حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایام اربعین جاری ہیں اور زائرین اربعین کربلا کی جانب رواں دواں ہیں، زیارت اگر معرفت کے ساتھ ہو تو اس زیارت کے ثواب کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے، اسی لئے ایام اربعین کو پیش نظر رکھتے ہوئے معرفت اربعین کے عنوان سے ایک سلسلہ شروع کیا جا رہا ہے جس میں اربعین کے متعلق مختلف سوالات کے جواب دئے جائیں گے۔
سوال: امام حسین علیہ السلام کا پہلا زائر کون تھا؟
جواب:شیخ طوسی علیہ الرحمہ کے فرزندشیخ ابو علی کے شاگرد شیخ ابو القاسم طبری آملی جو کہ ایک نہایت ہی جلیل القدر عالم دین تھے، انہوں نے اپنی کتاب میں امام حسین علیہ السلام کے پہلے زائر کے متعلق لکھا ہے کہ حضرت جابر بن عبد اللہ انصاری اور عطیہ کوفی، امام حسین علیہ السلام کے پہلے زائر تھے۔
جابِرِ بن عبدالله بن عَمرو بن حرام بن کعب بن غَنْم بن سلمة، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابی تھے جنہوں نے حدیث لوح کو نقل کیا ہے، وہ حدیث جس میں پیغمبر اکرم ؐ کی زبان مبارک سے ائمہؑ کے نام وارد ہوئے ہیں۔
اسی طرح انہوں نے مشہور شیعہ احادیث جیسے " حدیث غدیر "، " حدیث ثقلین " اور " حدیث شہر علم " وغیرہ بھی نقل کی ہے۔
عطیہ کوفی کون ہیں؟
عطیہ کو کچھ لوگوں نے جابر بن عبداللہ انصاری کا غلام کہا ہے ، لیکن یہ درست نہیں ہے، بلکہ وہ ایک عظیم شیعہ راویوں میں سےتھے اورایک محدث و مفسر قرآن تھے۔
انہوں نے غصب فدک کے وقت جو حضرت زہرا سلام اللہ علیہا نے خطبہ دیا تھا، اس کو سنا اور لکھا ہے۔
اربعین کے موقع عطیہ مدینے میں ہی تھے اور جابر بن عبد اللہ انصاری کے ساتھ زیارت کے لئے کربلا گئے اور واپسی پر کوفے میں جابر کو اپنے گھر پر دعوت دی ۔
بعض اہلسنت نے کیوں جناب عطیہ کی تضعیف کی ہے؟
بدقسمتی سے بعض افراد جیسا کہ جناب ذہبی اور اس سے پہلے احمد بن حنبل اور نسائی نے جناب عطیہ کے حدیثی مقام کو کمزور قرار دیا ہے اور اسے مقام اعتبار سے محروم کیا ہے۔ (سیراعلامالنبلاء، ج۵، ص۳۲۵؛ میزانالاعتدال، ج۳، ص۸۰)۔
لیکن جناب عطیہ کو کمزور قرار دئے کی وجہ کیا ہے؟
ظاہرا دو چیزیں ایسی ہیں جو انہیں کمزور قررا دینے کی دلیل بن سکتی ہیں: (۱)جناب عطیہ کا شیعہ اور ولایتمدار ہونا (2) امیر المومنین حضرت علی (علیہ السلام) کی افضلیت اور اعلمیت کا قائل ہونا۔
جناب عطیہ کی زندگی میں ایک اور نکتہ جس پر توجہ کرنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ یہ جو جناب عطیہ کو حضرت جابر بن عبداللہ انصاری کا غلام کہا جاتا ہے اس کے بارے میں ہمیں کوئی معتبر حوالہ نہیں ملا ہے۔