۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
حجت الاسلام والمسلمین محمدجعفر طبسی

حوزہ/ اس عظیم شخصیت کے فضائل اور افتخارات میں سے ان کا ایک اعزاز یہ ہے کہ انہیں حضرت سید الشہداء علیہ السلام کے عظیم صحابی حضرت جابر بن عبداللہ انصاری کے ساتھ 20 صفر کو زیارت اباعبداللہ الحسین علیہ السلام کی توفیق نصیب ہوئی۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،حجت الاسلام والمسلمین محمد جعفر طبسی " اربعین کے دن حضرت امام حسین (ع) کے پہلے زائر کی زندگی کے اہم نکات" کے عنوان سے اپنی تحریر میں راقم ہیں:

عطیہ بن سعد عوفی ، جلیل القدر تابعی، ممتاز دانشمند اور قرآن کریم کے مفسرین میں سے ہیں کہ جنہیں حضرت سید الشہداء (علیہ السلام) کے عظیم صحابی حضرت جابر بن عبداللہ انصاری کے ساتھ 20 صفر کو زیارت اباعبداللہ الحسین (علیہ السلام) کی توفیق نصیب ہوئی۔ اس عظیم اور جلیل القدر تابعی کی زندگی کے چند مہم ترین نکات کو یہاں اختصار کے ساتھ بیان کیا جائے گا۔

1۔ پیدائش کے وقت حضرت امیر المومنین (علیہ السلام) کی جانب سے ان کا نام رکھا جانا:

ولادت کے وقت ان کے والد سعد ابن جنادہ کوفہ میں حضرت امیر المومنین (علیہ السلام) کے پاس آئے اور کہا: "خدا نے مجھے ایک فرزند عنایت کیا ہے۔ براہ کرم، اس کا نام تجویز فرمائیں" امام (علیہ السلام) نے فرمایا: "یہ ایک "عطیہ الہی" (الہی تحفہ) ہے۔" اسی وجہ سے ان کا نام "عطیہ" رکھا گیا۔ (سفینه‌البحار، شیخ عباس‌قمی، ج۶، ص۲۹۶ هذا عطیه‌الله ...)

2۔ مفسر قرآن:

جناب عطیہ قرآن کریم کے مفسرین میں سے ہیں۔ انہوں نے پانچ جلدوں میں تفسیر قرآن کریم لکھی ہے۔ اس میں کہتے ہیں: عطیہ کہتے ہیں: "میں نے ابن عباس کے سامنے قرآن کریم کو تین بار تفسیر کی شکل میں اور تیس مرتبہ قرائت کو محوریت قرار دیتے ہوئے پیش کیا"۔ (سفینه ‌البحار، ج۶، ۲۹۶)

3۔ خطبۂ فدکیہ کے راوی:

ابن ابی طیفور (متولد 280 ھ) کہتے ہیں: "عطیہ ابن سعد نے عبداللہ ابن الحسن نامی شخص سے فدکیہ کا خطبہ سنا" (بلاغات النساء ، صفحہ 23)

4۔ نقل حدیث میں موثق:

جناب عطیہ کثیر الحدیث اور مورد اعتماد تھے۔ (سفینه‌البحار، ج۶، ص۲۹۶؛ معرفه‌الثقات، عجلی، ج۲، ص۱۴؛ الطبقات‌الکبری، ابن‌سعد، ج۶، ص۳۰۵)

5۔ حضرت امیر المومنین اور اہلبیت (علیہم السلام) کے مقام و منزلت میں جناب جابر سے نقل روایات کرنا:

جناب عطیہ نے حضرت امیر المومنین اور اہلبیت(علیہم السلام) کے مقام و منزلت میں جناب جابر سے نقل روایات کی ہیں۔ جیسے حدیث صحیح و متواتر غدیر(بحارالانوار، ج۳۷، ص۱۸۵)؛ روایت نزول آیه "یا ایّهاالرسول بلّغ ما اُنزِل الیک مِن رَبِّک..." شان امیرالمؤمنین (ع) میں (ایضاً، ج۳۷، ص۱۹۰)؛ حدیث متواتر و صحیح منزلت (ایضاً ، ج۸، ص۱ به نقل از امالی‌صدوق)؛ روایت نزول آیه تطهیر در شان اهلبیت(ع)؛ حدیث نبوی(ص) "علیّ(ع) خیرالبشر" که جو افضلیت امیرالمؤمنین(ع) پر واضح دلالت کرتی ہے؛ حدیث شریف "مَکتوب عَلی باب‌ِالجَنّه لاالله الا الله محمّد رسول‌الله علیّ اَخو رسول‌ِالله" اور بیسیوں دوسری احادیث۔

6۔ ولایت سے تحفظ:

جناب عطیہ نے اموی حکمرانوں کی جانب سے امیر المومنین (علیہ السلام) کے شان میں کی جانے والی توہین کی کبھی بھی حمایت نہیں کی ۔ وہ اس وقت فارس کی طرف چلے گئے تھے۔ سفاک حاکم وقت حجاج ‌بن ‌یوسف ثقفی نے محمد بن قاسم ثقفی کو خط لکھا کہ عطیہ کو طلب کرے اور اس سے علی (علیہ السلام) پر لعنت بھیجنے کو کہے اور اگر اس نے انکار کیا تو اسے 400 کوڑے مارے اور اس کے سر اور چہرے کے تمام بال کاٹ ڈالے۔ جناب عطیہ نے حضرت علی (علیہ السلام) پر لعنت سے انکار کیا اور کوڑوں کو سہنے پر راضی ہوئے۔ (سفینه‌البحار، ج۶، ص۲۹۶)

7۔ قبر مطہر امام حسین (علیہ السلام) کا پہلا زائر:

اس عظیم شخصیت کے فضائل اور افتخارات میں سے ان کا ایک اعزاز یہ ہے کہ انہیں حضرت سید الشہداء (علیہ السلام) کے عظیم صحابی حضرت جابر بن عبداللہ انصاری کے ساتھ 20 صفر کو زیارت اباعبداللہ الحسین (علیہ السلام) کی توفیق نصیب ہوئی۔  (بشاره‌المصطفی، طبری، ص۷۴؛ بحارالانوار، ج۱۰۱، ص۳۲۹؛ سفینه‌البحار، ج۶، ص۲۹۵)

مرحوم قمی کے مطابق سال (111 ھ) میں جناب عطیہ کا انتقال ہوا۔ (سفینه‌البحار، ج۶، ص۲۹۶)  عاش سعیدا و مات سعیدا حشره الله مع الحسین علیه‌السلام

بعض اہلسنت نے کیوں جناب عطیہ کی تضعیف کی ہے؟

بدقسمتی سے بعض افراد جیسا کہ جناب ذہبی اور اس سے پہلے احمد بن حنبل اور نسائی نے جناب عطیہ کے حدیثی مقام کو کمزور قرار دیا ہے اور اسے مقام اعتبار سے محروم کیا ہے۔ (سیراعلام‌النبلاء، ج۵، ص۳۲۵؛ میزان‌الاعتدال، ج۳، ص۸۰)۔

لیکن جناب عطیہ کو کمزور قرار دئے کی وجہ کیا ہے؟

ظاہرا دو چیزیں ایسی ہیں جو انہیں کمزور قررا دینے کی دلیل بن سکتی ہیں: (۱)جناب عطیہ کا شیعہ اور ولایتمدار ہونا (2) امیر المومنین حضرت علی (علیہ السلام) کی افضلیت اور اعلمیت کا قائل ہونا۔

جناب عطیہ کی زندگی میں ایک اور نکتہ جس پر توجہ کرنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ یہ جو جناب عطیہ کو حضرت جابر بن عبداللہ انصاری کا غلام کہا جاتا ہے  اس کے بارے میں ہمیں کوئی معتبر حوالہ نہیں ملا ہے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .