تحریر: مولانا سید ظفر عباس رضوی قم المقدسہ
حوزہ نیوز ایجنسی। آج پوری دنیا میں امام حسین علیہ السلام کا غم منایا جا رہا ہے، آپ پہ آنسو بہایا جا رہا ہے آپ پہ ماتم کیا جا رہا ہے، ویسے تو امام علیہ السلام کے چاہنے والے پورے سال آپ کا غم مناتے ہیں لیکن دو مہینہ آٹھ دن تک مسلسل آپ کا غم مناتے ہیں، اور ہر سال کوشش کرتے ہیں کہ پچھلے سال سے بہتر طریقہ سے منائیں، اور پچھلے اور اس سال بھی کرونا جیسی منحوس بیماری کے با وجود بھی امام کے چاہنے والوں نے جہاں تک ہو سکتا تھا آپ کا غم منانے میں اپنے اعتبار سے کوئی کوتاہی نہیں کی، آپ کا غم منانے کے لئے آپ کے چاہنے والے اپنا سب کچھ بھول جاتے ہیں خاص طور سے اربعین منانے کے لئے عراق کے مومنین، اگر ہم صرف عراق کے مومنین کو دیکھیں اور اندازہ لگائیں کہ یہ لوگ کس قدر امام حسین علیہ السلام کے چہلم میں خرچ کرتے ہیں اور امام کے زائرین کی کتنی زیادہ خدمت کرتے ہیں تو اس بات کا ہم اندازہ نہیں لگا سکتے ہیں۔
گذشتہ برس اربعین میں پوری دنیا سے لوگ کربلا نہیں جا سکے تھے لیکن عراق کے مومنین بہت بڑی تعداد میں کربلا پہونچے اور دوسرے ملکوں کی طرف سے نائب بن کر گئے، ہم نے یہ بھی دیکھا کہ بعض ملکوں کے لوگ اگر چہ گذشتہ سال اربعین میں کربلا نہیں جا سکے تھے لیکن انھوں نے اپنے ہی ملک کو کربلا بنا دیا تھا اور غریب زہرا کا چہلم منانے کے لئے بہت بڑی تعداد میں جمع ہو گئے تھے اور یہ جوش و جذبہ پیغمبر اکرم(ص) کی اس حدیث کی طرف اشارہ کر رہا ہے جس میں آپ فرماتے ہیں:
"اِنَّ لِقَتْلِ الْحُسَیْن حَرارَةً فى قُلُوبِ الْمُؤ منینَ لا تَبْرُدُ اَبَداً"(مستدرک الوسائل ومستنبط المسائل ج10 ص318 ناشر-موسسہ آل البیت علیہم السلام قم)
"حسین (علیہ السلام)کی شہادت کی وجہ سے مومنین کے دلوں میں وہ حرارت اور وہ گرمی پیدا ہوگئ ہے جو کبھی سرد ہونے والی نہیں ہے"
ہاں ایسا ہی ہے امام حسین علیہ السلام کا غم اب جہانی ہو گیا ہے اور اب پوری دنیا آپ کا غم مناتی ہے، پچھلے سال کے مقابلہ میں اس سال زائرین کی تعداد میں کافی اضافہ ہوا ہے اور امید ہے کہ انشاء اللہ آئندہ سال پھر گذشتہ برسوں کی طرح منایا جائے گا بلکہ اس سے بھی بہتر طریقہ سے،امام حسین علیہ السلام کا چہلم ہر سال منایا جاتا ہے لیکن ادھر چند برسوں سے اربعین سید الشہداء کا ایک الگ رنگ اور ایک الگ شناخت و پہچان ہو گئی ہے جس کا اثر دیکھ کر دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں حیران و پریشان اور مبہوت ہوگئی ہیں اور انشاءاللہ یہ سلسلہ روز بروز بڑھتا ہی رہے گا یہاں تک کہ امام زمانہ علیہ السلام کے ظہور سے جا کے مل جائے گا، اپنی اس تحریر میں مجھے جس بات کی طرف اشارہ کرنا ہے وہ یہ ہے کہ امام حسین علیہ السلام نے اپنی شہادت کیوں پیش کی اور آپ کی شہادت کا سب سے اہم ہدف و مقصد اور سب سے بڑا پیغام کیا ہے؟ اربعین کے دن جب ہم زیارت اربعین پڑھتے ہیں، جس کا پڑھنا مومن کی نشانیوں میں سے ایک نشانی اور علامت ہے، تب ہمیں پتہ چلتا ہے کہ آپ کی شہادت کا سب سے اہم ہدف اور مقصد کیا ہے، زیارت اربعین میں ایک جگہ پہ یہ جملہ آیا ہے:
"وَ بَذَلَ مُهْجَتَهُ فِيكَ لِيَسْتَنْقِذَ عِبَادَكَ مِنَ الْجَهَالَةِ وَ حَيْرَةِ الضَّلَالَةِ"(مصباح المتہجد ج2 ص788 ناشر-موسسہ فقہ الشیعہ بیروت)
"اور(امام حسین علیہ السلام نے) تیری راہ میں اپنا خون بہایا تا کہ تیرے بندوں کو جہالت و گمراہی کی حیرانی سے نکال لیں"
یعنی امام حسین علیہ السلام نے اپنی جو قربانی پیش کی ہے اس کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ خدا کی مخلوق کو جہالت و گمراہی کی حیرانی اور تاریکی سے نکال لیں، اور یہ بھی بہت زیادہ غور کرنے کی بات ہے کہ زیارت میں یہ نہیں ہے کہ صرف مسلمانوں اور شیعوں کو جہالت و گمراہی کی حیرانی سے نکال لیں بلکہ پوری بشریت کو پوری انسانیت کو جہالت و گمراہی کی حیرانی اور تاریکی سے نکال لیں، یعنی امام حسین علیہ السلام کی قربانی کسی خاص قوم اور کسی مخصوص مذہب و ملت کے لئے نہیں ہے بلکہ پوری انسانیت کے ہے، لہذا اگر زیارت اربعین کے لحاظ سے دیکھا جائے تو امام حسین علیہ السلام کا سب سے اہم پیغام یہ ہے کہ لوگوں کو انسانوں کو جہالت و گمراہی کی تاریکی سے نکالا جائے، تو جب ایسا ہے تو پھر امام حسین علیہ السلام کے چاہنے والوں اور آپ کے شیعوں کا سب سے اہم کام اور سب سے اہم ذمہ داری یہ ہے کہ دنیا والوں کو جہالت و گمراہی کی حیرانی اور تاریکی سے نکالیں اور انھیں دین خالص اور اسلام ناب محمدی سے آشنا کرائیں اور اگر ایسا نہیں کریں گے تو ہر دور اور ہر زمانہ میں کوئی نہ کوئی یزید پیدا ہوتا رہے گا جیسا کہ آج ہم خود دیکھ رہے ہیں کہ پوری دنیا کی حالت کیا ہے، اور یہ کام کسی خاص زمانہ اور وقت کا محتاج نہیں ہے بلکہ پورے سال ہماری یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم دنیا والوں تک خالص دین اور حقیقی اسلام کو پہنچائیں خاص طور سے دو مہینہ آٹھ دن اور اس میں بھی اربعین میں اس لئے کہ اربعین کو آج پوری دنیا جاننے اور پہچاننے لگی ہے اور اس نے جہانی شکل اختیار کر لی ہے جس سے دنیا کا بچہ بچہ واقف ہو گیا ہے۔
اگر چہ پچھلے اور اس سال ہم اربعین کو اس طریقہ سے نہیں منا سکے جس طرح سے ہر سال مناتے تھے لیکن انشاء اللہ سال آئندہ پھر اسی شان و شوکت سے منائیں گے، لیکن ایام عزاء کے بچے ہوئے دنوں میں ہم اس ذمہ داری سے غافل نہ ہوں اور امام حسین علیہ السلام کے مقصد کو دنیا والوں کو بتائیں اور انھیں جہالت و گمراہی کی حیرانی اور تاریکی سے نکالیں خاص طور سے امام حسین علیہ السلام کے چاہنے والوں کو اور آپ کا غم منانے والوں کو،اگر ہم ایسا کر رہے ہیں تو یہ کہا جائے گا کہ واقعا ہم امام حسین علیہ السلام کے ہدف اور مقصد سے غافل نہیں ہیں، اور وقت کا امام بھی ہمارے اس کام سے خوش ہو گا اور ہمارے لئے دعا کرے گا اور اس کی نگاہ کرم مزید ہمارے شامل حال ہوگی۔
آخر میں خدا وند عالم سے دعا ہے کہ خدا محمد(ص) و آل محمد علیہم السلام کے صدقہ میں ہمیں توفیق عنایت فرمائے کہ پوری دنیا میں امام حسین علیہ السلام کے مقصد اور پیغام کو پہنچا سکیں اور دنیا والوں کو جہالت و گمراہی کی حیرانی اور تاریکی سے نکال سکیں، ساتھ ہی ساتھ خدا سے دعا ہے کہ امام حسین علیہ السلام کے صدقہ میں جلد سے جلد اس منحوس بیماری کو عالم انسانیت سے دور فرمائے تا کہ ہم جلد سے جلد کربلا جا سکیں خاص طور سے اربعین میں اور اپنے مولا کا غم اس طریقہ سے منا سکیں جس طرح سے ہر سال مناتے تھے-