۷ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۷ شوال ۱۴۴۵ | Apr 26, 2024
شهادة الامام علي عليه السلام

حوزہ/ امام علی علیہ السلام نے اسلام کا نہایت شجاعانہ دفاع کیا ہے ۔ انہوں نے جنگ میںبھی دعوت امن کا سلسلہ مقدم رکھا ۔ مقابل آئے لشکرکا کبھی پیچھا نہیں کیا۔ ایسے مرد مجاہد کا مقابلہ بھلا کس کے بس کی بات تھی ۔ جب انسان کے پاس اپنی اختیاری قوت ختم ہوجاتی ہے تو وہ شیطانی سازشوں کا سہارا لینے لگتا ہے ۔ امام کو اسی شیطانی سازش کے تحت شہید کیا گیا۔

تحریر: مولانا عظمت علی،مبارک پور، اعظم گڑھ

حوزہ نیوز ایجنسی। جس وقت دنیا کی عظیم طاقتیں اسلام کے خلاف سر غرور اٹھائے ہاتھوں میں برہنا شمشیرلئے کھڑی تھیں اور ان کی وحشیانہ طاقتیں پورے شد و مد کے ساتھ اسلام کو چباجانے پر تلی ہوئی تھیں ، اس وقت ایک مرد مجاہد اٹھاجس نے تمام مخالفتوں کاطوفان تھام لیا۔ جس جنگ میں شمشیر بکف ہوالشکر کا صفایا ہوگیا اور یوں عظیم قوتوں کا غرور چکنا چور ہوتا گیا۔ جب عمرو بن عبدود کو اسلام کے خلاف بھیجا گیا تو عرب کے سارے سورما دبک کربیٹھ گئے ۔ اس وقت بھی اسلام کا یکتاجری بلند ہوااور تاریخ عرب کے عظیم بہادرکا باب سمٹ کر رہ گیا۔
امام علی علیہ السلام نے اسلام کا نہایت شجاعانہ دفاع کیا ہے ۔ انہوں نے جنگ میںبھی دعوت امن کا سلسلہ مقدم رکھا ۔ مقابل آئے لشکرکا کبھی پیچھا نہیں کیا۔ ایسے مرد مجاہد کا مقابلہ بھلا کس کے بس کی بات تھی ۔ جب انسان کے پاس اپنی اختیاری قوت ختم ہوجاتی ہے تو وہ شیطانی سازشوں کا سہارا لینے لگتا ہے ۔ امام کو اسی شیطانی سازش کے تحت شہید کیا گیا۔
۳۷؍ہجری کا دور ہے ۔جنگ صفین جاری ہے ۔ اعلان فتح قریب ہے ۔ لشکر شام کے لیے شکست فاش کے آثار نمایاں ہوچکے تھے کہ یکایک عمر و عاص نےفریب کا سہارا لے لیا۔ اہل شام نے قرآن کو نیزوں پر بلند کردیا اور نعرہ لگانے لگے کہ اب ہمارے درمیان قرآن ہی فیصلہ کرے گا۔ یہ سیاسی داؤ اتنا پرفریب تھا کہ امام کے سپاہی کاایک حصہ ،بارہ ہزارکی تعداد اس جال میں پھنس گئی۔ و ہ کہنے لگے کہ ہم ان سے ہر گزجنگ نہیں کریں گے ۔ امام نے انہیں سمجھایا کہ یہ محض ایک چال ہے ۔ میں قرآن ناطق ہوں ۔ مگر موڑی عقل والوں کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ انہوں نے امام پر دباؤ ڈالاکہ اگر وہ ان کے خلاف جاتے ہیں تو بغاوت ہوجائے گی اور آپ کو قتل کردیں گے۔ جب حالات نے بے وفائی کردی تو امام نے حکمیت کے سامنے خاموشی اختیار کرلی ۔معاویہ نے اپنے نمائندہ کے طور پر تو عمر و عاص کو چن لیا تھا چوں کہ چالاکی میں وہ بے مثال تھا ۔ امام علی علیہ السلام نے انتخاب نمائندہ میں عبد اللہ ابن عباس (تاریخ یعقوبی ، احمد بن ابو یعقوب یعقوبی، جلد؍۲، صفحہ؍۱۸۹،اشاعت:دارصادر، اشاعت اول، بیروت)یا مالک اشتر(المنتظم، عبد الرحمن ابن علی ،ابن جوزی، جلد؍۵، صفحہ؍۱۲۲، ناشر: دارالکتب العلمیہ،بیروت، سن اشاعت:۱۴۱۲، اشاعت اول)یا بعض تاریخی شواہد کی بناپر ابو الاسود دئلی کو منتخب کرنے کے حق میں تھے لیکن یہاں بھی جن سپاہیوں نے آپ کو حَکم پر مجبور کیا ہوا تھا،انہی نے ابوموسیٰ اشعری کی نمائندگی پراصرار کیا اور بضد ہوگئے۔حالانکہ امام نے ان کے فیصلہ کے خلاف ارشاد بھی فرمایاکہ ’تم نے ابتدامیں میرے حکم کی مخالفت کی اور اس وقت بھی میری باتوں کو نہیں سن رہے ہو۔میں ابو موسیٰ اشعری کو منتخب کرنے کے حق میں نہیں ہوں ۔ ‘
انہوں نے کہا:ہم صرف ابو موسیٰ اشعری پر ہی راضی ہوں گے ۔(ورنہ نہیں !)
امام نے فرمایا:تم پر وائے ہو! وہ قابل اعتماد انسان نہیں ۔اس نے لوگوں کو مجھ سے دور کردیا ہے اور میرے خلاف اقدام بھی کرچکا ہے ۔ (مروج الذہب و معادن الجوہر، علی ابن حسین مسعودی، جلد؍۲، صفحہ؍۳۹۱،تحقیق:اسعدداغر، ناشر:دارالہجرہ، قم ، اشاعت دو م ، ۱۴۰۹)
بالآخر !ابو موسیٰ اشعری کو منتخب کیا گیا ۔ اس میں اور عمرو عاص میں گفتگو ہوئی کہ دونوں (امام علی اور معاویہ)کو خلافت سے جدا کردیتے ہیں اور ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جو خلیفہ کا انتخاب کرے ۔یہ بات تو طے پائی لیکن اعلان کا وقت آیاتو عمر وعاص نے ابوموسیٰ اشعری کو مقدم کیا اور اس نے امام علی علیہ السلام کو خلافت سے محروم ہونے کا اعلان کردیا ۔اس نے کہا: میں جس طرح اس انگوٹھی کو اپنے انگلی سے جدا کررہاہوں اسی طرح علی کو خلافت سے جداکرتا ہوں ۔ عمرو عاص مکار اور جھوٹا تھا ، سو اس نے فیصلہ کے خلاف حکم سنادیا اور کہا کہ ابو موسیٰ نے جو کہا وہ تو آپ لوگوں نے سن لیا ۔ اب میں کہتا ہوں کہ معاویہ خلیفہ ہے اور میں اس کی خلافت پر پابند ہوں اور جس طرح اس انگوٹھی کو اپنے ہاتھ میں برقرار کررہاہوں ، اسی طرح معاویہ کو بھی خلافت پر برقرار کرتا ہوں۔ اس طرح سے صفین کی جنگ کا اختتام ہوگیا۔ معاویہ شکست کے دہانے پر آنے کے باوجود محفوظ رہا اور امام علی علیہ السلام کے لشکرکی ضد اور کوتاہی فکری نے امام کو فتح جنگ سے محروم کردیا ۔ ساتھ ہی آپ کے جانی دشمن بھی ہوگئے۔
فیصلہ کو قبول کرنے کے بعد وہ اپنے ارادہ سے پلٹ گئے اور اس فیصلہ کی تائید کرنے والے کو کافر شمار کرنے لگے ۔ اس لیے انہوں نے امام کو بھی توبہ کی دعوت دی ۔امام نے توبہ نہیں کی کیوں کہ انہوں نے کوئی گناہ نہیں کیا تھا۔ انہیں جنگ صفین کے لیے دعوت دی مگر انہوں نے تو ایک الگ ہی جنگ کا ارادہ بنالیا تھا۔ وہ معاویہ نہیں ، امام علی علیہ السلام کے خلاف نکل کھڑے ہوئے تھے ۔انہوں نے عبد اللہ بن وہب کے ہاتھوں بیعت کرلی اور کوفہ سے نہروان کی جانب نکل پڑے ۔ راستہ میں بے گناہوں کا قتل کیا۔ امام نے ان کے سامنے اتمام حجت کی مگر وہ اپنی ضد پر اڑے رہے جس کے نتیجہ میں۳۸؍ہجری میں جنگ نہروان واقع ہوئی ۔یہ معرکہ حق و باطل اتنا گھمسان لڑاگیا کہ خوارج میں گنتی کے دس بھی نہیں بچے اور امام کے سپاہیوں میں سے دس سے زائدشہید بھی نہیں ہوئے جیسا کہ امام نے پہلےہی باخبر کردیا تھا۔ (نہج البلاغہ، خطبہ ؍۱۵۹)
اب یہ جنگ ہارے ہوئے خوارج عراق واپس لوٹے ۔انہیں اپنے احباب کے کھوجانے کا غم باربار ستائے جارہا تھا اور ان کی نگاہ میں ان سب کے ذمہ دارامام علی علیہ السلام تھے۔ اس لیے وہ قتل امام کے درپے ہوگئے ۔ دشمنی تو پہلے بھی تھی لیکن جنگ نہروان کے بعد ان کے انتقامی نظریہ میں شدت پیدا ہوگئی ۔۳۹؍ہجری کو ایام حج میںیہ لوگ مکہ میں جمع ہوئے ۔ وہاں اپنےمقتول پر آنسو بہائے اور ان کا ماتم کیا۔ پھر اپنے غصہ کی آگ نکالنے پر غور و فکر کرنے لگے ۔ طے یہ پایا کہ اس وقت امت مسلمہ میں تین ہی افراد ہیں جن کے ہاتھ میں زمام حکومت ہے ۔ انہیں قتل کردیا جائے تو قصہ تمام ہوجائے گا۔ علی ابن ابی طالب ، معاویہ ابن ابو سفیان اور عمر و عاص ۔ عبد الرحمٰن ابن ملجم نے امام علی علیہ السلام ، برک بن عبید اللہ تمیمی نے معاویہ ابن ابو سفیان اور عمروبن بکر تمیمی نے عمر و عاص کے قتل کا ذمہ اٹھا لیا۔ معاہدہ میں یہ فیصلہ لیاگیا کہ یہ مخفیانہ عمل ہے جسےچالیسویں ہجری کے انیسویں رمضان کی شب میں انجام دیاجا نا ہے ۔ تینوں اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے نکل گئے ۔ ( تاریخ الامم و الملوک، ج ؍۴، ص؍۱۱۰ ؛ انساب الاشراف، ج؍۲، ص؍ ۴۹۰،مناقب آل ابی طالب، ج؍۳، ص؍۳۱۱)
ابن ملجم کوفہ کی جانب ، برک بن عبید اللہ تمیمی شام کی جانب اور عمر و بن بکر تمیمی راہی مصر ہوگیا۔ ابن ملجم کوفہ پہنچا، اپنے عزیزوںسے ملاقات کی مگر اپنے مقصد کو مخفی ہی رکھایہاں تک کہ ایک روز قبیلہ ’تیم الرباب ‘سے ملاقات کی ۔ انہیں اپنے لوگوں کی موت کا بہت صدمہ تھا۔ اسی سلسلہ میں اس کی ملاقا ت ایک نہایت حسین و جمیل عورت ’قطام‘سے ہوئی۔ اس کے باپ اور بھائی کی موت جنگ نہروان میں ہوئی تھی ۔ اس لیے اسے بھی امام سے بغض تھا۔ ابن ملجم نے اس سے شادی کی خواہش کی ۔ اس نے مہرمیں تین ہزاردرہم ، ایک غلام ، ایک کنیزاور امام علی علیہ السلام کا قتل مانگا۔(بحار الانوار، ج 42، ص 267؛ تاریخ الامم و الملوک، ج 4، ص 116 ؛الاخبار الطوال، ص 214؛ مناقب آل ابی طالب، ج3 ، ص 311؛ الارشاد، ج1 ص 22) اسی بات پر اس نے اپناراز کھول دیا اور کہا کہ میں تو اسی کام کے لیے ہی کوفہ آیا ہوں ۔وردان بن ماجد تمیمی،شبیب بن بجرہ ،عمرو عاص کےوکیل اور اشعت بن قیس کی ملی جلی شیطانی چال نے انیسویں رمضان ،سن چالیس ہجری کو مسجد کوفہ میں امام علی علیہ السلام کو شہید کردیا۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .