حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،چہلم امام حسین علیہ السلام کے موقع پر دہلی میں موجود شہر کرگل کے اسٹیوڈینس(AKSAD)کی جانب سے مجلس عزاء کا انعقاد ہوا جسمیں ۵۰۰ سے زاید STUDENTS نے شرکت کی اور اس کے بعد اربعین واک میں بھی شامل ہوئے۔
تفصیلات کے مطابق،اس سال بھی گذشتہ سالوں کی مانند پوری دنیا سے سالانہ کروڑوں میں زائرین امام حسین علیہ السلام اور شہدا کربلاکےچہلم کےموقع پرسرزمین عراق تشریف لاتے ہیں اور شہرنجف سے شہرکربلا تک ۸۵ کلومتر کا فاصلہ پیدل طے کرتے ہیں جسمیں تمام مردو زن ، جھوٹے اور بڑے ، امیر اور غریب ،مسلمان اور غیر مسلمان ،خلاصہ ہر دین و مذہب ، قوم و ملت اور رنگ اور روپ کے لوگ نظر آتے ہیں جو اتحاد و اتفاق کا بہترین نمونہ ہے جو دنیا کے کسی بھی کونے میں نظرنہیں آتا ہے کربلاتحریک انسانیت تھی، ہے اور رہے گا اتنے سارے عاشقان امام حسین علیہ السلام کا جمع ہوکے آنا اس بات کی دلیل ہے کہ تحریک عاشورا ابھی بھی زندہ ہے جو ہر انسان کو ھل من ناصر ینصرنا کی صدا دی رہی ہے اور ہر زائز امام حسین علیہ السلام اس عظیم الشان مشی میں شامل ہوکے شہداء کربلا کی تحریک انسانیت کو دنیا کے ہر انسان تک پہنچانے میں کوشاں ہے۔
اسی طرح جو لوگ کربلا نہ جاسکے وہ ہر سال چہلم کے موقع پر اپنے اپنے آبائی گاوں اورشہروں میں فرش عزاء بچھاتے ہیں اور اربعین واک کرتے ہیں۔ شہر دہلی میں بھی کثیر تعداد میں لوگ اربعین واک میں شامل ہوتے ہیں اور تعزیہ داری کارسم بھی یہاں مشہور ہے جسمیں امام حسین علیہ السلام کے روضہ کی شبیہ بنایا جاتا ہے اور اس کو لے کر ۹سے ۱۰ کلومتر کا فاصلہ طے کرتے ہیں جو ہندوستان کے پارلمینٹ ھاوس کے راستے گزرتے ہوئے امام بارگاہ جورباغ جو کربلا کےنام سےمشہور ہے، اختتام پذیر ہوتا ہے جسمیں لاکھوں کی تعداد میں مسلمان اور غیر مسلمان لبیک یا حسین علیہ السلام اور لبیک یا زینب سلام اللہ علیہا کی صدا بلند کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔
اس سلسلے میں ہرسال کرگل کے دہلی میں مقیم اسٹیوڈینس(AKSAD)بھی مجلس عزاء برپا کرتے ہیں اور اربعین واک میں شرکت کرتے ہیں جسمیں کثیر تعداد میں جوانو نوجوان طلاب وطالبات شرکت کرتے ہیں۔اس سال بھی بہترین پروگرام منعقد ہوا۔ جسمیں جناب مولانا ربانی اور مولانا جواد حبیب نے خطابت کے فرایض انجام دیئے اور جوانوں کو اربعین حسینی کے اہداف و مقاصد سے آگاہ کیا۔
دہلی اسٹیوڈین یونین کے صدر جناب اسماعیل نے سب شرکاء کا شکریہ ادا کیا اور اس کے بعد جوانوں نے اربعین واک میں شرکت کی تقریبا ۷ کلومتر کے فاصلہ طے کرنے امام بارگاہ جورباغ میں مجلس و دعائیہ کلمات کے ساتھ اختتام پذیر ہوا ۔
امام حسین علیہ السلام کا پہلا چہلم وہ دن ہےکہ جب حسین ابن علی (ع) کے مشہور زائر پہلی بار کربلا آئے، پیغمبر اسلام (ص) اور امیرالمومنین (ع) کے صحابی جابر ابن عبداللہ انصاری اور عطیہ آئے، جابر جو نابینا تھے، عطیہ نے ان کا ہاتھ تھاما اور امام حسین (ع) کی قبر پر رکھ دیا؛ انہوں نے قبر کو مس کیا اور رونے لگے اور حسین بن علی علیھما السلام سے گفتگو کرنے لگے اور اپنی گفتگو سے حسین بن علی (ع) کی شہادت کی یاد کو زندہ کردیا اور شہدا کی قبروں کی زیارت کی سنت کی بنیاد رکھی؛ اس طرح کا اہم دن " اربعین " کا دن ہے۔
امام صادق (ع) کا قول ہے: جو کوئی واقعہ کربلا کے بارے میں ایک شعر کہے اور لوگوں کو اس شعر سے رلائے تو خداوند تعالی اس پر جنت واجب کر دیتا ہے۔ امام حسین (ع) کا قیام عدل و انصاف قائم کرنے کےلئے تھا:" وَ إِنَّما خَرَجْتُ لِطَلَبِ الاِصْلاحِ فى أُمَّةِ جَدّى، أُريدُ أَنْ آمُرَ بِالْمَعْرُوفِ وَأَنْهى عَنِ الْمُنْكَرِ" زیارت اربعین میں کہ جو بہترین زیارتوں میں سے ایک ہے، ہم پڑھتے ہیں کہ " وَ مَنَحَ النُّصْحَ وَ بَذَلَ مُهْجَتَهُ فِيكَ لِيَسْتَنْقِذَ عِبَادَكَ مِنَ الْجَهَالَةِ وَ حَيْرَةِ الضَّلالَةِ ..."
اس عظیم ہستی کا کردار اور تمام اقوال اور معصومین (ع) سے روایت ہونے والے آنحضرت کے بارے میں اقوال اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ شہادت کا مقصد، عدل و انصاف کو قائم کرنا، دین خدا کی حفاظت، شریعت کا نفاذ اور ظلم و جور و سفاکیت کی بنیادوں کو اکھاڑ پھینکنا تھا۔
اس لئے بلا تفریق مذہب و ملت ہر قوم کے افراد کا یہ اخلاقی فرض ہے کہ ساری دنیا میں امام عالی مقام کی اس قربانی کی اہمیت اور اس کے مقصد کی تبلیغ کرنے کے اس پرامن مشن میں شامل ہوجائے۔ اسی لئے اربعین حسینی کے اس پرامن مشن کو ہر برس آگے بڑھانے کی ذمہ داری ہر اس حساس انسان کے کاندھوں پر ہے جو کسی ایک خاص مذہب کے ماننے سے پہلے مذہب انسانیت کا پیروکار ہے۔شاید اسی کی نشاندہی کرتے ہوئے شاعر انقلاب نے کہا تھا۔
"کیا صرف مسلمانوں کے پیارے ہیں حسین / چرخ نوع بشر کے تارے ہیں حسین
انسان کو بیدار تو ہولینے دو / ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین"۔
آج جب ہم اربعین حسینی کے پرامن اجتماع پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ اس قافلے میں ’ لبیک یا حسین ‘ کا نعرہ لگانے والوں میں دنیا کے کونے کونے سے آنے والے ہر مذہب و ملت کے لوگ شامل ہیں جو اس بات کا بین ثبوت ہے کہ حسینی پیغام سماج کے کسی ایک مخصوص طبقے کا پیغام نہیں ہے بلکہ ساری بنی نوع انسانی کا پیغام ہے ، تمام باطل قوتوں کے خلاف اہل حق کا اک غیر متشدد کرارا جواب ہے۔
اربعین حسینی نے عوام میں ہر برس بڑھتی ہوئی مقبولیت اور زائرین کی نامسائد حالات کے باوجود اس میں پرخلوص شمولیت اس بات کی شاہد ہے کہ یہ اجتماع انتہائی پرامن اور انسانی یکجہتی کی ایک جیتی جاگتی مثال ہے۔ دنیا کے طول وعرض میں اربعین حسینی کے توسط سے سماجی اتحاد اور ہم آہنگی کے جو بے مثال مناظر مشاہدہ میں آتے ہیں اس سے اس یقین کو مزید تقویت ملتی ہے کہ انسانیت کا کوئی الگ مذہب نہیں ہوتا بلکہ انسانیت خود ایک آفاقی مذہب ہے۔