۲۹ شهریور ۱۴۰۳ |۱۵ ربیع‌الاول ۱۴۴۶ | Sep 19, 2024
News ID: 401660
21 اگست 2024 - 15:31
کربلا

حوزہ/اب کربلا کو ایک انوکھی جہت مل گئی جب پنجتن پاک کی آخری نوری شخصیت ‘ولایت الٰہی کے حامل امام حسین ؑ اب اکیلے گرداب مصائب میں آگئے۔یزید بدکار پہلے ہی خلافت اسلامیہ کا ناجائز تخت نشین ہوا تھا۔امام عالی مقامؑ دیکھتے ہیں کہ منافقین اسلام کے لباس میں اسلام مخالف سرگرمیوں میں آئے روز تیزی لارہے ہیں۔

تحریر : حسین حامدؔ

حوزہ نیوز ایجنسی|

غریب و سادہ و رنگین ہے داستان حرم

نہایت اسکی حسین ؑ ابتدا ہے اسماعیل ؑ

علامہ مشرق سر محمد اقبال ؒ نے اپنے اس شعر میں بقائے انسانیت کی خاطر الٰہی مشن کے دو عظیم محافظین حضرت اسماعیل اور حضرت امام حسین علیھما السلام کی قربانیوں میں مماثلت کو جامع انداز میں اس طرح بیان کیا ہے جیسے سمندر کو کوزے میں بند کردیا ہے۔کعبۃ اللہ اور اسکے مخصوص حدود (حرم) کی مقدس داستان مکہ شریف کی ایک بے آب و گیاہ وادی سے حضرت اسماعیل کی معصومیت اور پیاسی حالت میں اسکی ایڑیوں کی رگڑ سے شروع ہوئی ہے۔حضرت ابراھیم خلیل اللہ علیہ السلام کی مثالی فرمانبردار زوجہ کے رضائے الٰہی کی خاطر صبر وتحمل سے اس داستان کی جڑوں نے قرار پایا ہے اب جبکہ حضرت اسماعیل ؑاپنے والد حضرت ابراھیم ؑ کے ساتھ دوڑ دھوپ کرنے لگے تو ایک دفعہ باپؑ نے کہا کہ بیٹا میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں خود تمھیں ذبح کر رہاں ہوں تو تم بھی غور کرو تمہاری اس میں کیا رائے ہے۔حضرت اسماعیل ؑ نے کہا بابا جان ! جو آپ کو حکم ہوا ہے اسکو بے تامل بجالائیں اگر خدا نے چاہا تو مجھے آپ صبر کرنے والوں میں پائیں گے پھر جب باپ ؑنے بیٹے کو ذبح کے لئے ماتھے کے بھل لٹادیا تو خدا نے آواز دی اے ابراھیم ؑ تم نے اپنے خواب کو خوب سچ کر دکھایا اور اب تم دونوں کو بڑے مرتبے ملیں گے۔اِنَّ ھٰذَا لَھُوَ الْبَلَاء ُ الْمُبِیْن o وَفَدَیْنٰہُ بِذِبْحٍ عَظِیْم (سورہ صٰفٰت آیہ ۱۰۶ اور ۱۰۷)مفہوم :اسمیں شک نہیں کہ یہ یقینی بڑا صریحی امتحان تھا اور ہم نے اسماعیل ؑ کا فدیہ ایک ذبح عظیم( یعنی عظیم قربانی قرار دیا)۔ان ہی باپ بیٹے نے حرم کو آباد کیا ۔بیت اللہ کی دیواریں کھڑی کی جارہی تھیں اور ابراھیم ؑ اللہ سے یہ دعا کرتے تھے :’’ اے ہمارے پالنے والے تو ہمیں اپنا فرمانبردار بندہ بنا اور ہماری اولاد سے ایک گروہ پیدا کر جو تیرا فرمانبردار ہو (جُز از آیہ ۱۲۷ سورہ بقرہ)۔اللہ سمیع العلیم نے خلیل اللہ علیہ السلام کی دعا قبول فرمائی اور انکے فرمانبردار بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسل طیبہ سے عرب کے نامور سردار حضرت عبد المطلب کے بیٹے حضرت عبد اللہ کے گھر حضرت محمد مصطفی پیغمبر آخر الزمان تشریف لائے جو دونوں جہانوں کے لئے باعث رحمت ٹھرے۔

علامہ مشرق ؒ کے مذکورہ بالا شعر کے دوسرے مصرعہ میں لفظــ’’ نہایت‘‘ اپنے اندر ایک وسیع مفہوم کا حامل ہے۔اس’’ نہایت ‘‘کی ابتدا عیاں ہے لیکن انتہاکی کوئی حد نہیں ہے۔

اللہ اللہ بای بسم اللہ پدر

معنی ذبح عظیم آمد پسر (علامہ مشرق ؒ)

داستان حرم کی یہ’’ نہایت‘‘ تاریخ اسلام کی ایک کامل ترین تحریک ہے جس کا آغاز قرآنی آیت ’’ وَاَنْذِر عَشِیْرَتَکَ الاْقْرَ بِیْنَ‘‘ (آیہ ۲۱۴ سورہ شعراء)کے نازل ہونے کے بعد جناب ابو طالب ؑ کے گھر میں دعوت ذو العشیرہ سے ہوا جہاں اللہ کے رسول حضرت محمد مصطفی ؐنے حضرت علی ؑ کی گردن مبارک پر اپنا ہاتھ رکھا اور فرمایا ! اِنَّ ھٰذَا اَخِی‘وَصِیٖ وَ خَلِیْفَتِی فِیْکُم فَا سْمَعُو لَہٗ وَاَطِیْعُو ا(ترجمہ:- یہ علی تمہارے درمیان میرا بھائی ‘میرا وصی اور میرا جانشین ہے اس کی بات کو سنو اور اس کے فرمان کی اطاعت کرو)۔رسول اللہ ؐ کے اس فرمان کو سن کر حاضرین کا ابو طالب ؑ سے تمسخر برے لہجے کے ساتھ کہنا’’کہ اب تم اپنے بیٹے کی باتوں کو سنو اور اسکے فرمان پر عمل کیا کرو‘‘ کوئی سطحی بات نہیں ہے بلکہ الٰہی انتخاب کی یہی مخالفت کربلا کے معرکہ جاودانی کا نقطہ آغاز ہے۔

قرآن میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی۔اِنْ ھُوَ اِلَا وَحْیٌ یُوْحٰی(سورہ النجم آیت ۲ اور ۳)

ترجمہ: ’’اور وہ (محمد ؐ)تو اپنی نفسانی خواہش سے کچھ بولتے ہی نہیں یہ تو بس وحی ہے جو بھیجی جاتی ہے‘‘۔ اس لئے پیغمبر ؐ کی جانشینی کا انتخاب کوئی عوامی انتخاب نہیں تھا بلکہ یہ ایک الٰہی انتخاب تھا۔اللہ کے حکم سے یہاں پر اس خلافت الٰہی کی ایک اصطلاح سے مراد ولایت علی ؑ ہے جس کا اعلان متعدد مقامات جن کا تذکرہ بعد میں آئے گا پر رسول اسلام ؐ نے کیا ہے۔ولایت امام ہی امامت ہے جس کے بارے میںامام رضا ؑ کی ایک حدیث میں ذکر ہو ہے ا کہ امامت خلافت خدا اور خلافت رسول ؐ ‘مقام امیر المومنین علی ابن ابی طالب ؑ اور میراث حسن و حسین علیھم السلام ہے ان معصوم ہستیوں کے بعد ولایت امام کا سلسلہ ختم نہیں ہوا بلکہ باقی ائمہ طاہرین ؑ کے دور میںیہ سلسلہ ۲۲۹ھ یعنی امام مھدی عج کی غیبت کبریٰ تک چلا ۔اسلام کو جتنا نقصان منافقین نے پہونچایا اتنا کفار کے ہاتھوں نہیں ہوا۔جیسا کہ اوپر ذکر ہوا ہے کہ پیغمبر اسلام ؐ نے کئی مقامات پر ولایت امام کا اعلان کردیا ہے جس کا منافقین کو وقت وقت پر گوارہ نہ ہونا کربلا کااصل پس منظر ہے۔

رسول خدا ؐ کے غزوات کا مطالعہ نہایت ہی دلچسپ ہے تعصب کی عینک پھینک کر دیکھا جائے کہ ان غزوات میں رسول اسلام ؐ کے طرفداروں میںکھرے اور کھوٹے جُداگانہ نظر آتے ہیں۔بغض اہلبیت رسول ؑ میں ڈھوبے منافقین کی چالیں صاف نظر آتی ہیں۔ان غزوات میں سے آخری غزوہ تبوک کے نام سے اسلامی تاریخ میں ۹ ؁ھ میں انجام پایا۔نبی اکرم ؐ تبوک روانہ ہونے کے لئے تیار ہوئے۔منافقین نے جنگ میں شرکت کرنے سے انکار کر لیا کہ نبی ؐ کی روانگی کے بعد مدینہ میں اپنی منافقانہ سرگرمیوں کو رواج دیں۔رسول اسلام ؐ ان منافقانہ چالو سے باخبر تھے ۔حضرت علی ؑ کو بطور جانشین مدینہ ہی میں قیام کرنے کے لئے کہتے ہوئے فرمایا:

اَنْتَ مِنی بِمَنْزِلَۃِ ھَارُوْنَ مِنْ مُوْسیٰ اِلَا اَنَہٗ لَا نَبِی بَعْدِی

ترجمہ: ’’اے علی تمہارے لئے میرے نزدیک وہی منزلت ہے جو ہارون کے لئے موسیٰ کے نزدیک تھی سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔

اس موقعہ پر بھی علی ؑ کے حق میں یہ اعلان ولایت منافقین پر شاق گزرا اور علی ؑ کے مدینہ میں ہی رہنے سے انکے چہرے بے نقاب اور رسوا ہوئے ساتھ ہی انکے ناپاک منصوبے طشت از بام ہوئے ۔ایک اور مشہور تاریخی واقعہ ہے مولا علی ؑ کا حالت رکوع میں زکوٰۃ دینا اور اسکے فوراً بعد پیغمبر اسلام ؐ کا اعلان مَنْ کُنْتُ مَوْلَا فَھٰذَا عَلِی ٌ مَوْلَاہُ کرنا۔ منافقین یہاں پھر ایک بار آگ ببولا ہوئے لیکن انکے ناپاک عزائم میںکبھی کمی واقع نہ ہوئی۔اعلان ولایت علی ؑ آخر کار ۱۸؍ ذی الحجہ ۱۰ ؁ھ غدیر خم کے مقام پراپنے زیبا ترین عروج کو پہونچا ۔علی ؑ کا ہاتھ پکڑ کر لاکھوں مسلمانوں کی موجودگی میں رسول اللہ ؐ نے پھر ایک بار اعلان کیا مَنْ کُنْتُ مَوْلَا فَھٰذَا عَلِی ٌ مَوْلَاہُ ۔یہ ولایت علی ؑکے متواتر اعلانات اور مخالفین کا مسلسل منفی ردعمل جنگ کربلا کے مختلف زینے ہیں۔

پیغمبر اسلام ؐ کے ظاہری وصال کے فوراً بعد سقیفہ کا دلخراش واقعہ پیش آیا۔ولایت الٰہیہ کے علمبردار حضرت علی ؑ سے بیعت لینے کی غرض سے ان کے گھر پر حملہ ہوا جسمیں جناب فاطمۃ الزھراء ؑ زخمی ہوئیں اور ان کا بچہ ساقط ہوگیا اور کچھ ہی عرصہ کے بعد انکی شہادت واقع ہوئی ۔ولایت حضرت امیر المومنین ؑ کو نظر انداز کیا گیا گویا کربلا کی جنگ شدت کی اور بڑھنے لگی۔

امام علی ؑ نے مختلف مواقع پر پیغمبر ؐ کی جانشینی کے مسئلہ میں اپنے حق کو یاد دلایا جس کی مشہور ترین مثال کتاب نہج البلاغہ میں درج خطبہ شقشقیہ ہے۔مولا علی ؑ فرماتے تھے ! خدا کی قسم جب سے اللہ نے اپنے رسول ؐ کو دنیا سے اٹھایا برابر دوسروں کو مجھ پر مقدم کیا گیا اور مجھے میرے حق سے محروم رکھا گیا۔حق سے اس محرومی کے طویل دور میں شاہ ولایت مولا علی ؑ مشاہدہ کر رہے تھے کہ کس طرح عوام الناس کجروی‘متلون مزاجی اور بے راہ روی میں مبتلا ہو رہا ہے لیکن دل برداشتگی کے عالم میں امام ؑ کو صبر ہی قرین عقل نظر آیا تھا چونکہ حقیقی خلافت امیر المومنین امام علی ؑ کے پاس ہی تھی جس کا اصل منشا اجر ولایت الٰہی تھا۔مگر دنیوی حکومت سلطنت کی صورت میں کسی اور کے پاس تھی اسلئے مولا علی ؑاس دور میں یہ خوف محسوس کرتے رہے کہ کہیں دنیا والے فریب کاروں کے پھندے میں نہ پھنس جائیں اور حق سے منھ موڑ کر ضلالت و گمراہی میں نہ گر جائیں۔

تاریخ میں خاندان رسالت کے سنگین ترین دشمن بنو امیہ ٹھرے ہیں۔ جنھوں نے رسول اللہ کی پیروی کے بجائے ہمیشہ اپنے نفس کی پیروی کی۔بنو امیہ نے حکومت ہاتھ آتے ہی بیت المال لوٹنا شروع کردیا ۔انکی بدعنوانیوں سے مسلمانوں کے دل دُکھے بغیر نہ رہ سکے۔جلیل القدر صحابی گوشہ نشین کردئیے گئے جن پر غربت چھائی ۔فدک جسے ایک وقت صدقہ عام کہہ کر جناب زھراء سلام اللہ علیھا سے چھین لیا گیا تھامروان کو عطائے خسروانہ کے طور پر دیا گیا۔بنو امیہ کی ا ن ساری ناپسندیدہ حرکات کا مولا علی ؑ بغورمشاہدہ کررہے تھے۔

ایک اور مرحلہ جو کربلا کے پہلو کو نمایاں کرنے میں کچھ کم نہیں ہے وہ ہے امیر المومنین امام علی ؑ پر حضرت عثمان ؓ کے قتل کی تہمت جن قاتلوں نے حضرت عثمان ؓ کے خون سے اپنے ہاتھ رنگے تھے وہی مولا علی ؑ کو قتل کے مورد الزام ٹھرائے کیونکہ ان ہی لوگوں نے سابق میں بیت المال کو کھلے ہاتھوں لوٹا تھا اور چاہتے تھے کہ انکے ایسا کرنے سے شاید اسطرح حضرت علی( ؑ ظاہری طور بحیثیت خلیفہ چہارم )اُن سے وہی روش اختیار کریں جس کے یہ پہلے دور میں عادی رہ چکے تھے۔منافق قاتلوں کی شیطانی چوکڑی کتنی مکار تھی کہ ۱۸ؑ ذی الحجہ ۳۵ ؁ھ کی تاریخ کا حضرت عثمان ؓ کے قتل کے لئے اس لئے انتخاب کیا تاکہ ۱۸ؑ ذی الحجہ ۱۰؁ھ کے اعلان غدیر کی اہمیت ختم ہوجائے۔غرض مخالفین علی ؑ کی اس جماعت نے حضرت عثمان ؓ کے خون آلود کرتہ کا جھنڈا بلند کیا اور مولا علی ؑ کے خلاف ایسی شورش برپاکردی جس نے دنیا اسلام کو سخت ترین نقصان پہونچایا جس کی تلافی نہ آج تک ہوئی ہے نہ آئیندہ کچھ امکان نظر آتا ہے۔ان باغیوں نے مولا علی ؑ کے قلیل دور ِ حکومت کو ہنگامہ آرائی میں تبدیل کردیا لیکن ان ساری باطلانہ کارستانیوں سے خلافت الٰہیہ کے علمبردار کی عظمت و استقلال پرذرہ برابر اثر نہ پڑا۔جس خلافت کا سابق میں ڈھانچہ بکھرا ہوا پڑا تھا اسکو سمیٹا اور خلافت کے ایسے شرعی قواعد و اصول وضع کئے جو رہتی دنیا تک خلافت کے قیام و استحکامت کے لئے نمونہ عمل ٹھرے۔

کربلا نے اب ایک اور سمت اختیار کر لی۔حضرت علی ؑ کی شہادت ۲۱؍رمضان المبارک ۴۰ ؁ھ یوم جمعہ کو واقع ہوئی اسی روز ہزاروں میں لوگوں نے امام حسن مجتبیٰ ؑ کی بیعت کی۔لیکن بغض اہلبیت ؑ سے مخمور منافقین حسب روایت سابق اپنی منافقانہ روش سے باز نہ آئے۔امام حسن ؑ کی فوج کو کمزور کرنے کی ہر ممکن کوشش ہوئی اور نتیجہ یہ ہوا کہ امام حسن ؑ کو اہم شرائط پر امیر شام سے صلح کرنے کے بغیر کوئی چارہ نظر نہ آیا۔حضرت علی ؑ جن کی شجاعت کا رعب پورے عرب میں چھایا ہوا تھا کی شہادت سے سوئے ہوئے فتنے بیدار ہوئے اور ولایت امام مخالف سرگرمیوں میں سرعت لائی گئی۔مذکورہ صلح نامے میں جتنے بھی شرائط تھےنہ کسی کی پرواہ کی گئی اور نہ کسی پر عمل ہوا۔صلح میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ امیر شام کو اپنے بعد کسی کو خلیفہ نامزد کرنے کا حق نہ ہوگا۔لیکن اپنی ہی زندگی میں اپنے بدترین خلق بیٹے یزید کے لئے لوگوں سے بیعت لینی شروع کی۔یہ وہی یزید پلید ہے جو نشہ اقتدار میں کہا کرتا تھا کہ ’’ بنو ہاشم نے سلطنت حاصل کرنے کے لئے ایک ڈھونگ رچایا تھا ورنہ کوئی وحی آئی ہے اور نہ کوئی رسالت۔یہ وہی یزید ہے جس کے فسق و فجور کا یہ عالم تھا کہ لوگ اپنی ماں ‘ بہنوں اور بیٹیوں سے نکاح کر رہے تھے۔شرابیں پی جارہی تھیں اور لوگوں نے نماز ترک کردی تھی۔اس پلید نے مدینہ پر اس طرح لشکر کشی کی کہ ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام ہوا اور ہزار ہا صحابی شہید کئے گئے مدینہ شریف کو خوب خوب لوٹا گیا۔ہزاروں باکرہ لڑکیوں کی بکارت زائل کی گئی ‘ مکہ پر چڑھائی کی اور کعبۃ اللہ کو آگ لگادی جس سے کعبہ کی چھت اور اس دنبہ کا سینگ جو فدیہ حضرت اسماعیل ؑ میں جنت سے بھیجا گیا تھا اور وہ کعبہ کی چھت میں آویزاں تھا سب کچھ جل گیا۔(بحوالہ تاریخ الخلفاء از علامہ جلال الدین سیوطی ؒ )۔اسکے باوجود افسوس ہے کہ آج کے بعض نام نہاد مسلمان اس ناپاک وجود کی حمایت کرتے ہیں اور فرزند رسول ؐ امام حسین ؑ کی شہادت کی عظمت کو کم کرنے کی بے جا کوشش میں لگے ہیں۔ مروان حاکم مدینہ نے زمانہ کی ولایت و امامت کے علبرداراور صبر و استقامت کے مجسم امام حسن ؑ کو زہر دلوایا۔اسطرح امام ؑ کی شہادت ۲۸؍ صفر ۵۶ ؁ھ کو واقع ہوئی۔

اب کربلا کو ایک انوکھی جہت مل گئی جب پنجتن پاک کی آخری نوری شخصیت ‘ولایت الٰہی کے حامل امام حسین ؑ اب اکیلے گرداب مصائب میں آگئے۔یزید بدکار پہلے ہی خلافت اسلامیہ کا ناجائز تخت نشین ہوا تھا۔امام عالی مقامؑ دیکھتے ہیں کہ منافقین اسلام کے لباس میں اسلام مخالف سرگرمیوں میں آئے روز تیزی لا رہے ہیں۔ یزید لع نے فتنہ و فساد کھڑا کیا ہے۔حدود خدا کو معطل کردیا ہے۔بیت المال کو ہڑپ کیا ہے۔حرام خدا کو حلال اور حلال خدا کو حرام قرار دیا ہے۔اس پلید کو سوائے امام عالی مقام ؑ کوئی روکنے والا نہیں تھا۔چنانچہ امام حسین ؑ جانتے تھے کہ روز اول سے منافقین اپنے حربوں سے اسلام لوگوں کے دلوں میں رائج نہیں ہونے دیتے ہیں اور اسکے احکام و قواعد آشکار ہونے میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ان حالات میں اگر امام حسین ؑ بنی امیہ کے اعمال ظاہر نہ کرتے اور پیغمبر اکرم سے انکی دشمنیوں کو آشکار نہ کرتے تو لوگ یہی خیال کرتے کہ بنی امیہ کے مظالم بھی دین کے اجزا ہیں۔حسب روایت سابق امام حسین ؑسے بھی بیعت کا مطالبہ ہوا جس کے رد عمل میں انہوں نے فرمایا ! خُدا کی قسم میں ذلیلوں کی طرح اپنا ہاتھ تمہارے(یعنی منافقین کے) ہاتھ میں نہیں رکھوں گا اور غلاموں کی طرح بھاگ نہیں جاؤں گا۔

اہل کوفہ کی دعوت کے پیشِ نظر امام عالی مقام ؑ رجب ۶۰؁ھ مدینہ سے مکہ کے لئے عازم ہوکر روانہ ہوئے ۔درمیان میں حج کو عمرہ میں تبدیل کیا اور کوفہ روانہ ہوئے ولایت الٰہیہ کے حقیقی پیکر امام حسین ؑ جس قدر رذالت کے مجموعہ یزید پلید کے فسق و فجور سے پیدا شدہ حالات و واقعات سے سارے انسانوںسے آگاہ ترین تھے۔اتنی ہی ان کے اوپر اپنے جد امجد حضرت محمد مصطفی ؐ کے دین مبین کی دفاع کی ذمہ داری عظیم اور سنگین تھی۔امام حسین ؑ کے مقصد قیام میں یہ دونوں چیزیں مضمر تھیں۔حکومت اسلامی ہاتھ آئے تو دین و شریعت کے قوانین کا اجرا بغیر کسی رکاوٹ ولایت امام کے تحت ہو اور اصلاح امت کی بروقت شروعات ہو۔اگر ایسا ممکن نہ ہو تو امام ؑ اپنے گھرانے کے افراد اور اصحاب کے ساتھ دین اسلام بچانے کے لئے سربکف ہیں۔

۲؍ محرم الحرام ۶۱ ؁ھ کو حضرت امام حسین ؑ کربلا پہونچنے ۔یزیدی لشکر نے انھیں طرح طرح کی مشکلات میں گھیر لیا۔امام ؑ حجت کا فریضہ انجام دیتے رہے انکے وعظ و نصائح کا منافقین پر کوئی اثر نہ پڑا۔با لآخر ۱۰؍ محرم الحرام ۶۱ ؁ھ کو اپنی‘اپنے بھائی بند‘اپنی اولاد اور اپنے اصحاب مظلوم کی شہادت سے دین اسلام کو حیات ابدی بخش دی ۔جس داستان کا آغاز بی بی حاجرہ اور انکی گود پلے اسماعیل ؑ نے کیا تھا۔اس کا انجام کربلا کے دہکتے ہوئے ریگستان میں خاتون جنت کی گود میں پلے امام حسین ؑ کی شہادت پر ہوا۔

دین مبین اسلام کی ہر چند دفاع میں ائمہ طاہرین ؑ نے یہ جنگ ناحق قوتوں بنی امیہ اور بنی عباسی کے ساتھ جاری رکھا۔یہ معصوم ہستیاںظلم و جور سہتے سہتے شہادتیں پیش کرتے رہیں اور اسطرح حق کا بول ہمیشہ بالا ہوتا رہا۔

کربلا کی یہ جنگ آج بھی جاری ہے جو اعلان غدیر کے منکروں کے ساتھ لڑی جارہی ہے۔غدیر کا منکراصلاً ولایت امام کا منکر ہے۔امام رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی طرف سے اللہ کی ولایت کو جاری کرنے والے اولی الامر متعین ہیں اور ولی فقیہ امام کی جانب سے ولایت الٰہی کے جاری کرنے کیلئے مقرر کئے ہوئے ہیں۔ولایت کا یہی سلسلہ اسلام کی پیش رفت کا سرچشمہ ہے۔اسی تصور ولایت کی بالادستی کربلا میں موجود ہے۔اگر آج ہم میں کسی سے اتباع ولایت فقیہ نہ ہو تو گویا وہ غدیر کے منکروں میں شمار ہے اور معرکہ کربلا میں یزیدیت کے ساتھ حسینیت کے خلاف برسر پیکار ہے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .