۲۹ شهریور ۱۴۰۳ |۱۵ ربیع‌الاول ۱۴۴۶ | Sep 19, 2024
News ID: 401484
12 اگست 2024 - 20:00
حسین حامد؛ نگراں سیکریٹری معاون کمیٹی تنظیم المکاتب کشمیر

حوزہ/مولائے کائنات علی ابن ابی طالب علیہ السّلام اور آپ کے متبرک خاندان پر سب و شتم بنو امیہ حکومت کے پراپگنڈے کا خاص حصہ تھا اور لوگوں کو اہلبیت علیھم السلام سے دور کرنے کا پروگرام سختی سے نافذ العمل تھا۔

تحریر: حسین حامد (نگراں سکریٹری معاون کمیٹی تنظیم المکاتب کشمیر)

حوزہ نیوز ایجنسی| مولائے کائنات علی ابن ابی طالب علیہ السّلام اور آپ کے متبرک خاندان پر سب و شتم بنو امیہ حکومت کے پراپگنڈے کا خاص حصہ تھا اور لوگوں کو اہلبیت علیھم السلام سے دور کرنے کا پروگرام سختی سے نافذ العمل تھا، ایسے حالات میں امام عالی مقام حضرت حسین علیہ السلام اپنے دور امامت میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر جیسے دو عظیم فریضوں کو انجام دیتے ہوئے لوگوں کو بنی امیہ کی خیانتوں اور جنایتوں سے آگاہ کرتے رہے کیونکہ حق پر عمل نہیں ہو رہا تھا اور باطل سے دوری اختیارنہیں کی جارہی تھی۔ظالم حکومت بندگان خدا پر ظلم و ستم روا رکھی ہوئی تھی۔امام عالی مقامؑ ان حالات میں فرماتے ہیں کہ جو شخص اپنے قول و فعل سے ان جبر و زیادتیوں کے خلاف قیام نہ کرے تو خُداپر ہے کہ اسے بھی عذاب میں داخل کردے گا۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے :

قُل لَّن يُصِيبَنَا إِلَّا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَنَا هُوَ مَوْلَانَا وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ ۞

آپ کہہ دیجئے کہ ہم تک وہی حالات آتے ہیں جو خدا نے ہمارے حق میں لکھ دیئے ہیں وہی ہمارا مولا ہے اور صاحبانِ ایمان اسی پر توکّل اور اعتماد رکھتے ہیں ۔

شرعی فرائض کی انجام دہی میں کامیاب ہونا ہی مومن کی نمایاں کامیابی ہے ۔جب تک وہ ان فرائض کو انجام دینے میں مصروف ہے وہ کامیاب متصور ہے۔پروردگار عالم کی رضا جو بھی ہو چاہے ظاہری کامیابی یا ہار وہ اُسے قبول کرتا ہے۔

امام حسین علیہ السلام نے اسی طرز تفکر کی بنیاد پر بنی امیہ کے ناقابل برداشت ظلم و ستم کے خلاف قیام کے لئے اقدم اٹھائے۔

آخر کار امام عالی مقام علیہ السلام نے جب عراق کی طرف نکلنے کا ارادہ کیا تو اپنے اصحاب کو جمع کیااور ایک خطبہ دیا جس میں حسینی انقلاب کے مختلف گوشوں کو اجاگر کیا اور فرمایا کہ میں اُسی طرح اپنے اسلاف(جد بزرگوار حضرت محمد مصطفیٰﷺ‘ پدربزرگوار حضرت علی المرتضیٰ علیہ السلام ‘مادر گرامی فاطمۃ الزہرا علیھا السلام اور برادر نامدار امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام ) سے ملنے کی آرزو تمنا رکھتا ہوں جس طرح حضرت یعقوب علیہ السلام حضرت یوسف علیہ السلام کے دیدار کے مشتاق تھے اور میرے لئے ایک زمین کا تعین ہوا ہے جس میں میرا بدن پھینک دیا جائے گا۔میں اُسی زمین تک پہنچوں گا اور گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ ’’نوادیس‘‘ اور کربلا کے درمیان کے جنگلوں کے بھیڑئے میرے بند بند کو جدا کر رہے ہیں اور اپنے خالی اور بھوکے پیٹ کو میرے بدن کے ٹکڑوں سے بھر رہے ہیں۔روز تقدیر جو لکھا گیا ہے اُس سے کوئی گریز نہیں ہے۔یہ خاندان نبوت رضائے الٰہی پر راضی ہے اس کے امتحان میں صابر ہے۔ رسول خدا ﷺ کے قرابتدار کبھی بھی آنحضرت ﷺ سے منھ نہیں موڑیں گے اور جنت میں آنحضرتﷺ کی خدمت میں ہونگے تاکہ آپ کی آنکھیں اُن کے ذریعہ روشن ہو جائیں اور خدا اُنکے ذریعہ اپنے وعدہ کو پورا کرے گا۔جو شخص چاہئے کہ اپنی جان ہماری راہ میں دے اور خدا سے پُرسکون ملاقات حاصل کرنے کا ارادہ رکھتا ہو ہمارے ساتھ کوچ کرے، کیونکہ میں کل صبح سویرے روانہ ہو رہا ہوں۔ ان شاء اللہ!

تبصرہ ارسال

You are replying to: .