۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
السیدہ سکینہ سلام اللہ علیہا

حوزہ/عرش و فرش اور عرب و عجم میں سبھی بخوبی واقف ہیں کہ سکینہ سلام اللہ علیہا کے والد ماجد سید الشہداء سردار کربلا حضرت امام حسینؑ ہیں اور امام حسینؑ کون ہیں؟ رسول خدا کی مشہور حدیث ہے۔ "حسینؑ مجھ سے ہیں اور میں حسینؑ سے ہوں"۔ (طبقات ابن سعد ترجمہ امام حسین، صفحہ 27؛ کامل الزیارات، جلد 11، صفحہ 52؛ مسند احمد، جلد 4، صفحہ 175؛ مستدرک حکم، جلد 3، صفحہ 177)

تحریر: ڈاکٹر شجاعت حسین

حوزہ نیوز ایجنسی|

سردار کربلا حضرت امام حسین علیہ السلام اپنی شب کی نماز میں دعا و مناجات کی تھی کہ اے پروردگار! مجھے ایک ایسی بیٹی عطا کر جس سے میں بہت زیادہ محبت کروں اور وہ بھی مجھ سے بہت زیادہ محبت کرے، وہ میرے سینے پر سوئے اور اس کی قرابت سے مجھے سکون ملے۔ سردار جنت کی زندگی میں کمسنی سے ہی اضطرابی تھی کیونکہ آپؑ نے اپنی والدہ ماجدہ کی شہادت دیکھی، پدر بزرگوار حضرت علیؑ بن آبی طالبؑ کی شہادت دیکھی اور اپنے برادر حضرت حسن مجتبٰیؑ کی شہادت اور ان کے جنازے پر تیروں کی بارش اور کربلا کا منظر بھی نظروں کے سامنے گردش کرتا ہوگا کہ وعدہ طفلی پورا کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ جناب سکینہؑ کے ذریعہ سکون کی امید کی تھی اور پروردگار نے آپؑ کو عطا کیا۔

عرش و فرش اور عرب و عجم میں سبھی بخوبی واقف ہیں کہ سکینہ سلام اللہ علیہا کے والد ماجد سید الشہداء سردار کربلا حضرت امام حسینؑ ہیں اور امام حسینؑ کون ہیں؟ رسول خدا کی مشہور حدیث ہے۔ "حسینؑ مجھ سے ہیں اور میں حسینؑ سے ہوں" (طبقات ابن سعد ترجمہ امام حسین، صفحہ 27؛ کامل الزیارات، جلد 11، صفحہ 52؛ مسند احمد، جلد 4، صفحہ 175؛ مستدرک حکم، جلد 3، صفحہ 177)

جناب سکینہؑ کی والدہ ماجدہ امراء القیس کی بیٹی جناب ربابؑ تھیں۔

بڑی تحقیق و جستجو اور دیدہ ریزی کے بعد ابن اسحاق ہمدانی کی کتاب مقتل الاسلام امر تحقیق ہو سکا کہ امام حسینؑ کے ساتھ جناب ربابؑ کا عقد 55ھ میں ہوا جو ایک محترم، شریف النفس، بلند کردار اور با وقار بی بی تھیں۔ آپؑ کی بطن سے 56ھ میں جناب سکینہؑ متولد ہوئیں جو امام حسینؑ کو بڑی عزیز اور چہیتی دختر تھیں۔ (تاریخ نسواں، صفحہ 236)

امام حسینؑ جناب سکینہؑ سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔ اس امر سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جب جناب ربابؑ اپنے رشتہ داروں سے ملنے جاتی تھیں تو جناب سکینہؑ کو اپنے ساتھ لے جاتیں اُس وقت امام حسینؑ بے چینی و بے کسی محسوس کرتے تھے اور یہ شعر پڑھا کرتے تھے:

کان الیل موصول بلیل

اذا زارت سکینہؑ و الرباب

جب سکینہؑ اور ربابؑ کسی عزیز سے ملنے جاتی ہیں تو راتیں متصل یعنی طویل ہو جاتی ہیں۔ (منتخب التواریخ، صفحہ 243)

ابن اسحاق ہمدانی اپنی کتاب مقتل الاسلام میں رقمطراز ہیں کہ جناب سکینہؑ بنت الحسینؑ بروز عید مباہلہ بتاریخ 24 ذوالحجہ 56 ہجری بروز جمعہ 7 نومبر 676 عیسوی کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئیں اور جس وقت آپ اپنی مادر گرامی کے ہمراہ کربلا کے سفر پر روانہ ہوئیں اس وقت آپ کی عمر صرف 3 سال، 7 ماہ اور 4 یوم تھی۔ (تاریخ نسواں، صفحہ 239)۔ امام حسینؑ نے جناب سکینہؑ کا نام فاطمہ اور لقب سکینہؑ رکھا۔ (ریاض القدوس، جلد 12، صفحہ 704)

جو سکون عطا کرے اسے عربی میں سکینہ کہتے ہیں۔ یہ لفظ قرآن کریم میں آیا ہے۔ سکینہ، تسکین اور سکون کے معنی ہیں۔ "ھوالزی انزل سکینہ فی القلوب۔۔۔۔۔۔ایما نھم" علی خدا ہے جس نے مومنین کے دلوں میں سکون نازل کیا ہے تاکہ ان کے ایمان میں مزید اضافہ ہو جائے۔ (سورۃ فتح، آیت 4)

جناب سکینہ ؑ کا ایک نام "رقیہ" بھی تھا جو آپ کی والدہ ماجدہ نے نام تجویز کیا تھا۔ لفظ رقیہ "رقی" سے شروع ہوتا ہے جس کے معنی 'بلندی پر چڑھنا اور ترقی کرنا' ہوتا ہے۔ پس نام 'رقیہ' نے دنیائے اسلام میں خوب شہرت حاصل کی اور اسلام کو حیات بخشی۔

جب جناب سکینہ کی ولادت ہوئی تو امام حسینؑ نے اپنے گود میں لیا اور گلے کا بوسہ لیا۔ امام حسینؑ نے جناب ربابؑ سے فرمایا "ربابؑ! تم اس شہزادی کے قدموں کو چومو۔ بی بی ربابؑ نے قدموں کو چومنے کا سبب دریافت کیا تو امام حسینؑ نے آہ سردار کھینچ کر فرمایا: "ربابؑ یہ بچی تین سال کی عمر میں اتنا سفر کرے گی کہ جتنا سجادؑ نے بھی اس عمر میں سفر نہ کیا ہوگا اور واقعہ کربلا کی شادی داستان سنائی۔ یہ سن کر جناب ربابؑ بے ساختہ رونے لگیں اور آپؑ نے جناب سکینہؑ کے قدموں کا بوسہ لیا۔

جناب سکینہؑ شرم و حیا کی ملکہ ہیں اس کے لئے دو مثالیں قارئین کرام کے لیے تحریر کرنا چاہتا ہوں۔ جب شام غریباں کو آپ کی چادر شقی نے چھین لی تو آپ نے پھوپھی سے چادر کا مطالبہ کیا۔ (خلاصتہ المصائب، صفحہ 376) اور دوسری مثال یہ کہ دربار یزید لعین میں چادر نہ ہونے کی وجہ سے آپ اپنے چہرے کو اپنے ہاتھوں سے چھپا رہی تھیں (سوگ نامہ آل محمدؐ، صفحہ 583)

جناب سکینہؑ بچپن سے ہی مذہب کی پابند تھیں، نماز وقت سے ادا کرتی تھیں، قرآن مجید بڑی خشوع سے پڑھتی تھیں اور ہر وقت آپ پر یاد خدا غالب رہتی تھی۔ جناب سکینہؑ اتنی مصیبتوں کے باوجود شام کے قید خانہ میں نماز شب کو ترک نہیں کیا۔ (سکینہ بنت الحسینؑ، صفحہ 31)۔

بابا بغیر بالی سکینہؑ نہ سوتی تھی

منہ اپنا ڈھانپ ڈھانپ کے کرتا سے روتی تھی

امام حسین علیہ السلام کی محبت اس عمل سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ نماز صبح پڑھنے کے بعد جناب سکینہ کو اپنی گود میں بیٹھا کر بصرہ کی کھجوریں کھلاتے تھے اور روایات کے مطابق جناب سکینہ کی ولادت کے بعد امام حسینؑ نے عاشور تک جناب سکینہؑ کو اپنے سینے سے جدا نہیں کیا۔ (براہین ساباطیہ، صفحہ 314)

یوں تو امام حسین علیہ السلام کو ہر ایک سے محبت تھی مگر خصوصی طور پر جو محبت آپؑ کو اپنی چھوٹی کمسن بیٹی جناب سکینہؑ سے تھی اس کی مثال زمانہ پیش کرنے سے قاصر ہے۔ جناب سکینہؑ کے احترام و اکرام کے بارے میں معصومین علیہم السلام نے تاکید فرمائی ہے۔ یہاں تک کے امام حسینؑ آپ کا اسی طرح احترام کرتے تھے جس طرح اپنی والدہ گرامی کا احترام کرتے تھے۔ جناب سکینہ سلام اللہ علیہا کی زندگی کو اگر غور سے دیکھا جائے اور پھر جناب سیدہ زہراؑ کی حیات طیبہ کو غور سے دیکھا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ جناب سیدہ زہراؑ جناب سکینہؑ کی زندگی میں کوئی فرق نہیں ہے جس طرح جناب فاطمتہ الزہؑرا پر ظلم و ستم ہوئے تھے وہی جناب سکینہ سلام اللہ علیہا پر ہوئے۔

زنداں کے تھے وہ ظلم کے عاجز تھی جان سے

افسوس چل بسی میری پیاری جہاں سے

ہائے وہ وقت بھی آگیا، وہ 10 سفر المظفر 61 ہجری، زندان شام، بچی روتی رہی، اپنے بابا کا سر چومتی رہی اور اتنے میں رونے کی آواز ختم ہوئی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ شریکتہ الحسین جناب زینبؑ بنت شیر خدا نے زندان کے اندھیرے میں غسل دینا چاہا لیکن غسل کو انجام دے نہ سکیں۔ کربلا سے لے کر کوفہ کے بازار تک اور کوفہ و شام کے باز سے لے کر زندان تک سکینہؑ ایک ہی لباس میں رہی ہے۔ اور اس بچی نے اتنے تازیانے کھائے کہ اس کا لباس اور اس کی کھال مل چکے ہیں۔ اب اگر جناب زینبؑ لباس کو اتارتی ہیں تو بی بی سکینہؑ کی کھال بھی اتر آتی ہے۔ امام سید سجادؑ خون کے آنسو رو نے لگے اور فرمایا! اللہ کی مرضی یہ ہے کہ سکینہؑ کو اسی لباس کے ساتھ تدفین کیا جائے تاکہ روز محشر یہ اپنے ناناؐ کے پاس اسی حال میں پہنچے اور فرمائے کہ سن کی امت نے ان کی بیٹی کے ساتھ کیا کیا۔ امام سجادؑ نے اسی قید خانے میں اس معصوم بچی کو دفن کر دیا:

قید خانہ میں ہوئی دفن سکینہؑ مر کر

تھی عجب شرم کہ لاشہ بھی نہ باہر نکلا

مرگئ قید میں گھٹ گھٹ کے سکینہؑ ناداں

ننھی سی عمر میں یہ صدمہ زنداں دیکھا

تبصرہ ارسال

You are replying to: .