حوزہ نیوز ایجنسی| توبہ ایک توفیق الہی ہے اور یہ الہی توفیق اس وقت کسی انسان کے شامل حال ہوتی ہے کہ جب انسان اپنے کیے پر پشیمان اور شر مندہ ہو۔
یہ سوال دو نقطہ نظر سے قابل بحث ہے۔
۱_ تاریخی نقطہ نظر سے کی آیا یزید اپنے کئے پر نادم اور شرمندہ تھا ؟ کیا اس نے اپنی غلطی کی تلافی کی کوشش کی اور بارگاہ الہی میں طلب مغفرت کے لئے دست بہ دعا ہوا یا نہیں ؟
۲_ کلامی نقطہ نظر سے کہ کیا ایسے خبیث شخص کو توفیق توبہ حاصل ہو سکتی ہے؟ اور کیا زبان سے اظہار پشیمانی کو توبہ کہا جا سکتا ہے؟ جب کہ عملی طور سے گناہ اور غلطی سے باز نہ آئے؟
اگرچہ پوری تاریخ اسلام میں اکثر بلکہ قریب بہ اتفاق مورخین و محدثین اور علماء اسلام نے یزید کو ایک فاسق و فاجر اور ظالم شخص جانا ہے اور مستحق لعنت قرار دیا ہے لیکن انہیں کے درمیان غزالی جیسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے یزید پر لعنت کرنے سے منع کیا ہے، اس بنیاد پر کہ یہاں توبہ کا امکان پایا جاتا ہے، (جیسا کہ غزالی نے یہ بات اپنی کتاب "احیاء العلوم" میں تحریر کی ہے).
البتہ اس زمانے کے دیگر اہلسنت علماء نے غزالی کا جواب دیا ہے اور اس کی اس رائے کی شدت سے مخالفت کی ہے، جیسا کہ ابن جوزی نے مستقل کتاب بھی بنام " الرد على المتعصب العنيد المانع من ذم يزيد" لکھی ہے۔
البتہ ہر زمانے میں کہیں نہ کہیں سے کچھ یزیدی النسل لوگوں سے ایسی باتیں سننے میں آتی رہی ہیں، دور حاضر میں بھی کچھ یزید کی ناجائز اولادیں پیدا ہو گئی ہیں جو اس طرح کے شبہے لوگوں کے درمیان شائع کر رہی ہیں اور لوگوں کو گمراہ کرنے کی سعی میں ہیں۔
بہرحال ہم اس مقام پر سب سے پہلے تاریخی نقطہ نظر سے بحث کریں گے کہ آیا یزید نے نے توبہ کی اور وہ اپنے کیے پر پشیمان تھا یا نہیں اگر تاریخی نقطہ نظر سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ یزید نے توبہ نہیں کی اور وہ اپنے کیے پر پشیمان بھی نہیں تھا تو اس صورت میں کلامی نقطہ نظر سے بحث کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا (اس لیے کہ جب توبہ ہی نہیں کی ہے تو پھر یہ بحث ہی پیش نہیں آتی کہ ایسے شخص کی توبہ قبول ہے یا نہیں)۔
تاریخی نقطہ نظر سے جب ہم نگاہ ڈالتے ہیں تو یزید کے توبہ کرنے کی توجیہ میں بعض لوگوں نے کچھ شواہد پیش کرنے کی کوشش کی ہے، جیسے کہ ابن قتیبہ نے اپنی کتاب "الامامہ و السیاسۃ" میں اس طرح ذکر کیا ہے کہ واقعہ عاشورا کی خبر پر یزید کی حالت یہ تھی کہ: " فبكى يزيد حتى كادت نفسه تفيض" (۱) یعنی یزید اتنا رویا کہ قریب تھا کہ اس کی روح اس کے بدن سے پرواز کر جائے۔
یا لکھتے ہیں کہ جب کربلا کے اسیروں کو دربار یزید میں لایا گیا تو اس نے تمام ظلم و زیادتی کی نسبت ابن زیاد کی طرف دیتے ہوئے اس طرح بیان کیا : "لعن الله ابن مرجانه لقد بغضني الى المسلمين و زرع لي في قلوبهم البغضاء" (۲)
"خدا مرجانہ کے بیٹے (ابن زیاد) پر لعنت کرے کہ مجھے مسلمانوں کے نزدیک مبغوض بنادیا اور ان کے دلوں میں میرا بغض بو دیا"
یا اسی طرح شام سے اسیروں کی رہائی کے وقت یزید امام سجاد علیہ السلام کو مخاطب کرکے کہتا ہے : " لعن الله ابن مرجانه اما والله لو اني صاحبه ما سالني خصلة ابدا الا اعطيته اياها و لدفعت الحتف عنه بكل ما استطعت ولو بهلاك بعض ولدي " (۳)
"خدا ابن مرجانہ (ابن زیاد) پر لعنت کرے، کہ خدا کی قسم اگر میں حسین (ع) کے مقابلے میں ہوتا تو وہ جو بھی درخواست کرتے میں اسے پورا کرتا اور ہر ممکن طریقہ سے موت کو ان سے دور رکھتا ہے اگر چہ اس کام کے لیے ہمیں اپنے بعض بیٹے کو ہلاک ہی کیوں نہ کرنا پڑتا"
اسی طریقے کی اور بھی بہت سی گفتگو ہے کہ یزید نے جس میں خود کو بری کرنے کی کوشش کی ہے.
*گویا* ان ساری باتوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ اصل مجرم ابن زیاد تھا، امام (ع) کے قتل کا کوئی دستور یزید کی طرف سے جاری نہیں ہوا تھا، ابن زیاد کے اس خونبار اقدام پر یزید کو بہت غصہ آیا ، نیز قتل امام(ع) پر یزید نے اظہار افسوس کیا۔
جب کہ تاریخ کے معتبر اسناد اس کے برخلاف ہیں، جس سے یزید کی ان تمام باتوں کا جھوٹ ثابت ہو جاتا ہے، جیسے کہ تاریخ نے واضح طور پر یہ لکھا ہے کہ یزید نے تخت پر بیٹھتے ہی پہلا خط حاکم مدینہ ولید بن عتبہ کو لکھا کہ: اذا اتاك كتابي هذا فاحضر الحسين ابن علي (عليه السلام) وعبد الله ابن الزبير فخذهما بالبيعة لي فان امتنعا فاضرب اعناقهما وابعث لي برؤسهما" (۴)
"جب یہ خط تجھے ملے تو حسین بن علی اور عبد اللہ بن زبیر کو بلا کر میری بیعت لے اور ممانعت کی صورت میں دونوں کا سر قلم کر کے میرے پاس بھیج,"
اسی طرح بعض معتبر حوالے سے ملتا ہے کہ جس وقت امام علیہ السلام مکہ میں تشریف فرما تھے یزید نے کچھ لوگوں کو خفیہ طور پر حج کے لیے بھیجا تاکہ حج کے اعمال کے دوران خانہ کعبہ کے نزدیک امام (ع) کو قتل کر دیا جائے (۵)، جیسا کہ ابن عباس نے بھی اپنے خط میں یزید کو اسی کی طرف اشارہ کیا ہے: " و أنسيت انفاذ أعوانك إلي حرم الله لقتل الحسين عليه السلام" (٦)
"اور تم حسین علیہ السلام کو قتل کرنے کے لیے حرم خدا تک اپنی مدد پہنچانا بھول گئے".
یا اسی طرح جب امام علیہ السلام عراق کی طرف روانہ ہوئے تو یزید نے ابن زیاد کو خط لکھا کہ امام علیہ السلام سے بڑی سختی سے پیش آئے اور بھر پور مقابلہ کرے (۷)، خود ابن زیاد نے کہا ہے کہ امام حسین علیہ السلام کے قتل کا حکم یزید کی طرف سے مجھے آیا تھا اور اس بات کا صراحت سے اعتراف کیا ہے(٨). عبداللہ ابن عباس نے بھی ایک خط میں یزید کو صراحت کے ساتھ امام حسین علیہ السلام کا قاتل قرار دیا ہے: "انت قتلت حسين ابن علي . . . "
" تو نے حسین بن علی(ع) کو قتل کیا ہے ۔ ۔ ۔ "(۹)
یہ بات اس وقت اس قدر واضح تھی کہ حتی یزید کا بیٹا معاویہ ابن یزید بھی دمشق کی جامع مسجد کے منبر سے اپنے باپ کو ملامت کرتے ہوئے اس طرح کہتا ہے: قد قتل عتره الرسول ۔ ۔ ۔ " (۱۰) "کہ (میرے باپ) نے عترت رسول کا قتل کیا"
خلاصہ یہ کی امام علیہ السلام کا قتل حکم یزید سے ہوا ہے اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
لیکن یزید کا امام علیہ السلام کے قتل پر اظہار افسوس کی کیا حقیقت ہے، تاریخی شواہد سے یہ بات بھی روشن ہے، جیسا کہ جب یزید کو امام(ع) کی شہادت کی خبر ملی تو بہت خوش ہوا، ابن زیاد کی تشویق کو تکریم کی، اور اس کو انعام و اکرام سے نوازا، سبط بن جوزی لکھتے ہیں کہ اس کام پر یزید نے ابن زیاد کی بڑی تعریف و تمجید کی اور اس کے لیے قیمتی ہدایا بھجوائے، محفل شراب و شباب سجائی، اور اپنے گھر کی ایک فرد کی طرح اس کے ساتھ برتاؤ کیا ۔ ۔ ۔ " (۱۱)
اور پھر اگر یزید، ابن زیاد کے اس عمل سے راضی نہیں تھا اور وہ اس کے اس عمل سے ناراض تھا تو اسے چاہیے تھا کہ اسے عزل کر دیتا، لیکن نہ صرف یہ کہ عزل نہیں کیا؟ بلکہ بر عکس تاریخ بتاتی ہے کہ جب ابن زبیر نے قیام کیا سنہ ۶۳ ھ، ق، میں تو یزید نے ابن زیاد کو ابن زبیر کے خلاف جنگ کی دعوت دی۔(۱۲)
لہذا ابن زیاد پر یزید کا غصہ ایک ڈھونگ تھا اور کچھ بھی نہیں ، بلکہ یہ کہا جائے کہ امام سجاد علیہ السلام اور حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی تقریر کے بعد حالات کے بگڑنے کے خوف سے یزید نے یہ مکاری کا کھیل کھیلا تھا۔
تاریخ میں یہ بھی ملتا ہے کہ جب سرہائے شہداء یزید کے دربار میں لائے گئے تو یزید گستاخانہ انداز میں امام علیہ السلام کے دندان مبارک پر اپنی چھڑی سے ضرب لگا لگا کر بیہودہ اشعار پڑھ رہا تھا،(۱۳) اور بنی ہاشم سے بنی امیہ کے انتقام لینے کا قصیدہ پڑھ رہا تھا، اور کہتا تھا کہ ہم نے جنگ بدر کا انتقام لے لیا ، انہیں اشعار میں نبوت کی تکذیب بھی کر رہا تھا، جیسا کہ کہتا ہے:
لعبت هاشم بالملك فلا. خبر جاء ولا وحي نزل " (۱۴)
"بنی ہاشم نے حکومت کا کھیل کھیلا ہے نہ کوئی خبر آسمان سے آئی ہے اور نہ کوئی وحی نازل ہوئی ہے"
بہرحال واضح ہے کہ یزید کا امام علیہ السلام کے قتل پر افسوس کرنا ایک سیاسی عمل تھا نہ کی درگاہ الہی میں توبہ استغفار۔
اور اگر واقعی اس نے توبہ کی تھی تو عملی طور پر اس کے آثار دکھائی دینے چاہئیں، جبکہ اس کے برخلاف دیکھنے کو ملتا ہے، اس لیے کہ کہ واقعہ عاشورا کے بعد اس نے اپنی باقیماندہ دو سال کی حکومت میں دو عظیم گھناؤنی جنایت کا ارتکاب کیا ہے، کہ آج تک دنیائے اسلام جس کو بیان کرنے سے شرمندہ ہے۔
ایک "واقعہ حرہ" ہے جس میں اس نے مدینۃ الرسول کو تین دن کے لیے اپنے سپاہیوں کے لئے مباح کر دیا تھا کہ جس کی تفصیل بہت شرمناک ہے،
اور دوسرا مکہ مکرمہ پر منجنیق سے حملہ ہے، کہ جس میں آگ کے گولوں سے خانہ کعبہ کو نذر آتش کیا گیا۔
خلاصہ یہ کہ تاریخی نقطہ نظر سے یہ بات مسلم ہے کہ نہ صرف یہ کہ یزید کے توبہ کرنے کی کوئی علامت نہیں پائی جاتی بلکہ تمام علامتیں اس کے توبہ نہ کرنے کے اوپر واضح ہیں ، لہذا یزید کے اوپر لعنت کا جواز اور اس کی دلیل تمام مسلمانوں کے نزدیک واضح و آشکار ہے۔
اور جب تاریخی نقطہ نظر سے یزید کا توبہ کرنا ثابت نہیں ہے تو یہ بحث پیش ہی نہیں آتی کہ کیا یزید جیسے شخص کی توبہ قبول ہے؟۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
(۱) الامامۃ و السیاسۃ ؛ جلد ۲ ؛ صفحہ ۸۔
(۲) سبط بن جوزی ؛ تذکرۃ الخواص ؛ صفحہ ۲۵۶.
(۳) الکامل فی التاریخ ، جلد ۲ ، صفحہ ۵۷۸.
(۴) تاریخ یعقوبی؛ جلد ۲ ، صفحہ ۲۴۱.
(۵) سبط بن جوزی، تذکرۃ الخواص؛ جلد ۲ ، صفحہ ۲۴۹.
(٦) تاریخ یعقوبی، جلد ۲ ، صفحہ ۲۴۹.
(۷) ابن عبد ربہ؛ العقد الفرید؛ جلد ۵ ، صفحہ ۱۳۰.
(٨) تجارب الامم، جلد ۲، صفحہ ۷۷.
(۹) تاریخ یعقوبی، جلد ۲ ، صفحہ ۲۴۸.
(۱۰) تاریخ یعقوبی، جلد ۲ ، صفحہ ۲۵۴.
(۱۱) تذکرۃ الخواص، صفحہ ۲۹ ۔
(۱۲) تجارب الامم، جلد ۲ ، صفحہ ۷۷.
(۱۳) تاریخ یعقوبی ؛ جلد ۲ ،صفحہ ۲۴۵.
(۱۴) مقتل خوارزمی؛ جلد ۲ ،صفحہ صفحہ ۵۸.