۲۴ آذر ۱۴۰۳ |۱۲ جمادی‌الثانی ۱۴۴۶ | Dec 14, 2024
News ID: 401463
12 اگست 2024 - 12:40
کودکان در سفر اربعین

حوزہ/"اربعین" لغت میں چالیسویں دن کو کہا جاتا ہے۔ اربعین حسینی، 20 صفر کو ہے جو کہ حضرت امام حسینؑ اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کے چالیسویں دن کے موقع پر ہوتا ہے۔ اسی دن اہل بیتؑ اپنے قافلے کے ساتھ شام سے واپس آئے۔ بعض محققین مانتے ہیں کہ زیارتِ اربعین کا سلسلہ، اماموں کے دور سے ہی چلا آ رہا ہے اور زیارتِ اربعین اہل بیتؑ کے پیروکاروں کے درمیان مشہور اور عام ہے۔

تحریر: مرضیہ شریفی (ایم فل تاریخ اہلبیت)

حوزہ نیوز ایجنسی| "اربعین" لغت میں چالیسویں دن کو کہا جاتا ہے۔ اربعین حسینی، 20 صفر کو ہے جو کہ حضرت امام حسینؑ اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کے چالیسویں دن کے موقع پر ہوتا ہے۔ اسی دن اہل بیتؑ اپنے قافلے کے ساتھ شام سے واپس آئے۔ بعض محققین مانتے ہیں کہ زیارتِ اربعین کا سلسلہ، اماموں کے دور سے ہی چلا آ رہا ہے اور زیارتِ اربعین اہل بیتؑ کے پیروکاروں کے درمیان مشہور اور عام ہے۔

پہلے زائر:
جابر بن عبداللہ انصاری، جو کہ حضرت محمدؐ کے صحابی اور اہل بیتؑ کے وفادار ساتھیوں میں سے تھے، وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے عطیہ عوفی کے ساتھ اربعین کے دن امام حسینؑ کی قبر کی زیارت کی۔ جابر حضرت محمدؐ کے صحابی تھے اور ان کے والد عبداللہ بن عمرو بن حرام انصاری، ان اولین افراد میں شامل تھے جنہوں نے مدینہ کی طرف ہجرت کے لیے حضرت محمدؐ کی دعوت کو قبول کیا اور جنگ احد میں شہید ہوئے۔ جابر خود بھی بیعت عقبہ ثانیہ میں اپنے والد کے ساتھ شریک تھے جبکہ وہ اُس وقت چھوٹے تھے۔ وہ حضرت محمدؐ کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے اور اٹھارہ غزوات میں حضرت نبی کے ساتھ شریک رہے اور جنگ صفین میں بھی حضرت علیؑ کے ساتھ تھے۔ وہ اپنی زندگی کے آخر میں نابینا ہو گئے تھے اور 74 یا 77 ہجری میں 94 سال کی عمر میں وفات پائے۔عطیہ عوفی، جو کہ اہل بیتؑ کے پیروکاروں میں سے تھے، 61 ہجری میں جابر بن عبداللہ انصاری کے ساتھ امام حسینؑ کی قبر کی زیارت کے لیے گئے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ جب ہم کربلا پہنچے تو جابر دریائے فرات میں غسل زیارت کے لیے داخل ہوئے۔ اس کے بعد انہوں نے احرام کی طرح ایک لنگی باندھی اور ایک تولیہ کندھے پر ڈالا، پھر خوشبو لگائی اور امام حسینؑ کی قبر کی طرف روانہ ہوئے۔ جابر نے ذکر کرتے ہوئے قبر کے قریب پہنچے۔ وہاں انہوں نے عطیہ سے کہا کہ میرا ہاتھ قبر پر رکھ دو۔ جب انہوں نے اپنا ہاتھ قبر پر رکھا تو جابر بے ہوش ہو کر قبر پر گر پڑے۔ عطیہ نے ان کے چہرے پر پانی ڈالا تاکہ وہ ہوش میں آئیں۔ جب وہ ہوش میں آئے تو تین بار "یا حسین" کہا اور کہا: "کیا دوست اپنے دوست کا جواب نہیں دیتا؟" پھر خود سے کہا: "کیسے (حسین) جواب دیں گے جب کہ وہ خون میں ڈوبے ہوئے ہیں اور ان کا سر جسم سے جدا ہے؟" پھر حضرت حسینؑ پر سلام بھیجا۔

زیارتِ اربعین کے مستحب ہونے کی وجوہات:

زیارتِ اربعین کے مستحب ہونے کی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں:
1۔ علامہ مجلسی نے "زاد المعاد" میں بیان کیا ہے کہ چونکہ جابر، جو صحابہ میں سے تھے، اس عمل کی بنیاد رکھی، یہ امام حسینؑ کی زیارت کے لیے اس دن کی فضیلت کی وجہ ہو سکتی ہے۔ علامہ مجلسی نے یہ بھی کہا ہے کہ ہو سکتا ہے اس کی اور بھی وجوہات ہوں جو ہم پر مخفی ہیں۔
2۔ امام حسن عسکریؑ سے مروی روایت ہے: "مومن کی نشانیاں پانچ چیزیں ہیں: رات اور دن میں 51 رکعت نماز (17 رکعت فرض نماز اور 34 رکعت نفل)، زیارت اربعین، دائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہننا، سجدے کے وقت پیشانی کو خاک پر رکھنا، اور نماز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کو بلند آواز سے پڑھنا"۔
3۔ امام صادقؑ سے اربعین کے دن کے لیے مخصوص زیارت نقل ہوئی ہے۔
4۔ ابو ریحان بیرونی نقل کے مطابق: "20 صفر کو امام حسینؑ کا سر ان کے جسم کے ساتھ دفن کیا گیا، اور اسی دن زیارت اربعین کا حکم دیا گیا ہے"۔اسی بنا پر علامہ مجلسی نے "زاد المعاد" میں لکھا ہے کہ "مشہور یہ ہے کہ امام حسینؑ کی زیارت پر اس دن کی تاکید کی وجہ یہ ہے کہ امام زین العابدینؑ اور اہل بیت اس دن شام سے واپسی پر کربلا پہنچے اور شہداء کے سر ان کے جسم کے ساتھ دفن کیے گئے"۔ اگرچہ خود علامہ اس بات کو قبول نہیں کرتے کہ وہ 20 صفر کو کربلا پہنچے تھے، لیکن ان کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے دور میں بھی یہ مشہور تھا کہ زیارت اربعین کی اہمیت شہداء کی زیارت اور امام زین العابدینؑ کے ذریعے سروں کو جسموں کے ساتھ دفن کرنے کی وجہ سے ہے۔

نتیجتاً زیارتِ اربعین امام حسینؑ اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کے چالیس دن بعد جابر کے ذریعے شروع ہوئی اور اماموں کی تاکید کے ساتھ شیعوں میں پھیل گئی۔ اس طرح ہر سال امام حسینؑ کے عاشقان اس سفر میں شامل ہوتے ہیں اور ان شاء اللہ یہ سلسلہ منتقم خون حسینؑ کی آمد تک جاری رہے گا۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .