۲۱ آذر ۱۴۰۳ |۹ جمادی‌الثانی ۱۴۴۶ | Dec 11, 2024
photos/Arbaeen marche de Najaf à Karbala

حوزہ/ تاریخی اعتبار سے زیارت اربعین حسینی کو دو نقطہء نگاہ سے دیکھا جا سکتا، ایک تو جناب جابر ابن عبداللہ انصاری کا کربلا پہونچنا، اور دوسرا اہل حرم کا قید خانہء شام سے رہا ہوکر کربلا جانا۔

حوزہ نیوز ایجنسی |

تحریر: دانش عباس خان

اربعین حسینی کا پس منظر:

جس سال فرزند رسول امام حسین علیہ السلام کی المناک اور مظلومانہ شہادت واقع ہوئی اس کے بعد سے اربعین حسینی کے متعلق تین طرح سے گفتگو کی جا سکتی ہے، ایک تو عاشور سے اربعین کے درمیان رو نما ہونے والے واقعات، دوسرا اربعین کے دن پیش آنے والے واقعات، تیسرا اربعین کے بعد کے واقعات، ان تینوں زمانے میں ہر ایک سے کچھ مختلف حالات اور واقعات نظر آتے ہیں:

۱۔اربعین حسینی عالم تکوین میں:

عاشور سے اربعین تک عالم اور ماوراء میں حزن و غم کے آثار نمایاں تھے۔

امام جعفر صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:

یا زراره! ان السماء بکت علی الحسین اربعین صباحا بالدم وان الارض بکت اربعین صباحا بالسواد و ان الشمس بکت اربعین صباحا بالکسوف والحمرة وان الملائکة بکت اربعین صباحا علی الحسین

اے زرارہ! آسمان نے حسین پہ خون کے آنسو روئے، زمین لباس سیاہ میں چالیس روز گریہ کناں تھی، سورج نے گرہن میں سرخ ہوکر چالیس روز گریہ کیا، اور فرشتے چالیس روز محو گریہ تھے۔(۱)

اس چالیس روز میں عالم تکوین میں حزن و غم، اور ہیبت و وحشت کے آثار نمایاں ہونے کی کئی وجہیں ہو سکتی ہیں ایک تو خود امام حسین اور آپ کے جگر گوشوں اور جانثاروں کی مظلومانہ شہادت اور مخدرات عصمت و طہارت کی بلوائے عام میں اسیری اور حرمت کی پامالی، پھر سرہائے شہداء کا چالیس روز تک بدن سے جدا رہنا، روایت میں ہیکہ اربعین کے دن ہی سرہائے شہداء کو ان کے جسموں سے ملحق کیا گیا تھا،(۲) سب سےاہم بات یہ ہو سکتی ہے کہ ایک امام وقت اور ہادئ بر حق کو بے دردی و درندگی سے قتل کیا گیا تھا چونکہ امام صادق علیہ السلام سے ہی منقول ہیکہ امام حسین اور حضرت یحیی علیہمالسلام کی شہادت کے علاوہ آسمان نے کسی اور پہ گریہ نہیں کیا(۲) گویا کہ ہادئ بر حق پہ جس قدر ظلم و ستم ڈھایا جائے گا اتنا ہی امت مشکلات اور عذاب سے دوچار ہو گی، آج اربعین حسینی بہترین موقع ہے دنیا کے ادیان و مذاہب کے درمیان زمانہ کے حقیقی ہادی کو متعارف کرانے اور امامت و ولایت کا درست مفہوم پیش کرنے کا تاکہ زما

۲۔ اربعین حسینی کی تاریخی حیثیت:

تاریخی اعتبار سے زیارت اربعین حسینی کو دو نقطہء نگاہ سے دیکھا جا سکتا، ایک تو جناب جابر ابن عبداللہ انصاری کا کربلا پہونچنا، اور دوسرا اہل حرم کا قید خانہء شام سے رہا ہوکر کربلا جانا۔

جہاں تک صحابئ پیغمبر جناب جابر ابن عبد اللہ انصاری کی بات ہے تو آپ نے اپنے شاگرد عطیہ کوفی کے ہمراہ یزیدی گھٹن کے ماحول میں تمام راستوں کی بندشوں کو توڑ کر زیارت اربعین حسینی کو قائم کیا تھا، اس وقت نصف صدی پیغمبر اسلام(ص) کی وفات کو ہو چکے تھے اس پچاس سال میں دوسری سے تیسری پیڑھی وجود میں آچکی تھی اب اصحاب پیغمبر میں کچھ ہی با حیات رہ گئے تھے اور وہ بھی ضعیف العمر تھے لیکن با اثر تھے اس کے بعد بھی قیام امام حسین(ع) کے موقع پہ تین طرح کے صحابہ تھے۔

۱۔ روشن کردار کے حامل صحابہ جیسے جابر ابن عبداللہ انصاری

۲۔تاریک کردار کے حامل صحابہ جیسے نعمان ابن بشیر انصاری

۳۔خاموش صحابہ جیسے سہل ابن سعد انصاری، ابوسعید خدری

گویا کہ بڑے بڑے صحابہ کی موجودگی میں آل رسول کی مظلومیت کو امت کو بتلانے اور امام وقت کے حق کے دفاع کے لئے بوڑھے، نابینا مگر روشن دل اور بے باک کردار کے حامل جابر ہی جیسے نظر آئے۔

جناب جابر نے اس گھٹن کے ماحول میں امامت و ولایت کے دفاع میں وہی کردار اپنایا ہے جو سلمان و مقداد و ابوذر، حذیفہ (رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین) نے سقیفہ بنی ساعدہ کے موقع پہ امیر المومنین امام علی علیہ السلام کے حق کے دفاع کے لئے اپنایا تھا۔

جناب جابر نے اربعین حسینی کے قیام میں بہت مضبوط کردار ادا کیا تھا، روز عاشورہ جناب ام سلمہ کے خواب کے ذریعہ جیسے ہی نواسہء رسول کی خبر شہادت موصول ہوئی تو آپ نے سب سے پہلے مدینہ کے خواص تک اس المناک خبر کو پہونچانا ضروری سمجھا اس کے بعد خود عطیہ کوفی کے ہمراہ راہی کربلا ہو گئے، عطیہ کا بیان ہیکہ آپ نے پہلے دریائے فرات میں غسل کیا، کمر میں کپڑا باندھا اس کا ایک سرا شانہ پہ ڈالا، خوشبو سے معطر ہوکر قبر امام حسین علیہ السلام کی طرف ذکر الہی کرتے ہوئے آگے بڑھے اور اپنے آپ کو قبر پر گرا دیا اتنا گریہ کیا کہ بے ہوش ہوگئے، پانی کی چھینٹ مار کر ہوش میں کیا تو تین بار جابر نے بلند آواز سے یا حسین کہا مرثیہ پڑھا اور سلام کیا، اس کے بعد اطراف قبر کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا سلام ہو تم پر اے نفوس طیبہ کہ جس نے رکاب میں حسین میں جان کو قربان کر دیا، نماز قائم کیا، زکات دیا، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو انجام دیا، ملحدوں سے جہاد کیا، تم نے جس راہ کو اپنایا ہم بھی تمہارے ساتھ شریک ہیں۔

عطیہ نے جناب جابر سے پوچھا کہ ہم لوگ کیسے ان کے ساتھ شریک ہیں جبکہ نہ ہم نے جہاد کیا، نہ تلوار چلایا درحالیکہ انھوں نے اپنی جان کو قربان کر دیا، ان کے بچے یتیم ہوئے، ازواج بیوہ ہو گئیں؟

جناب جابر نے فرمایا: میں نے رسول اکرم((ص) سے یہ سنا ہیکہ آپ نے فرمایا: جو شخص کسی گروہ کو دوست رکھتا ہے تو وہ اس کے عمل میں شریک ہے، قسم ہے اس ذات کی کہ جس نے محمد کو حق کیساتھ مبعوث فرمایا، میری اور میرے دوستوں کی نیت وہی ہے جو حسین اور ان کے اصحاب کی تھی۔

اس کے بعد عطیہ کہتے ہیں کہ جناب جابر نے مجھ سے کہا کہ اے عطیہ آل محمد کے دوستوں سے دوستی اختیار کرو اور دشمنوں سے(چاہے یہ جتنے بھی اہل نماز و روزہ ہوں) دشمنی اختیار کرو۔۔(۴)

جناب جابر اربعین حسینی کا پیغام جو کہ اہل بیت کے حق اور مقام کو واضح کرنے میں مضمر تھا اسے زندگی کے آخری سانس تک پہونچاتے رہے۔(۵)

یہ صحابی نابینا تھا مگر دل کی نگاہ سے حق و باطل کے فرق کو دیکھتا اور پہچانتا تھا، بوڑھا تھا مگر جوانمرد اور شجاع تھا، جسم سے نحیف و لاغر تھا مگر ذھین و با بصیر تھا تبھی رسول اللہ کے فرمودات اور حدیثیں یاد تھیں۔

امام زین العابدین علیہ السلام کو جب پر آشوب اور گھٹن کے ماحول میں یار و مددگار میسر نہ تھے تو اس وقت بھی جناب جابر امامت و ولایت کے مدافع تھے۔

جناب جابر کہ جس نے در وحی نبوت سے الہام لیکر زیارت اربعین حسینی کی بنیاد ڈالی تھی وہ ہر زمانے کے حسینیوں کو پیغام شعور دے رہا ہے کہ تم بھی اربعین حسینی کو دائرہ امامت و ولایت سے الگ نہ سمجھنا لہذا آج کے زمانہ کا نقطہء دائرہء امامت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا آخری وارث قائم آل محمد امام محمد مہدی (عجل اللہ فرجہ شریف) ہیں۔

(۱)مستدرک الوسائل، ج۱۰، ص۳۱۴.

(۲) آثار الباقیه عن القرون الخالیه، ص۳۹۲.

(۳)کامل الزیارات، ص۱۸۱.

(۴)عماد الدین طبری، بشاره المصطفی.

(۵) جناب جابر امام باقر(ع) کی زیارت سے مشرف ہونے اور سلام پیغمبر پہونچانے کے بعد ۹۴ سال کی عمر میں وفات فرماتے ہیں۔

جاری ہے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .