۱۱ تیر ۱۴۰۳ |۲۴ ذیحجهٔ ۱۴۴۵ | Jul 1, 2024
شهید بهشتی

حوزہ/ شہید آیت اللہ ڈاکٹر محمد حسین بہشتی کے یومِ شہادت کی مناسبت سے ایک علمی نشست الغدیر ہال مدرسہ حجتیہ قم المقدسہ میں منعقد ہوئی، جس میں طلاب کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، شہید آیت اللہ ڈاکٹر محمد حسین بہشتی کے یومِ شہادت کی مناسبت سے ایک علمی نشست الغدیر ہال مدرسہ حجتیہ قم المقدسہ میں منعقد ہوئی، جس میں طلاب کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔

یہ علمی نشست مدرسہ فقہ کے شعبۂ تحقیق، انجمنِ طلاب کھرمنگ اور سفینۃ النجاۃ کے باہمی تعاون سے منعقد ہوئی تھی۔

نشست کی نظامت کرتے ہوئے مولانا سکندر بہشتی نے شہید بہشتی کی شخصیت، افکار اور خدمات کے بارے میں کہا کہ شہید بہشتی دینی و دنیوی تعلیم میں صاحب نظر تھے۔انہوں نے جرمنی میں پانچ سال کا عرصہ اسٹوڈنٹس کی تربیت میں گزاری اور جدید نظریات کا قریب سے مشاہدہ کیا اور ایران واپس آنے کے بعد نئی نسل کی تعلیم و تربیت، نصاب کی تشکیل، مدارس کی تاسیس کے ساتھ ساتھ انقلاب میں اہم کردار ادا کیا۔ شہید کے افکار کا مطالعہ ہمارے معاشرتی مسائل کو حل کرنے میں مددگار ثابت ہو گا۔

یاد رہے کہ یہ نشست شہید بہشتی کے افکار کے مختلف پہلوؤں سے آشنائی حاصل کرنے کے لیے رکھی گئی تھی۔

انجمنِ طلاب کھرمنگ کے شعبۂ تحقیق کے سربراہ مولانا صادق جعفری نے انجمن کی جانب سے شرکاء کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ایک عالم میں چند خصوصیات کا ہونا ضروری ہے، جن میں سے ایک اپنے زمانے سے آگاہ ہونا ہے۔شہید بہشتی اپنے زمانے کے تقاضوں اور ضروریات سے آگاہ ایک عالم باعمل تھے، اسی لیے جرمنی میں انہوں نے اسٹوڈنٹس کے لیے ایک انجمن تشکیل دی۔ آپ کی نماز جماعت اور دروس میں شیعہ سنی سب شرکت کرتے تھے۔ ایک عالم دین کی دوسری خصوصیت تمام زبانوں پر عبور حاصل کرنا ہے۔ مراد صرف خاص زبان پر عبور رکھنا نہیں ہے۔ شہید بہشتی فارسی، عربی، انگریزی اور جرمن زبانوں پر عبور رکھتے تھے، لیکن ساتھ ہی معاشرے کی کس انداز میں تربیت کرنا ہے اور کیسے اسلام کو پیش کرنا ہے۔ ان باتوں سے بھی آگاہ تھے۔تیسری خصوصیت یہ ہے کہ ایک مفکر، دانشور اور عالم دین صرف اپنے لیے یا خاص افراد کے لیے نہیں سوچتا، بلکہ وہ عالمی سطح پر سوچتا ہے۔ شہید بہشتی کی فکر بھی عالمی تھی، اس لیے انقلاب کی کامیابی کے بعد آئین اور مجلس خبرگان جیسے اداروں میں آپ کی آفاقی فکر شامل تھی۔ شہید بہشتی کی فکر سے درس لیتے ہوئے ہم اپنے معاشرتی مسائل کو حل کرنے کی جانب اقدام کرسکتے ہیں۔

نشست علمی سے ڈاکٹر شیخ فرمان علی سعیدی نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ شہید خدمت آیت اللہ رئیسی اور ان کے رفقاء کا چہلم بھی ہے۔ شہید رئیسی کی ذاتی، عائلی اور سیاسی زندگی ہمارے لیے نمونۂ عمل ہے۔

انہوں نے کہا کہ شہید بہشتی کے افکار میں سے ایک اہم ان عدالتی فکر ہے۔ شہید بہشتی نے عدالت کو حقیقی معنوں میں اجراء کیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ شہید بہشتی کی نظر میں عدالت کی خصوصیات میں علم و آگہی وغیرہ شامل ہیں۔ شہید بہشتی نے اپنے زمانے کے مسائل کو سمجھا اور ان کا حل پیش کیا، لہٰذا ہماری زمہ داری ہے کہ آج اپنے معاشرے میں این جی اوز کا کردار اور بلتستان یونیورسٹی میں ہونے والے ڈاگ شو اور دیگر مشکلات کو سمجھیں اور علم سے لیس ہو کر ان کا مقابلہ کریں۔

حجت الاسلام سید حامد رضوی نے شہید بہشتی ایک آئیڈیل قاضی کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شہید بہشتی ایک فقیہ، مجتہد، سیاست دان اور مفکر تھے، لیکن آپ کی اہم خصوصیت قضاوت ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ قاضی کی شرائط میں سے ایک عادل ہونا ہے۔ شہید بہشتی صفت کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں: جہاں اسلام ہے وہاں عدالت کا ہونا لازمی ہے، جس اسلام میں عدالت نہ ہو وہ جعلی اسلام ہے، جب تک معاشرے میں فقر و غربت ہے وہ معاشرہ اسلامی ہرگز نہیں ہو سکتا۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .