان کے افراد کو نصیحت فرماتے تھے کہ تمھارے بھائی علی رضاؑ عالمٍ آل محمدؑ ہیں۔ اپنے دینی مسائل کو ان سے دریافت کر لیا کرو۔ اور جو کچھ فرمائیں اسے یاد رکھو۔ حضرت موسیٰ کاظمؑ کی وفات کے بعد جب آپ مدینہ میں تھے اور روضہ رسول ﷺ پر تشریف فرماتے تھے تو علمائے اسلام مشکل مسائل میں آپ کی طرف رجوع کرتے تھے۔ اس مقام پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ محمد بن عیسیٰ القطینی کا بیان ہے کہ میں نے ان کے جوابات جمع کیے تھے، ایک شمار کے مطابق 18000 ہزار کی تعداد میں تھے۔

حضرت امام علی رضا علیہ السلام نے سلطنت کی ولی عہد پر فائز رہتے ہوئے تاریخ کو دہرایا اور وہ بھی علی رضا علیہ السلام کے لباس میں علی المرتضیٰ علیہ السلام کی سیرت دنیا کی نگاہوں کے سامنے آگئی۔ آپؑ نے قیمتی قالین بچھوانا نا پسند کیے اور جاڑے میں بالوں کا کمبل اور گرمی میں چٹائی کا فرش استعمال کیا۔ آپؑ جب کھانا نوش فرماتے تو آپ کے ہمراہ دربان، خدمتگار اور تمام غلاموں کو اپنے ساتھ شریک فرماتے تھے۔ داب و آداب، شاہی کے خوگر ایک بلخی شخص نے ایک دن کہہ دیا کہ حضور اگر ان لوگوں کے کھانے کا انتظام الگ کیا جائے تو کیا حرج ہے؟ یہ بات سن کر حضرت امام علی رضا علیہ السلام نے متنبہ کرتے ہوئے اس شخص سے فرمایا کہ خالق سب کا اللہ ہے، ماں سب کی حوّا ہے اور باپ سب کے آدمؑ ہیں۔ یہ بات ذہن نشین کریں کہ جزا و سزا ہر ایک کی اس کے عمل کے مطابق ہوگی، پھر دنیا میں فرق کس لئے ہو۔

امام علی رضا علیہ السلام کا القاب صابر، زکی، ولی، رضی اور وصی ہیں لیکن لقب رضا کی توجیہ جانیں۔ علامہ طبرسی تحریر فرماتے ہیں کہ آپؑ کو رضا اس لئے کہتے تھے کہ آسمان و زمین میں خداوند عالم، رسول اکرم اور آئمہ طاہرین، نیز تمام مخالفین اور موافقین آپ سے راضی تھے۔ (اعلام الوریٰ)

علماء کرام نے آپ کی تصانیف میں صحیفتہ الرضا، صحیفتہ الرضویہ، طب الرضا اور مسند امام الرضا کا حوالہ دیا ہے اور بتایا ہے کہ یہ آپؑ کی تصانیف ہیں۔ صحیفتہ الرضا کا ذکر علامہ مجلسی، علامہ طبرسی اور علامہ زمخشری نے کیا ہے۔ (چودہ ستارے، صفحہ 457)

حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے متعدد کرامات مشہور و معروف ہیں جیسے قالین سے زندہ شیر بنانا، دلوں کے راز جاننا، بارش ہونے کا مقام اور وقت بتانا، دل کی بات جان کر مدد فرمانا و مرادیں پوری کرنا، ابو اسماعیل کے لبوں پر دست مبارک پھیر کر اُسے عربی میں گویا بنا دیا اور آپؑ نے خاک زمین سُونگھ کر اپنی قبر کی جگہ بتادی۔

حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی شہادت 17 صفر المظفر 48 سن مبارک 201 ہجری یوم جمعہ بمقام طوس واقع ہوئی (818 عیسوی) جلاء العیون، صفحہ 280؛ انوار نعمانیہ، صفحہ 127؛ جنات الخلود، صفحہ 31)۔ آپؑ کی شہادت کے وقت آپؑ کے پاس کوئی عزیز و اقرباء و اولاد میں سے کوئی نہ تھے۔ ایک تو آپؑ خود مدینہ سے غریب الوطن ہو کر آئے۔ بلکہ آپؑ سفر حالت میں بعالمٍ غربت میں شہادت پائی۔ اسی لئے آپ کو غریب الغربا کہتے ہیں۔ واقعہ شہادت کے متعلق مورخین لکھتے ہیں کہ حضرت امام علی رضا علیہ السلام نے فرمایا تھا "فما یقتلنی واللہ غیرہ" خدا کی قسم مجھے مامون کے سوا کوئی اور قتل نہیں کرے گا اور میں صبر کرنے پر مجبور ہوں (دمعہ ساکبہ، جلد 3، صفحہ 71). آپ کو شہر طوس کے سیک گاؤں سناباد کے مقام بقعہ ہارونیہ میں دفن کیا گیا۔

حضرت امام علی رضا علیہ السلام ولی ابن ولی، تیسرا علیؑ، ہر عقل میں خفی، ہر چشم میں جلی، یوسف فاطمہ، کوہٍ شرف، خورشید حسن، نفس خدا، فخر بشر، آبرو کائنات، علم محمدؐ کے افق، قرآن کے سوروں کا عرق، وارث کسا، راہ جناں، اسلام کی ضیاء، کشتی دین، علم لدّنی سے سرفراز، موجیں یقین، عرفان صبر، خلق عظیم، منبع علم، نمونہ عمل اور چراغ ہدایت و حیات، اب یہ نہ پوچھ کہ کیا ہے:

علم و عمل کا پلّہ میزان بن گئے

دنیا میں کردگار کی پہچان بن گئے

تبصرہ ارسال

You are replying to: .