۶ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۶ شوال ۱۴۴۵ | Apr 25, 2024
عسکری امام خان

حوزہ/ یہ سوال کافی اہم ہے اور ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے، اور اس لحاظ سے بھی اس سوال کی اہمیت بڑھ جاتی ہے کہ امام کو اپنی اس سیاسی اور نظامی تحریک میں ظاہری طور پر شکست ہوئی ہے۔

تحریر: حجۃ الاسلام عسکری امام خان
حوزہ نیوز ایجنسی| یہ سوال کافی اہم ہے اور ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے، اور اس لحاظ سے بھی اس سوال کی اہمیت بڑھ جاتی ہے کہ امام کو اپنی اس سیاسی اور نظامی تحریک میں ظاہری طور پر شکست ہوئی ہے۔ جب کہ ترک مدینہ کے ہنگام بعض بزرگ شخصیتوں نے امام علیہ السلام کو عراق اور کوفہ جانے سے منع بھی کیا تھا، حتی بعض لوگوں نے کوفہ والوں کی سابقہ غداریوں کی طرف یاددہانی بھی کرائی جو انہوں نے امام علی علیہ السلام اور امام حسن علیہ السلام کی نسبت کی تھی، پھر بھی امام علیہ السلام نے اپنا ارادہ نہیں بدلا یہاں تک کی بعض مورخین جیسے ابن خلدون نے لکھ دیا کہ امام نے یہاں پر معاذاللہ سیاسی غلطی کی اور انہیں کوفہ نہیں جانا چاہیے تھا ۔
یہاں تک کہ ابن عباس نے امام علیہ السلام سے عرض کیا کہ مولا اگر آپ جانا ہی چاہتے ہیں تو یمن چلے جائیے، بڑی وسیع سرزمین ہے، لیکن امام علیہ السلام نے کسی کی نہ سنی، آخر کیوں؟
دیکھئے اہل سنت چوں کہ امام علیہ السلام کو معصوم اور علم غیب کا حامل نہیں جانتے لہذا ابن خلدون کی طرح وہ معاذ اللہ امام کو کہتے ہیں کہ امام نے یہاں پر سیاسی غلطی کی ہے، لیکن شیعہ چوں کہ امام کو معصوم اور عالم غیب جانتے ہیں لہذا اس مقام پر ان کے نظریے مختلف ہیں کہ جس کا ایک سرکاری جائزہ ہم آپ کے سامنے پیش کریں گے۔

الف: نظریہ شہادت
یہ نظریہ چند امور پر مشتمل ہے
۱_ امام جب مقام امامت پر فائز ہوتا ہے تو خدا کی طرف سے اسے ایک صحیفہ عطا ہوتا ہے جس میں وہ قیامت تک کے لیے اپنے فرائض کا مطالعہ کرتا ہے اور اسی کے مطابق عمل کرتا ہے۔
۲_ امام حسن علیہ السلام کے بعد امام حسین علیہ السلام نے جب اپنے فریضے پر نظر کی تو دیکھا کہ اس میں لکھا ہوا ہے: قَاتِلْ فَاقْتُلْ وَ تُقْتَلُ وَ اُخْرُجْ بِأَقْوَامٍ لِلشَّهَادَةِ لاَ شَهَادَةَ لَهُمْ إِلاَّ مَعَكَ، (١) "جنگ کرو پس قتل کرو اور قتل ہو جاؤ اور ایک گروہ کے ساتھ شہادت کے لیے نکلو کہ ان کے لئے شہادت نہیں ہے مگر تمہاری ہمراہی میں"۔ اور یہی حکم پیغمبر (ص) کے ذریعہ خواب میں بھی امام علیہ السلام کو ابلاغ ہوا، جیسا کہ محمد حنفیہ سے امام علیہ السلام نے فرمایا: نانا میرے خواب میں آئے تھے اور وہ فرما رہے تھے: "يا حسين اخرج فان الله قد شاء ان يراك قتيلا" (۲)
یعنی امام کو شہادت کے لئے نکلنا ہے جان محفوظ کرنے کے لئے نہیں، و الا امام دوسروں سے بہتر جانتے تھے کہ اھل کوفہ وفا نہیں کریں گے، بلکہ عہد شکنی کے ساتھ ساتھ وہ آپ سے جنگ بھی کریں گے اور شہید بھی کر دیں گے۔
اب سوال یہ ہے کہ اس شہادت کا ہدف کیا تھا، تو اس سلسلے میں بھی اختلاف ہے بعض لوگ قائل ہیں کی آپ نے شہادت دی تا کہ آپ کا خون آپ کے چاہنے والوں کے لیے تا قیامت ان کے گناہوں کا کفارہ قرار پائے،جیسا کہ مسیحیوں کا اعتقاد قتل مسیح کے سلسلے میں ہے۔
یہ نظریہ صحیح نہیں ہے اس لیے کہ:
۱_ امام حسین علیہ السلام کی ذات گرامی اور اسی طرح دیگر ائمہ کی سیرت ہمارے لیے اسوہ ہے اور لازم العمل ہے یعنی کہ ہم ان کے راستے پر چلیں اور ان کی پیروی کریں، اور یہ شیعوں کی ایک مسلم اصل ہے، لہذا اگر یہ کہا جائے کہ شہادت امام علیہ السلام کے لئے خاص حکم تھا تاکہ وہ ہم شیعوں کے گناہوں کا کفارہ قرار پائیں تو اس صورت امام اور ان کی سیرت ہمارے لئے اسوہ ہونے سے خارج ہو جائے گی۔
۲_ یہ بات خود امام علیہ السلام کے کلام سے منافات رکھتی ہے جیسا کہ امام فرماتے ہیں: "لكم في اسوة" (۳)
(۳) اگرچہ انبیائے کرام، پیغمبر اکرم اور ائمہ علیہم السلام نے آپ کی شہادت کی خبر پہلے سے دے رکھی تھی، اور خود امام حسین علیہ السلام بھی اپنی شہادت سے آگاہ تھے، لیکن یہ نہیں کہہ سکتے کہ شہادت آپ کے قیام کا ہدف تھا، بلکہ آپ کا ہدف جیسا کہ آپ کے کلام سے واضح ہے امت کی اصلاح، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور سیرت پیغمبر صلی علیہ و آلہ و سلم اور سیرت حضرت علی علیہ السلام پر عمل کرنا تھا جیسا کہ محمد حنفیہ کے نام جو وصیت نامہ آپ نے تحریر کیا ہے اس کی عبارتوں سے ثابت ہوتا ہے: "إنّما خرجت لطلب الاصلاح في أمّة جدّي صلّى اللّه عليه و آله، اريد أن آمر بالمعروف و أنهى عن المنكر، و أسير بسيرة جدّي محمد صلّى اللّه عليه و آله و أبي عليّ بن أبي طالب عليه السلام " (۴)
جیسا کہ آپ ملاحظہ فرما سکتے ہیں کہ ان اہداف کے درمیان کہیں بھی شہادت کو ہدف بیان نہیں کیا گیا ہے۔

ب: نظریہ حکومت
اس نظریے کو سب سے پہلے چوتھی صدی ہجری میں سید مرتضی علم الہدی نے بیان فرمایا ہے آپ فرماتے ہیں: ہمارے سید و سردار "ابا عبد الله الحسين علیہ السلام" نے اس وقت تک کوفہ کی سمت حرکت نہیں کی جب تک کہ ان کے پیمان عہد سے مطمئن نہیں ہو گئے۔(۵)
اگرچہ بہت سے لوگوں نے اس نظریے کی مخالفت کی ہے لیکن بہت سے علماء نے اس کی طرف داری بھی کی ہے۔
سب سے بڑا اعتراض جو اس نظریے پر وارد ہوتا ہے وہ امام علیہ السلام کے علم غیب کے پہلو کو نظر میں نہ رکھنا ہے۔
امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس نظریے کو قبول کیا ہے اور متعدد بار اس کی طرف اشارہ کیا ہے وہ فرماتے ہیں کہ: امام (ع) کے مقدس قیام کے جملہ اہداف میں سے ایک ہدف، ایک دینی اور صالح حکومت برپا کرنا تھا۔
دلائل:
پہلی دلیل: سب سے اہم دلیل خود مولا کا وہ کلام ہے جو مدینہ سے نکلتے ہوئے آپ نے بیان فرمایا تھا کہ . . . انما خرجت لطلب الاصلاح في امة جدي. . . . یعنی ہدف امت کی اصلاح امر بالمعروف اور نہی عن المنکر، نیز پیغمبر (ص) اور علی(ع) کی سیرت پر عمل کرنا تھا، اور یہ چیزیں بغیر حکومت کے ممکن نہیں تھیں۔
دوسری دلیل: اہل کوفہ کے خطوط ہیں کہ جس میں یہ تحریر کیا گیا تھا کہ لشکر آمادہ ہے، بس آپ جیسے رہبر کی کمی ہے، اس سے واضح ہوتا ہے کہ وہ حکومت یزید کو قبول نہیں کرتے تھے اور چاہتے تھے کہ امام (ع) زمام حکومت سنبھالیں اور پھر امام کا مثبت جواب اور کوفہ کے لیے روانہ ہونا یہ خود دلیل ہے کہ امام حکومت چاہتے تھے۔
تیسری دلیل: جناب مسلم کا بیعت لینا جیسا کہ اٹھارہ ہزار لوگوں نے بیعت کی، یہ خود تشکیل حکومت کی واضح دلیل ہے۔

ج: نہ شہادت نہ حکومت
امام علیہ السلام کے قیام کا ہدف اور مقصد نہ شہادت تھا نہ حکومت، جیسا کہ رہبر معظم حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اس مقام پر بڑی عمدہ تحلیل پیش کی ہے، آپ فرماتے ہیں کہ جنہوں نے کہا ہے کہ ہدف شہادت تھا یا جو کہتے ہیں کہ ہدف حکومت تھا، پوری طرح ان کی بات غلط نہیں ہے بلکہ انہوں نے ہدف نتیجے کو ملا دیا ہے، پھر آپ فرماتے ہیں امام علیہ السلام کا اصل ہدف اک واجب الہی کا نفاذ تھا اور امر الہی کو برپا کرنا تھا اور وہ واجب الہی یہ تھی کہ امت جو انحراف کے راستے پر آ گئی تھی، اور اسلام جو نابودی کے کگار پر کھڑا تھا اسے راہ راست پر لانا تھا، معاویہ کے دور میں کم ازکم ظاہری اسلام کا ہی پاس و لحاظ تو تھا لیکن یزید جو کھلے عام شراب پیتا تھا، وحی الہی اور قرآن کا مذاق اڑا رہا تھا، فسق و فجور کا مرتکب ہو رہا تھا، اب ایسے میں اگر امام آگے نہ بڑھتے تو اسلام نابود ہوجاتا، اس لئے کہ حکومت منحرف تھی، علماء منحرف ہو چکے تھے، عوام انحراف کے راستے پر آچکی تھی، لہذا امام علیہ السلام نے اپنا فریضہ سمجھتے ہوئے اصلاح امت اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر، نیز سیرت پیغمبر (ص) و علی (ع) کو زندہ کرنے کے لیے قیام فرمایا، اب اس کا نتیجہ یا حکومت تھی یا شہادت امام علیہ السلام دونوں پر راضی تھے اور دونوں کیلئے آمادہ تھے۔

خلاصہ: یہ کہ امام علیہ السلام کا اصل ہدف ایک واجب الہی کو برپا کرنا تھا، حکومت و شہادت دو اس کے ممکنہ نتیجے تھے اور امام دونوں کے لئے آمادہ تھے۔
(۱) اصول کافی،جلد۲, صفحہ ۲۸.
(۲) لہوف ، صفحہ ۸۴
(۳)تاریخ طبری، جلد ۵، صفحہ ۴۰۳.
(۴)بحار الانوار، جلد ۴۴،صفحہ۲۲۹.
(۵) شہید فاتح، صفحہ ۱۷۰.

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .