۲۱ آذر ۱۴۰۳ |۹ جمادی‌الثانی ۱۴۴۶ | Dec 11, 2024
News ID: 401797
26 اگست 2024 - 12:56
আরবাইন এবং তার ঐতিহাসিক ভিত্তি

حوزہ/ چودہ صدیوں سے محرم اور اربعین منانے کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ آئے روز اور ہر سال پہلے سے زیادہ محبت و عقیدت اور جوش و جذبہ دکھائی دیتا ہے۔ امام حسین ؑ چونکہ محسن ِ انسانیت ہیں اس لئے ان کے ساتھ منسوب محرم بالخصوص اربعین کا اجتماع اب عالمی سطح پر انسانیت کی نمائندگی کا حامل بن چکا ہے۔

تحریر: سید اظہار مہدی بخاری

حوزہ نیوز ایجنسی | اسلامی تاریخ کے مطابق ۱۶ ہجری میں پیش آنے والے واقعہ کربلا کے خانوادہ رسول ؐ کے افراد اور خواتین کو قیدی بنا کر پہلے ابن زیاد کے دربار میں کوفہ اور پھر یزید کے دربار میں شام لایا گیاجہاں جشن منانے اور فتح کے شادیانے بجانے اور خوانوادہ رسالت کی توہین و تضحیک کرنے کے بعد انہیں قید میں ڈال دیا گیا۔خواتین میں اسیروں کی سردار رسول اللہ ﷺ کی نواسی سیدہ زینب بنت علی علیہ السلام اور مردوں میں اسیران کے سردار امام حسین علیہ السلام کے لختِ جگر حضرت امام زین العابدین علیہ السلام تھے۔ قید کی مدت میں قدرے اختلاف پایا جاتا ہے کہ کتنی مدت اسیروں کو زندان میں رکھا گیا۔ البتہ یہ بات تاریخ کا حصہ ہے کہ جب یزید کے بُرے کاموں اور منفی کارناموں کی خبر بالخصوص واقعہ کربلا کے بارے میں پوری دنیا کے دیگر ممالک تک پہنچی تو ہر جگہ غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور پورے دنیا سے یہ بدنامی وصول ہونے لگی کہ مسلمانوں نے اپنے ہی رسول ؐ کے نواسے اور پورے خاندان کو ذبح کردیا ہے جبکہ بچ جانے والے خواتین و حضرات کو زندان میں ڈال دیا ہے۔ اس کا ردعمل بہت شدید اور رسوائی پر مشتمل تھا لہذا یزیدی مشیروں نے اسے مشورہ دیا کہ حکومت کے خلاف عالمی سطح پر موجود پروپیگنڈہ کم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اسیران کو رہا کردیا جائے۔ اس وجہ سے یزید کو چار و ناچار اسیروں کو رہا کرنے میں عافیت محسوس ہوئی۔ بعض گمراہ کن مورخین و مبلغین اس اقدام کو یزید کی ہمدردی شمار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یزید بہت نادم تھا اور اس نے خانوادہ رسول کا بہت احترام کیا اور عزت و اکرام سے مدینہ واپس بھجوایا۔ لیکن حقیقت یہ نہیں بلکہ حقیقت وہی عالمی پروپیگنڈہ تھا جس کے سبب اسے اسیران کربلا کو آزاد کرنا پڑا۔

      اسی دوران جب ایک بزرگ اور جلیل القدر صحابی رسول حضرت جابر بن عبداللہ انصاری کو حضرت امام حسین ؑ اور ان کے رفقاء کی شہادت کی خبر ملی تو وہ اپنے ایک رفیق کے ساتھ کوفہ سے کربلا روانہ ہوئے آپ ان ایام میں ضعیف العمر بھی تھے اور نابینہ بھی ہو چکے تھے۔ لیکن رسول ؐ و آل رسول ؐ سے بے پناہ محبت و عقیدت کے سبب ان سے رہا نہ گیا اور کہا کہ میں امام حسین ؑ کی زندگی میں تو ان کا ساتھ نہ دے سکا اور ان پر اپنی جان نچھاور نہ کرسکا مگر اب میں قبر ِ حسین ؑ کی زیارت کرکے حسین ؑ کے ساتھ ہونے کا اعلان کروں گا۔ اس طرح حضرت جابر بن عبداللہ انصاری کو یہ سعادت حاصل ہوئی کہ وہ حضرت امام حسین ؑ کے پہلے زوار قرار پائے اور اربعین کی مناسبت سے بھی امام حسین ؑ کی قبر کی زیارت کرنے والے زائر قرار پائے۔ حضرت جابر بن عبداللہ جب کربلا کی وادی میں داخل ہوئے تو انہیں قبرِ امام حسین ؑ کی خوشبو محسوس ہوئی۔ وہ فوراًً قبر ِ حسین ؑ سے لپٹے مٹی کو اٹھا اٹھا کر چوما او ر تین بار با آواز بلند کہا ”یا حسین ؑ۔ یا حسین ؑ۔ یا حسین ؑ“۔ جس کے بعد انہوں نے امام حسین ؑ اور دیگر شہداء پر بہت پرسوز گریہ کیا۔پھر انہوں نے اپنا معمول بنا لیا کہ جب تک وہ دنیا میں رہے وہ تسلسل کے ساتھ قبر ِ امام حسین ؑ کی زیارت کرتے رہے۔

      تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جب اسیران کربلا رہائی کے بعد مدینہ کی طرف روانہ ہوئے تو راستے میں ایک مقام پر دو راہا آتا ہے جہاں سے ایک راستہ مدینہ کی طرف اور دوسرا راستہ کربلا کی طرف جاتا ہے۔ اس دو راہے پر سیدہ زینب سلام اللہ علیہا نے حضرت امام زین العابدین علیہ السلام سے سوال کیا کہ بیٹا مدینے جانا ہے یا کربلا؟ تو امام سجاد ؑ نے فرمایا کہ پھوپھی جیسے آپ کی خواہش ہو۔ تو سیدہ زینب ؑ نے فرمایا کہ میں اپنے بھائی حسین ؑ کے لاشے کو عاشور کے دن جس حالت میں چھوڑ آئی تھی مجھے وہ لمحے ابھی تک یاد ہیں۔ لہذا میں پہلے اپنے بھائی کے پاس ان کی قبر پر جانا چاہتی ہوں۔ یوں اسیروں کا قافلہ کربلا روانہ ہوا۔ روایات میں ہے کہ جب سیدہ زینب ؑ کربلا پہنچی ہیں تو حضرت جابر بن عبداللہ انصاری بھی ابھی تک کربلا میں موجود تھے۔ جب حضرت زینب ؑ کے سامنے اپنے بھائی کی قبر مبارک آئی تو انہوں نے فرطِ محبت و جذبات میں خود کو اونٹ سے گرا لیا اور قبر سے لپٹ کر بے انتہا گریہ فرمایا اور مصائب کے المناک جملے ادا فرمائے۔ اور ساتھ یہ بھی فرمایا کہ یزید کربلا کے بعد میرے جس بھائی حسین ؑ کا نام و نشان مٹانا چاہتا تھا میں اس کا پہلم منا کر دنیا کو بتا رہی ہوں کہ حسین ؑ آج بھی فتح یاب ہے اور زندہ ہے۔

      حضرت زینب سلام اللہ علیہا اور حضرت امام سجاد ؑ کی سنت کو بعد میں آنے والے معصومین ؑ اور آئمہ نے نہ صرف جاری رکھا بلکہ اس سنت کی ادائیگی کی اہمیت و فضیلت کو متعدد بار بیان فرمایا۔ اس کے علاوہ قبرِ امام حسین ؑ کی زیارت بالخصوص اربعین کے ایام میں زیارت کا ثواب بھی درج فرمایا۔ حضرت امام زین العابدین ؑ سے لے کر حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام تک تمام نے کربلا کی زیارت اور اربعین کے موقع پر زیارت کرنے کے حوالے سے فقط اقوال بیان نہیں کئے بلکہ عملی طور پر زیارت پر جا کر لوگوں کے لیے مشعل راہ رکھ دی۔ کربلا کی زیارت کے حوالے سے تسلسل کے ساتھ روایات بیان کرنے کے نتیجے میں زائرین کے اندر زیارت کا جذبہ پیدا ہوتا رہا اور تقویت اختیار کرتا رہا۔ اموی‘ عباسی اور دیگر ظالم وجابر حکمرانوں کے زمانے میں لوگوں نے کربلا کی زیارت کے بدلے اپنے ہاتھ اور بازو کٹوا لئے لیکن زیارت ترک نہیں کی۔

      چودہ صدیوں سے محرم اور اربعین منانے کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ آئے روز اور ہر سال پہلے سے زیادہ محبت و عقیدت اور جوش و جذبہ دکھائی دیتا ہے۔ امام حسین ؑ چونکہ محسن ِ انسانیت ہیں اس لئے ان کے ساتھ منسوب محرم بالخصوص اربعین کا اجتماع اب عالمی سطح پر انسانیت کی نمائندگی کا حامل بن چکا ہے۔ جس میں چند سال پیشتر تک لاکھوں عقیدت مندان و زائرین بلاتفریق مکتب و مذہب شریک ہوتے رہے ہیں اور اب چند سال سے زائرین کی تعداد دو سے تین کروڑ ہو چکی ہے۔ دنیا میں اس نوعیت کا کوئی اجتماع منعقد نہیں ہوتا جس میں کروڑوں لوگ شامل ہوتے ہوں۔ لطف کی بات ہے کہ ان کروڑوں لوگوں کو کسی حکومت کی مہمان داری یا سہولیات نصیب نہیں ہوتیں بلکہ زائرین کی خدمت کے لیے دنیا بھر سے بالخصوص اور عراق بھر سے بالخصوص ہزاروں لاکھوں لوگ موجود ہوتے ہیں جو مسلسل ایک ہفتہ تک جوتا پالش سے لے کر کھانے اور غسل و آرام گاہ تک تمام سہولیات مفت فراہم کرتے ہیں۔ جو زائر ایک بار اربعین کا سفر کرلیتا ہے اس کی ہر سال اور بار بار خواہش ہوتی ہے کہ وہ دوبارہ اربعین کے سفر پر جائے۔ مشی اور موکب کے کلچر نے اربعین کی رونق کو چار چاند لگا دئیے ہیں جس کے سبب کروڑوں لوگوں کو سنبھالنا اور انہیں سہولیات فراہم کرنا کافی حد تک آسان ہوگیا ہے۔ اسی کلچر سے الہام لیتے ہوئے اب پاکستان سمیت دنیا میں مشی اور اربعین کا کلچر متعارف ہو رہا ہے یقینا اس ذوق اور عمل کے سبب کربلا کی مقصدیت اور امام حسین ؑ کا پیغام دنیا کے کونے کونے میں پہنچایا جارہا ہے۔ مشی اور اربعین اور امام حسین ؑ کی قبر کی زیارت کا سلسلہ تا قیام قیامت اسی طرح چلتا رہے گا اور زیارت کی محبت و عقیدت اس سلسلے کو باقی رکھے گی۔ کیونکہ یہ فقط امام حسین ؑ کی ذات تک محدود نہیں ہے بلکہ اللہ تعالی کے شعائر میں سے ہے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .