تحریر: سید مشاہد عالم رضوی
حوزہ نیوز ایجنسی! ماہ عزاء کے اختتام پر آپ کو ہر طرف اس نوحہ کی گونج سنائی دے گی اس کے مضمون پر توجہ دیں تو غم واندوہ کے بادل ذہنوں پر چھانے لگتے ہیں اور امام باڑے اور عزاء خانے سنساں و ویران نظر آنے لگتے ہیں کہ کیا واقعاً عزت و شرافت والا عظیم مہمان ہم سے رخصت ہو جائے گا اور دل پر پتھر رکھ کر کہنا پڑے گا ۔۔۔ کرب و بلا کے پیاسہ مہمان خدا حافظ ۔۔۔
کس زبان سے کہوں کس دل سے کہوں ہم نے تو یہی سوچا تھا کہ اب کہ بار زھرا کے چاند عرش بریں کے تارے سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کو اپنے دل میں مہمان کروں گا انہیں کبھی بھی رخصت نہیں کروں گا اور شہزادہ کونین کو اپنی زندگی میں بسا لوں گا جینا اور مرنا انہیں کے اصولوں کے مطابق ہوگا۔۔۔
مگر شاید ہم اچھے میزبان نہیں ٹہرے اور جیسا ہمارا مہمان ہے اس طرح کی پذیرائی نہ کر سکے ۔۔۔ وہ ہم سے صداقت کے طالب تھے ہم جھوٹ بول تے رہے وہ ہم سے امانت داری کے طالب تھے ہم اپنے ساتھ اور اپنی قوم کے ساتھ خیانت کرتے رہے وہ ہم سے دینداری کا مطالبہ کرتے رہے اور ہم نے دین کو کوئی اہمیت نہیں دی وہ ہم سے تحصیل علم کے طالب تھے اور ہم نے جادہ علم کو دوسروں کے لئے رہا کردیا وہ ہم سے آپس میں وحدت ومحبت کے فروغ کا مطالبہ کرتے رہے اور ہم آپسی اختلافات کو ہوا دیتے رہے۔۔۔
خدایا ؛
ہم نے اپنے عزیز مہمان کی کون سی بات مانی ہے کہ ہم یہ دعویٰ کریں کہ انہیں رخصت کررہے ہیں جبکہ اس عالم میں وہ ہمارے مہمان ہی کب ہوئے؟؟
اللہ اللہ یہ تلخ نوائی نہیں ہے اظہار حقیقت ہے
حسین والوں کو دور حاضر میں کس مقام پر ہونا چاہیے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ نہیں ؟
ایسا امام ایسا مکتب دنیا میں کس کے پاس ہے؟
جو پاک وپاکیزہ عقل و خرد اور طیب و طاہر جذبات و عواطف سے ہم آہنگ بھی ہو اور انسانی تقاضوں کے موافق بھی کچھ آگے بڑھ کر بھی سوچنا ہے یا نہیں؟ ۔۔۔
٧ربیع الاول ١٤٢٦ ھ
مطابق ستمبر ٢٠٢٤